مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا:
(۱) جس نے خیال کیا کہ محمد
صلی اللہ علیہ وسلم نے
(معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑی بہتان لگائی۔ کیونکہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے
«لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير» ”کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پا سکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے
(یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سبھی کو دیکھ لیتا ہے) اور اس کی ذات لطیف و خبیر ہے
“،
«وما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب» ”کسی انسان کو بھی یہ مقام و درجہ حاصل نہیں ہے کہ اللہ اس سے بغیر وحی کے یا بغیر پردے کے براہ راست اس سے بات چیت کرے
“،
(وہ کہتے ہیں) میں ٹیک لگائے ہوئے تھا اور اٹھ بیٹھا، میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے بولنے کا موقع دیجئیے اور میرے بارے میں حکم لگانے میں جلدی نہ کیجئے گا، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:
«ولقد رآه نزلة أخرى» ”بیشک محمد نے اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا
“ (النجم: ۱۳) «ولقد رآه بالأفق المبين» ”بیشک انہوں نے اسے آسمان کے روشن کنارے پر دیکھا
“ (التکویر: ۲۳) تب عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: قسم اللہ کی! میں وہ پہلی ذات ہوں جس نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا:
”وہ تو جبرائیل علیہ السلام تھے
(ان آیتوں میں میرے دیکھنے سے مراد جبرائیل علیہ السلام کو دیکھنا تھا، اللہ کو نہیں) ان دو مواقع کے سوا اور کوئی موقع ایسا نہیں ہے جس میں جبرائیل علیہ السلام کو میں نے ان کی اپنی اصل صورت میں دیکھا ہو۔ جس پر ان کی تخلیق ہوئی ہے، میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا ہے، ان کی بناوٹ کی بڑائی یعنی بھاری بھر کم جسامت نے آسمان و زمین کے درمیان جگہ کو گھیر رکھا تھا
“،
(۲): اور دوسرا وہ شخص کہ جو اللہ پر جھوٹا الزام لگانے کا بڑا مجرم ہے جس نے یہ خیال کیا کہ اللہ نے محمد
صلی اللہ علیہ وسلم پر جو چیزیں اتاری ہیں ان میں سے کچھ چیزیں محمد
صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپا لی ہیں۔ جب کہ اللہ کہتا ہے
«يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» ”جو چیز اللہ کی جانب سے تم پر اتاری گئی ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو
“ (النساء: ۶۷)،
(۳): وہ شخص بھی اللہ پر جھوٹا الزام لگانے والا ہے جو یہ سمجھے کہ کل کیا ہونے والا ہے، محمد اسے جانتے ہیں، جب کہ اللہ خود کہتا ہے
«قل لا يعلم من في السموات والأرض الغيب إلا الله» ”کہ آسمان و زمین میں غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
● صحيح البخاري | 7531 | عائشة بنت عبد الله | من حدثك أن النبي كتم شيئا من الوحي فلا تصدقه إن الله يقول يأيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك وإن لم تفعل فما بلغت رسالته |
● صحيح البخاري | 3234 | عائشة بنت عبد الله | من زعم أن محمدا رأى ربه فقد أعظم لكن قد رأى جبريل في صورته وخلقه ساد ما بين الأفق |
● صحيح البخاري | 4612 | عائشة بنت عبد الله | من حدثك أن محمدا كتم شيئا مما أنزل الله عليه فقد كذب والله يقول يأيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك |
● صحيح البخاري | 7380 | عائشة بنت عبد الله | من حدثك أن محمدا رأى ربه فقد كذب وهو يقول لا تدركه الأبصار |
● صحيح البخاري | 4855 | عائشة بنت عبد الله | لقد قف شعري مما قلت أين أنت من ثلاث من حدثكهن فقد كذب من حدثك أن محمدا رأى ربه فقد كذب قرأت لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير ما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب وم |
● صحيح مسلم | 439 | عائشة بنت عبد الله | إنما هو جبريل لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض فقالت أولم تسمع أن الله يقول لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير |
● جامع الترمذي | 3068 | عائشة بنت عبد الله | إنما ذاك جبريل ما رأيته في الصورة التي خلق فيها غير هاتين المرتين رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء والأرض ومن زعم أن محمدا كتم شيئا مما أنزل الله عليه فقد أعظم الفرية على الله يقول الله يأيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك |
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3068
´سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا: (۱) جس نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑی بہتان لگائی۔ کیونکہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير» ”کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پا سکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے (یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سبھی کو دیکھ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3068]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بے شک محمد نے اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (النجم: 13)
2؎:
بے شک انہوں نے اسے آسمان کے روشن کنارے پر دیکھا (التکویر: 23)
3؎:
جو چیز اللہ کی جانب سے تم پر اتاری گئی ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو (النساء: 67)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3068