الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نماز کے احکام و مسائل
The Book of Prayers
47. باب سُتْرَةِ الْمُصَلِّي:
47. باب: نمازی کا سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا استحباب، اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنا، اور گزرنے والے کا حکم اور گزرنے والے کو روکنا، نمازی کے آگے لیٹنے کا جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کا حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کا بیان۔
Chapter: The Sutrah (Screen) For One Who Is Praying, And The Recommendation To Pray Facing A Sutrah. The Ruling On Passing In Front Of One Who Is Praying, And Preventing One Who Wants To Pass In Front. It Is Permissible To Lie Down In Front Of One Who Is Praying, Praying Towards One's Mount. The Command To Stand Close To The Sutrah. The Height Of The Suirah, And Related Matters
حدیث نمبر: 1120
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني محمد بن حاتم ، حدثنا بهز ، حدثنا عمر بن ابي زائدة ، حدثنا عون بن ابي جحيفة ، ان اباه " راى رسول الله صلى الله عليه وسلم، في قبة حمراء من ادم، ورايت بلالا اخرج وضوءا، فرايت الناس يبتدرون ذلك الوضوء، فمن اصاب منه شيئا، تمسح به، ومن لم يصب منه، اخذ من بلل يد صاحبه، ثم رايت بلالا اخرج عنزة فركزها، وخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في حلة حمراء مشمرا، فصلى إلى العنزة بالناس ركعتين، ورايت الناس والدواب يمرون بين يدي العنزة ".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، حَدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ أَبِي جُحَيْفَةَ ، أَنَّ أَبَاهُ " رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِلَالًا أَخْرَجَ وَضُوءًا، فَرَأَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُونَ ذَلِكَ الْوَضُوءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا، تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ، أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ، ثُمَّ رَأَيْتُ بِلَالًا أَخْرَجَ عَنَزَةً فَرَكَزَهَا، وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مُشَمِّرًا، فَصَلَّى إِلَى الْعَنَزَةِ بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ يَمُرُّونَ بَيْنَ يَدَيِ الْعَنَزَة ".
۔ عمر بن ابی زائدہ سے روایت ہے کہ مجھے عون بن ابی جحیفہ نے حدیث بیان کی کہ ان کے والد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چمڑے کے سرخ خیمے میں دیکھا (کہا:) اور میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ آپ کے وضو کا پانی باہر لے آئے تو میں نے دیکھا لوگ اس پانی کو لینے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کو اس سے کچھ پانی مل گیا اس نے اس کو بدن پر مل لیا اور جس کو اس سے نہ ملا تو اس نے اپنے ساتھ کے ہاتھ کی نمی سے نمی حاصل کر لی، پھر میں نے بلال کو دیکھا انہوں نے ایک نیزہ نکالا اور کو گاڑ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرخ حلہ پہنے ہوئے نکلے جو آپ نے پنڈلیوں تک اونچا کیا ہوا تھا، آپ نے نیزے کی طرف رخ کر کے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی اور میں نے لوگوں اور چوپایوں کو نیزے کے سامنے سے گزرتے ہوئے دیکھا۔
عون بن ابی جحیفہ سے روایت ہے کہ اس کے باپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چمڑے کے سرخ خیمہ میں دیکھا، اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا، اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی باہر نکالا اس نے کہا تو میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اس پانی کو لینے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کو اس سے کچھ پانی مل گیا، اس نے اس کو بدن پر مل لیا اور جس کو نہ ملا اس نے اپنے ساتھی کے تر ہاتھ سے ہاتھ تر کیا، پھر میں نے بلال کو دیکھا، اس نے ایک نیزہ نکالا اور اس کو گاڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرخ جوڑے میں اس کو اوپر اٹھائے ہوئے نکلے یا جلدی سے نکلے اور نیزہ کی طرف رخ کر کے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی اور میں نے لوگوں اور چوپاؤں کو دیکھا وہ نیزہ کے سامنے سے گزر رہے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 503
   صحيح البخاري376وهب بن عبد اللهرأيت رسول الله في قبة حمراء من أدم رأيت بلالا أخذ وضوء رسول الله ورأيت الناس يبتدرون ذاك الوضوء فمن أصاب منه شيئا تمسح به ومن لم يصب منه شيئا أخذ من بلل يد صاحبه رأيت بلالا أخذ عنزة فركزها وخرج النبي صلى الله عليه
   صحيح البخاري634وهب بن عبد اللهرأى بلالا يؤذن فجعلت أتتبع فاه ها هنا وها هنا بالأذان
   صحيح البخاري5859وهب بن عبد اللهأتيت النبي في قبة حمراء من أدم رأيت بلالا أخذ وضوء النبي والناس يبتدرون الوضوء فمن أصاب منه شيئا تمسح به ومن لم يصب منه شيئا أخذ من بلل يد صاحبه
   صحيح مسلم1120وهب بن عبد اللهرأى رسول الله في قبة حمراء من أدم رأيت بلالا أخرج وضوءا فرأيت الناس يبتدرون ذلك الوضوء فمن أصاب منه شيئا تمسح به ومن لم يصب منه أخذ من بلل يد صاحبه رأيت بلالا أخرج عنزة فركزها وخرج رسول الله في حلة حمراء مشمرا فصل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 634  
´ کیا مؤذن اذان میں اپنا منہ ادھر ادھر (دائیں بائیں) پھرائے`
«. . . عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ،" أَنَّهُ رَأَى بِلَالًا يُؤَذِّنُ، فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُ فَاهُ هَهُنَا وَهَهُنَا بِالْأَذَانِ . . .»
. . . عون بن ابی حجیفہ سے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے کہ انھوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 634]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں اذان کے وقت اِدھر اُدھر منہ کرنے کو پیش فرمایا ہے یہاں مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ نماز کے لئے وضو شرط ہے اور بندہ نماز میں التفات اِدھر اُدھر اپنے منہ نہیں کر سکتا اس لئے کہ نماز میں قبلہ رو ہونا شرط ہے، لہٰذا جب اذان میں اِدھر اُدھر بندہ اپنا منہ کر سکتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے لئے وضو شرط نہیں ہے جیسا کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل نقل کیا کہ آپ علیہ السلام ہر حالت میں ذکر فرماتے تھے تو معلوم ہوا کہ ہر حالت میں ذکر کرنے کے لئے وضو شرط نہیں اور اذان دینا بھی ایک ذکر ہے اور اس پر بھی وضو شرط نہیں ہے۔
◈ ابوجحیفہ سے جو اثر منقول ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ اذان میں اِدھر اُدھر منہ کیا کرتے تھے یہ بھی اسی مسئلہ پر دال ہے۔ «والله اعلم»
◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «غرضه اثبات ان الأذان غير ملحق بالصلاة فى الاحكام ولا يشترط فيه الاستقبال، وبهذا يتحقق المناسبة بين الترجمة والاثار الواردة فيه» [شرح تراجم ابواب البخاري، ص202]
امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ آپ ثابت کر رہے ہیں کہ اذان نماز کے ساتھ ملحق نہیں ہے اور نہ ہی اس میں (بیت اللہ کی طرف منہ کرنا) استقبال کی کوئی شرط ہے۔
لہٰذا یہی مناسبت ہے ترجمۃ الباب کی ان آثار کے ساتھ جو وارد ہوئے ہیں۔
◈ امام عبدالله بن سالم البصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لأن الأذان من جملة الاذكار فلا يشترط فيه ما يشترط فى الصلاة من الطهارة ولا من استقبال القبلة كما لا يستحب فيه الخشوع الذى ينافيه الالتفات» [ضياء الباري فى مالك ابواب البخاري، ج7، ص74]
اذان دراصل اذکار میں سے ہے اس (کی ادائیگی کے لئے) وہ شرائط نہیں ہیں جو نماز کی ہیں۔ جیسے کہ طہارت کا ہونا، قبلہ رو ہونا اور اس میں خشوع کا ہونا بھی مستحب نہیں ہے جو التفات کے منافی ہو (یعنی اذان میں التفات کر سکتے ہیں)۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب میں یہ مقصود ہے کہ مؤذن دائیں اور بائیں طرف التفات کر سکتا ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ میں (اذان دیتے ہوئے) اپنے منہ کو ادھر ادھر یعنی دائیں اور بائیں پھیرتا «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» پر۔
ان تصریحات کا حاصل یہ ہے کہ اذان میں جب التفات ہو سکتا ہے تو اس کا حکم نماز کا نہیں ہے کیونکہ نماز میں خشوع اور خضوع کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ بس جب اذان کا حکم نماز جیسا نہیں تو اس کے لئے طہارت بھی شرط نہیں۔ یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 182   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1120  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر امام کے آگے سترہ ہوتو اس کے سامنے سے گزرنے کی صورت میں نماز متاثر نہیں ہوتی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1120   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.