الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سورج اور چاند گرہن کے احکام
The Book of Prayer - Eclipses
1. باب صَلاَةِ الْكُسُوفِ:
1. باب: کسوف کی نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 2089
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، عن مالك بن انس ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة . ح وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة واللفظ له قال: حدثنا عبد الله بن نمير ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: خسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فاطال القيام جدا، ثم ركع فاطال الركوع جدا، ثم رفع راسه فاطال القيام جدا، وهو دون القيام الاول، ثم ركع فاطال الركوع جدا، وهو دون الركوع الاول، ثم سجد، ثم قام فاطال القيام، وهو دون القيام الاول، ثم ركع فاطال الركوع، وهو دون الركوع الاول، ثم رفع راسه، فقام فاطال القيام، وهو دون القيام الاول، ثم ركع فاطال الركوع، وهو دون الركوع الاول، ثم سجد ثم انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد تجلت الشمس، فخطب الناس فحمد الله واثنى عليه، ثم قال: " إن الشمس والقمر من آيات الله، وإنهما لا ينخسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتموهما فكبروا وادعوا الله، وصلوا وتصدقوا يا امة محمد، إن من احد اغير من الله ان يزني عبده او تزني امته، يا امة محمد والله لو تعلمون ما اعلم لبكيتم كثيرا ولضحكتم قليلا، الا هل بلغت ". وفي رواية مالك: " إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَال: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَأَطَالَ الْقِيَامَ جِدًّا، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ جِدًّا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَأَطَالَ الْقِيَامَ جِدًّا، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ جِدًّا، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، وَإِنَّهُمَا لَا يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَكَبِّرُوا وَادْعُوا اللَّهَ، وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، إِنْ مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ، يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَلَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ ". وَفِي رِوَايَةِ مَالِكٍ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ".
‏‏‏‏ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گہن ہوا، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے اور بہت دیر تک قیام کیا، پھر رکوع کیا اور بہت لمبا رکوع کیا، پھر سر اٹھایا، اور دیر تک کھڑے رہے، اور بہت قیام کیا، مگر پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا، مگر پہلے رکوع سے کم، پھر سجدہ کیا (یہ ایک رکعت میں دو رکوع ہوئے۔ اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے) پھر کھڑے ہوئے اور دیر تک قیام کیا مگر قیام اول سے کم۔ پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا مگر پہلے رکوع سے کم۔ پھر سر اٹھایا اور دیر تک کھڑے رہے، مگر قیام اول سے کم، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا، مگر پہلے رکوع سے کم، (یہ بھی دو رکوع ہوئے) پھر سجدہ کیا اور فارغ ہوئے اور آفتاب اتنے میں کھل گیا تھا۔ پھر لوگوں پر خطبہ پڑھا اور اللہ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا: سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اور ان میں گہن نہیں لگتا کسی کی موت سے، نہ زندگی سے۔ پھر جب تم گہن دیکھو تو اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس سے دعا کرو اور نماز پڑھو اور خیرات کرو۔ اے امت محمد! اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں اس بات میں کہ اس کا غلام یا باندی زنا کرے۔ اے محمد کی امت! اللہ کی قسم ہے جو میں جانتا ہوں اگر تم جانتے ہوتے تو بہت روتے اور تھوڑا ہنستے۔ سن لو! میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا۔ اور مالک کی روایت میں یہ ہے کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 901
   سنن أبي داود1177عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته
   صحيح مسلم2089عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر من آيات الله لا ينخسفان لموت أحد
   صحيح مسلم2091عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد
   صحيح مسلم2096عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا يكسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن أبي داود1191عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته
   صحيح البخاري1044عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته
   صحيح البخاري1058عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته لكنهما آيتان من آيات الله يريهما عباده
   سنن ابن ماجه1263عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته
   صحيح البخاري3203عائشة بنت عبد اللهآيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن النسائى الصغرى1473عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن النسائى الصغرى1471عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن النسائى الصغرى1475عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن النسائى الصغرى1501عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن النسائى الصغرى1498عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا ينخسفان لموت أحد ولا لحياته
   مسندالحميدي179عائشة بنت عبد اللهعايذ بالله من ذلك
   مسندالحميدي180عائشة بنت عبد الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1177  
´نماز کسوف کا بیان۔`
عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس کو میں سچا جانتا ہوں (عطا کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس سے ان کی مراد عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں) کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبا قیام کیا، آپ لوگوں کے ساتھ قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے، پھر قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے پھر قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں ہر رکعت میں آپ نے تین تین رکوع کیا ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیسرا رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے یہاں تک کہ آپ کے لمبے قیام کے باعث اس دن کچھ لوگوں کو (کھڑے کھڑے) غشی طاری ہو گئی اور ان پر پانی کے ڈول ڈالے گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو «الله أكبر» کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو «سمع الله لمن حمده» کہتے یہاں تک کہ سورج روشن ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی کے مرنے یا جینے کی وجہ سے سورج یا چاند میں گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں، ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے لہٰذا جب ان دونوں میں گرہن لگے تو تم نماز کی طرف دوڑو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1177]
1177۔ اردو حاشیہ:
➊ رکوع کے بعد قیام میں سورت فاتحہ پڑھنے کی صراحت نہیں ہے، صرف دوبارہ قراءت کرنے کا ذکر ہے کیونکہ دوبارہ قرأءت شروع کر دینا ایک ہی رکعت کا تسلسل ہے۔ لہٰذا نئے سرے سے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ تاہم بعض آئمہ دوبارہ سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل ہیں لیکن یہ درست نہیں۔
➋ نماز کسوف میں بھی خطبہ دینا چاہیے، جس میں اہم امور کی نشاندہی کی جائے۔
➌ کسی بڑے چھوٹے کی بشر کی موت حیات کے ساتھ ان اجرام فلکی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
➍ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک اس میں تین رکوع کے الفاظ شاذ ہیں۔ محفوظ الفاظ دو رکوع ہیں جیسا کہ صحیحین میں ہے اور حدیث 1180 میں بھی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1177   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1191  
´سورج یا چاند گرہن لگنے پر صدقہ کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند میں گرہن کسی کے مرنے یا جینے سے نہیں لگتا ہے، جب تم اسے دیکھو تو اللہ عزوجل سے دعا کرو اور اس کی بڑائی بیان کرو اور صدقہ و خیرات کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1191]
1191۔ اردو حاشیہ:
کسوف کے موقع پر معروف نماز کے علاوہ مالی صدقہ کرنا بھی مستحب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1191   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1263  
´سورج اور چاند گرہن کی نماز کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد گئے، اور کھڑے ہو کر «الله أكبر» کہا، لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے صف لگائی، آپ نے لمبی قراءت کی، پھر «الله أكبر» کہا، اور دیر تک رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا، اور «سمع الله لمن حمده‏ ربنا ولك الحمد‏» کہا، پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قراءت کی جو پہلی قراءت سے کم تھی، پھر «الله أكبر» کہا، اور لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر «سمع الله لمن حمده‏ ربنا ولك الحمد‏» کہا، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا، اور چ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1263]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
اس حدیث میں گرہن کی نماز کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔
صحیح اور راحج موقف یہی ہے کہ ہر رکعت میں دو رکوع کئے جایئں اور پہلے رکوع کے بعد دوبارہ قراءت کی جائے۔ (نماز کسوف وخسوف سے متعلق تفصیل کےلئے دیکھئے: (سنن ابودائود (اردو)
دارالسلام حدیث 1177تا 1195)


(2)
پہلے قیام سے اٹھتے ہوئے بھی (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ)
کہا جائے۔
جس طرح عام نمازوں میں رکوع سے اٹھ کرکہا جاتا ہے۔

(3)
یہ نماز سورج اور چاند دونوں کے گرہن کے موقع پر ادا کی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1263   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2089  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
لغوی طور پر کسف،
انکسف اور خسف احادیث کی رو سے ہم معنی ہیں اور شمس و قمر دونوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں اگرچہ بعض نے (فقہاء نے)
شمس کے لیے کسوف اور قمر کے لیے خسوف کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ کسوف کا معنی سیاہی مائل ہونا ہے اور خسوف کا کم ہونا گھٹنا،
ان کی روشنی مکمل طور پر بھی ختم ہو سکتی ہے جزوی طور پر بھی۔
(2)
اہل ہئیت کے نزدیک عام طور پر سورج کو گہن 28،
29 قمری تاریخ کو لگتا ہے اور چاند کو 13،
14 قمری تاریخ کو اور اصولی طورپر ہر چھ ماہ بعد سورج کو گرہن لگنا ممکن ہے اور قاضی محمد سلیمان منصور پوری نے اپنے چھوٹے بھائی وکیل صاحب یعنی قاضی عبدالرحمٰن کے حوالہ سے جو علم ہئیت کے بہت بڑے ماہر تھے۔
یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سالہ دور نبوت میں 19 دفعہ کسوف شمس ہوا ہے اور بقول بعض خسوف قمر صرف دو دفعہ اور بقول امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ آپ نے 5 ہجری میں نماز خسوف قمر پڑھی ہے اور سورج گرہن پہلی دفعہ 9 اپریل 609ء بمطابق 28 ربیع الآخر 40 میلادنبوی میں اور آخری 27 جنوری 632ء بمطابق 29 شوال 10 ہجری بروزسوموار اور ہندوستان میں اس وقت 28 شوال تھا۔
اور یہ وہ دن ہے جس میں آپﷺ کے لخت جگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات ہوئی ہے اور بقول بعض اس وقت دن کے ساڑھے آٹھ بجے تھے۔
اس طرح ہجرت کے بعد سورج کو گرہن دس دفعہ لگا لیکن گرہن لگنے سے اس کا ہر جگہ نظر آنا ضروری نہیں ہے،
اس لیے نماز خسوف میں اختلاف ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صلاۃ الکسوف دو رکعتیں طویل قیام طویل رکوع اور طویل سجود کے ساتھ ہیں اور ہر رکعت میں دو رکوع اور سجدے ہیں۔
(3)
اور پہلے رکوع سے اٹھ کر فاتحہ پڑھ کر قرآءت شروع کی جائے گی اور احناف کے نزدیک صلاۃ الکسوف بھی عام نوافل کی طرح ہیں یعنی ایک رکعت میں ایک ہی رکوع ہے لیکن صحیح مسلم کی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ نے ایک رکعت میں بعض دفعہ دو بعض دفعہ تین اور بعض دفعہ چار رکوع کیے اور سنن ابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ میں پانچ رکوع بھی آئے ہیں اس لیے امام اسحق رحمۃ اللہ علیہ،
ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اور ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کے نزدیک تمام صورتیں جائز ہیں اور بقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ دلیل کی رو سے یہی مذہب قوی ہے اگر صلاۃ کسوف میں تکرار ثابت ہو جائے،
جیسا کہ کسوف کی کثرت کا اور حدیثوں کے اختلاف کا تقاضا ہے تو اس صورت میں تمام صورتوں کے جواز میں کوئی کلام نہیں ہے۔
لیکن اگر نماز میں تکرار ثابت نہ ہو جیسا کہ آئمہ اربعہ کا موقف تو پھر احادیث کو ایک دوسرے پر ترجیح دئیے بغیر چارہ نہیں ہے،
جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک رکعت میں صرف دو رکوع والی روایات ہی مختلف صحابہ سے لائے ہیں لیکن اس صورت میں بلا وجہ صحیح احادیث کو راجح اور مرجوح قرار دینا پڑے گا۔
(4)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صلاۃ الکسوف سنت مؤکدہ ہے اور احناف کے مختلف اقوال ہیں۔
واجب،
سنت مؤکدہ،
سنت غیرہ مؤکدہ اورامام ابو عوانہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک واجب ہے اور یہی دلیل کا تقاضا ہے۔
(5)
شوافع کے نزدیک صلاۃ الکسوف کے لیے کوئی وقت متعین نہیں ہے۔
کیونکہ سورج کے گرہن لگنے کا کوئی متعین وقت نہیں ہے اس لیے جب سورج گہنائےگا اس وقت نماز پڑھی جائے گی اور یہی صحیح موقف ہے احناف اور حنابلہ کے نزدیک اوقات کراہت میں نماز نہیں پڑھی جائے گی۔
اور مالکیہ کے نزدیک اس کا وقت چاشت سے لے کر سورج ڈھلنے تک ہے۔
(6)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں سورج کو آخری گہن اس وقت لگا جس دن آپﷺ کے شیر خوار صاحبزادے ابراہیم علیہ السلام تقریباً ڈیڑھ سال کی عمر کے تھے اور عربوں میں زمانہ جاہلیت کے توہمات میں سے ایک وہم و خیال یہ بھی تھا کہ بڑے لوگوں کی موت و حیات پر سورج کو گہن لگتا ہے اور آپﷺ کے صاحبزادے کی وفات کے دن سورج کے گہن میں آ جانے سے اس توہم پرستی اور غلط عقیدہ کو تقویت پہنچ سکتی تھی اور بعض لوگوں نے اس کا اظہار بھی کیا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعہ پر غیر معمولی خشیت اور انتہائی فکر مندی کا اظہار کیا۔
لوگوں کو خصوصی طورپر صلاۃ کسوف کے لیے مسجد میں الصلاۃ جامعۃ کے الفاظ کے ذریعہ جمع کیا اور نماز میں آپ نے قیام رکوع اور سجدے بھی بہت طویل کیے۔
اثنائے نماز میں دعا بھی بہت اہتمام اور ابہتال کے ساتھ کی نماز کے بعد خطبہ دیا اور اس میں خصوصی طور پر اس خیال کی پرزور تردید کی کہ سورج یا چاند کو گہن کسی بڑے آدمی کی حیات یا موت کی وجہ لگتا ہے یہ تو دراصل اللہ تعالیٰ کی وحدانیت،
قدرت اور صنعت اس کی سطوت وہیبت اور اس کے جلال و جبروت کی نشانی ہے جس کا مقصد لوگوں کو ان کے گناہوں اور جرائم سے باز رکھنا ہے کہ اس ذات کی پکڑ سے بچو جو سورج اور چاند کو بھی بے نور کر سکتا ہے۔
جن کی روشنی سے دنیوی زندگی کا کاروبار چل رہا ہے۔
اس لیے آپﷺ خطبہ میں توبہ و استغفار اور صدقہ و خیرات کرنے کی تلقین فرماتے اور آپﷺ نے فرمایا:
(يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهَا عِبَادَهُ)
اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈرتا ہے
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2089   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.