الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سورج اور چاند گرہن کے احکام
The Book of Prayer - Eclipses
1. باب صَلاَةِ الْكُسُوفِ:
1. باب: کسوف کی نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 2091
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني حرملة بن يحيى ، اخبرني ابن وهب ، اخبرني يونس . ح وحدثني ابو الطاهر ، ومحمد بن سلمة المرادي ، قالا: حدثنا ابن وهب ، عن يونس ، عن ابن شهاب ، قال: اخبرني عروة بن الزبير ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: خسفت الشمس في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المسجد، فقام وكبر وصف الناس وراءه، فاقترا رسول الله صلى الله عليه وسلم قراءة طويلة، ثم كبر فركع ركوعا طويلا، ثم رفع راسه، فقال: " سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد "، ثم قام فاقترا قراءة طويلة هي ادنى من القراءة الاولى، ثم كبر فركع ركوعا طويلا هو ادنى من الركوع الاول، ثم قال: " سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد "، ثم سجد، ولم يذكر ابو الطاهر، ثم سجد، ثم فعل في الركعة الاخرى مثل ذلك، حتى استكمل اربع ركعات واربع سجدات، وانجلت الشمس قبل ان ينصرف، ثم قام فخطب الناس فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال: " إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا يخسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتموها فافزعوا للصلاة "، وقال ايضا: " فصلوا حتى يفرج الله عنكم "، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " رايت في مقامي هذا كل شيء وعدتم، حتى لقد رايتني اريد ان آخذ قطفا من الجنة حين رايتموني جعلت اقدم "، وقال المرادي: " اتقدم ولقد رايت جهنم يحطم بعضها بعضا حين رايتموني تاخرت، ورايت فيها ابن لحي وهو الذي سيب السوائب ". وانتهى حديث ابي الطاهر عند قوله: " فافزعوا للصلاة "، ولم يذكر ما بعده.حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقَامَ وَكَبَّرَ وَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "، ثُمَّ قَامَ فَاقْتَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا هُوَ أَدْنَى مِنَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "، ثُمَّ سَجَدَ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَبُو الطَّاهِرِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، حَتَّى اسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَانْجَلَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ، ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَافْزَعُوا لِلصَّلَاةِ "، وَقَالَ أَيْضًا: " فَصَلُّوا حَتَّى يُفَرِّجَ اللَّهُ عَنْكُمْ "، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأَيْتُ فِي مَقَامِي هَذَا كُلَّ شَيْءٍ وُعِدْتُمْ، حَتَّى لَقَدْ رَأَيْتُنِي أُرِيدُ أَنْ آخُذَ قِطْفًا مِنَ الْجَنَّةِ حِينَ رَأَيْتُمُونِي جَعَلْتُ أُقَدِّمُ "، وقَالَ الْمُرَادِيُّ: " أَتَقَدَّمُ وَلَقَدْ رَأَيْتُ جَهَنَّمَ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ، وَرَأَيْتُ فِيهَا ابْنَ لُحَيٍّ وَهُوَ الَّذِي سَيَّبَ السَّوَائِبَ ". وَانْتَهَى حَدِيثُ أَبِي الطَّاهِرِ عِنْدَ قَوْلِهِ: " فَافْزَعُوا لِلصَّلَاةِ "، وَلَمْ يَذْكُرْ مَا بَعْدَهُ.
حرملہ بن یحییٰ نے مجھے حدیث بیان کی، (کہا) مجھے ابن وہب نے یونس سے خبر دی نیز ابو طاہر اور محمد بن سلمہ مرادی نے کہا: ابن وہب نے یو نس سے حدیث بیان کی انھوں نے ابن شہاب سے روا یت کی انھوں نے کہا مجھے عروہ بن زبیر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر مسجد میں تشریف لے گئے آپ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور تکبیر کہی اور لو گ آپ کے پیچھے صف بستہ ہو گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قراءت فر ما ئی پھر آپ نےاللہ اکبرکہا اور ایک لمبا رکو ع کیا پھر آپ نے اپنا سر اٹھا یا اور سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہا پھر آپ نے قیام کیا اور ایک طویل قراءت کی یہ پہلی (قراءت) سے کچھ کم تھی پھر اللہ اکبرکہا اور کہہ کر طویل رکوع کیا یہ پہلے رکوع سے کچھ کم تھا پھر سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہا پھر سجدہ کیا اور ابو طاہر نے (ثم سجدہ) (پھر آپنے سجدہ کیا) کے الفا ظ نہیں کہے۔پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا حتیٰ کہ چار رکوع اور چار سجدے مکمل کیے اور آپ کے سلام پھیرنے سے پہلے سورج روشن ہو گیا پھر آپ کھڑے ہو ئے اور لو گوں کو خطاب فرمایا اور اللہ تعا لیٰ کی (ایسی) ثنا بیان کی جو اس کے شایان شان تھی پھر فرمایا "سورج اور چاند اللہ تعا لیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں انھیں کسی کی مو ت کی وجہ سے گرہن لگتا ہے نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے جب تم انھیں (گرہن میں) دیکھو تو فوراًنماز کی طرف لپکو۔"آپ نے یہ بھی فرمایا: "اور نماز پڑھتے رہو یہاں تک کہ اللہ تمھارے لیے کشادگی کر دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے اپنی اس جگہ (پر ہو تے ہو ئے) ہر وہ چیز دیکھ لی جس کا تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے حتیٰ کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں جنت کا ایک گچھا لینا چاہتا ہوں اس وقت جب تم نے مجھے دیکھا تھا کہ میں قدم آگے بڑھا رہا ہوں۔اور (محمد بن سلمہ) مرادی نے "آگے بڑھ رہا ہوں "کہا۔۔۔اور میں نے جہنم بھی دیکھی اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو ریزہ ریزہ کر رہا تھا یہ اس وقت جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں پیچھے ہٹا۔اور میں نے جہنم میں عمرو بن لحی کو دیکھا جس نے سب سے پہلے بتوں کی نذر کی اونٹنیاں چھوڑیں۔" ابو طا ہر کی روایت "نماز کی طرف لپکو پر ختم ہو گئی انھوں نے بعد والا حصہ بیان نہیں کیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے آئے نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور تکبیر کہی اور لو گوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھ لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قراءت کی پھر الله اكبر کہ کر طویل رکو ع کیا پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور سَمِعَ الله لِمَن حَمِدَه رَبَّنَا وَلَكَ الحَمدُ کہا پھر کھڑے ہو گئے اور طویل قراءت کی جو پہلی (قراءت) سے کم تھی۔ پھر الله اكبر کہہ کر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر سَمِعَ الله لِمَن حَمِدَه رَبَّنَا وَلَكَ الحَمدُ کہا پھر سجدے کیے اور ابو طاہر نے سجدہ کا ذکر نہیں کیا۔ پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا حتیٰ کہ چار رکوع اور چار سجدے مکمل کر لیے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے سے پہلے سورج روشن ہو گیا پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر لو گوں کو خطاب فرمایا اور اللہ تعا لیٰ کے شایان شان اس کی ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی (قدرتِ قاہرہ اور جلال وجبروت کی) نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں وہ کسی کی مو ت کی وجہ سے گہناتے ہیں نہ کسی کی پیدائش پر۔ جب تم انھیں گرہن میں دیکھو تو فوراً نماز کی پناہ لو۔ اور فرمایا: اور نماز پڑھو حتی کہ اللہ تمھاری مصیبت دور کر کے کشادگی کر دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنی اس جگہ وہ چیز دیکھ لی جس کا تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے حتیٰ کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں جنت کا ایک گچھا لینا چاہتا ہوں جس وقت تم نے مجھے دیکھا تھا کہ میں قدم آگے بڑھا رہا ہوں۔ حرملہ نے اقدم کہا اور مرادی نے اتقدم، آگے بڑھ رہا ہوں) اور میں نے جہنم کو دیکھا کہ اس کا ایک حصہ، دوسرے حصہ کو ریزہ ریزہ کر رہا ہے۔ جس وقت تم نے مجھے دیکھا کہ میں پیچھے ہٹا، اور میں نے جہنم میں ابن لحی کو دیکھا جس نے سب سے پہلے سائبہ کوچھوڑا۔ ابوطاہر کی روایت فافزعوا إلى الصلاة فوراً نماز کی پناہ لو پر ختم ہوگئی۔ اس نے بعد والا حصہ بیان نہیں کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 901
   سنن أبي داود1177عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته
   صحيح مسلم2089عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر من آيات الله لا ينخسفان لموت أحد
   صحيح مسلم2091عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد
   صحيح مسلم2096عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا يكسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن أبي داود1191عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته
   صحيح البخاري1044عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته
   صحيح البخاري1058عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته لكنهما آيتان من آيات الله يريهما عباده
   سنن ابن ماجه1263عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته
   صحيح البخاري3203عائشة بنت عبد اللهآيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن النسائى الصغرى1473عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن النسائى الصغرى1471عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن النسائى الصغرى1475عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن النسائى الصغرى1501عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن النسائى الصغرى1498عائشة بنت عبد اللهالشمس والقمر لا ينخسفان لموت أحد ولا لحياته
   مسندالحميدي179عائشة بنت عبد اللهعايذ بالله من ذلك
   مسندالحميدي180عائشة بنت عبد الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1177  
´نماز کسوف کا بیان۔`
عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس کو میں سچا جانتا ہوں (عطا کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس سے ان کی مراد عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں) کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبا قیام کیا، آپ لوگوں کے ساتھ قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے، پھر قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے پھر قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں ہر رکعت میں آپ نے تین تین رکوع کیا ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیسرا رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے یہاں تک کہ آپ کے لمبے قیام کے باعث اس دن کچھ لوگوں کو (کھڑے کھڑے) غشی طاری ہو گئی اور ان پر پانی کے ڈول ڈالے گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو «الله أكبر» کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو «سمع الله لمن حمده» کہتے یہاں تک کہ سورج روشن ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی کے مرنے یا جینے کی وجہ سے سورج یا چاند میں گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں، ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے لہٰذا جب ان دونوں میں گرہن لگے تو تم نماز کی طرف دوڑو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1177]
1177۔ اردو حاشیہ:
➊ رکوع کے بعد قیام میں سورت فاتحہ پڑھنے کی صراحت نہیں ہے، صرف دوبارہ قراءت کرنے کا ذکر ہے کیونکہ دوبارہ قرأءت شروع کر دینا ایک ہی رکعت کا تسلسل ہے۔ لہٰذا نئے سرے سے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ تاہم بعض آئمہ دوبارہ سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل ہیں لیکن یہ درست نہیں۔
➋ نماز کسوف میں بھی خطبہ دینا چاہیے، جس میں اہم امور کی نشاندہی کی جائے۔
➌ کسی بڑے چھوٹے کی بشر کی موت حیات کے ساتھ ان اجرام فلکی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
➍ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک اس میں تین رکوع کے الفاظ شاذ ہیں۔ محفوظ الفاظ دو رکوع ہیں جیسا کہ صحیحین میں ہے اور حدیث 1180 میں بھی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1177   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1191  
´سورج یا چاند گرہن لگنے پر صدقہ کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند میں گرہن کسی کے مرنے یا جینے سے نہیں لگتا ہے، جب تم اسے دیکھو تو اللہ عزوجل سے دعا کرو اور اس کی بڑائی بیان کرو اور صدقہ و خیرات کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1191]
1191۔ اردو حاشیہ:
کسوف کے موقع پر معروف نماز کے علاوہ مالی صدقہ کرنا بھی مستحب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1191   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1263  
´سورج اور چاند گرہن کی نماز کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد گئے، اور کھڑے ہو کر «الله أكبر» کہا، لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے صف لگائی، آپ نے لمبی قراءت کی، پھر «الله أكبر» کہا، اور دیر تک رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا، اور «سمع الله لمن حمده‏ ربنا ولك الحمد‏» کہا، پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قراءت کی جو پہلی قراءت سے کم تھی، پھر «الله أكبر» کہا، اور لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر «سمع الله لمن حمده‏ ربنا ولك الحمد‏» کہا، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا، اور چ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1263]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
اس حدیث میں گرہن کی نماز کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔
صحیح اور راحج موقف یہی ہے کہ ہر رکعت میں دو رکوع کئے جایئں اور پہلے رکوع کے بعد دوبارہ قراءت کی جائے۔ (نماز کسوف وخسوف سے متعلق تفصیل کےلئے دیکھئے: (سنن ابودائود (اردو)
دارالسلام حدیث 1177تا 1195)


(2)
پہلے قیام سے اٹھتے ہوئے بھی (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ)
کہا جائے۔
جس طرح عام نمازوں میں رکوع سے اٹھ کرکہا جاتا ہے۔

(3)
یہ نماز سورج اور چاند دونوں کے گرہن کے موقع پر ادا کی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1263   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2091  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
سَوَائِب:
سَائِبَة کی جمع ہے۔
اس سے مراد وہ اونٹ ہے جس کو بتوں کی نذر کر کے چھوڑ دیا جاتا تھا اور اس سے کسی قسم کا کام نہیں لیا جاتا۔
وہ صرف مجاوروں کے لیے وقف ہو جاتا تھا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں جنت اور دوزخ کے دیکھنے کا تذکرہ کیا گیا ہے اور نظارہ آپﷺ نے ان مادی اور ظاہری آنکھوں سے کیا تھا۔
اگر آج سائنس اس قدر ترقی کر سکتی ہے کہ ایک انسان ایک جگہ کھڑے ہو کرتقریر کر رہا ہے اور لوگ ہر جگہ اپنے اپنے گھر میں اس کی تقریر سن رہے ہیں اور اس کو دیکھ رہے ہیں تو جو ذات تمام کائنات کی خالق اور مالک ہے اور سائنسدان اس کی ایک ادنیٰ مخلوق ہیں تو وہ اگر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جگہ جنت اور دوزخ کا حقیقتاً نظارہ کرا دے تو یہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ لیکن اس سے یہ ثابت کرنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دیکھنا چاہیں دیکھ سکتے ہیں سات آسمان آپﷺ کے لیے حجاب نہیں بنتے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپﷺ زمین پر رہتے ہوئے جنت میں تصرف کر سکتے ہیں اور جنت کی اشیاء آپﷺ کے دست تصرف کی زد میں ہیں یہ سب باتیں محض سینہ زوری ہیں۔
اگر آپﷺ جب چاہیں دیکھ سکتے ہیں مَقَامِی هٰذا کی قید لگانے کی کیا ضرورت تھی اور یہ کام صرف واقعہ کسوف میں ہی کیوں پیش آیا۔
جو ان حضرات کے نزدیک صرف ایک دفعہ کے شیر خوار بیٹے کی وفات پر ہجری میں پیش آیا اور اپنے بیٹے کو موت سے کیوں نہیں بچا لیا۔
لیکن عجیب بات ہے کہ آخر میں لکھا ہے لیکن یہ تمام کلمات اللہ تعالیٰ کی اجازت اور عطا کے ساتھ مقید ہیں (شرح صحیح مسلم:
ج 2 ص: 739)

جب صورت حال یہ ہے تو پھر اس کی کیا حقیقت رہی کہ اللہ تعالیٰ نے جنت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملک کر دی ہے جس طرح چاہتے ہیں اس میں تصرف کرتے ہیں۔
اسی طرح اس واقعہ سے آپ کے علم غیب کو کشید کرنےکی لاحاصل بحث کی ہے اور اس کے تحت متضاد باتیں لکھی ہیں۔
اس میں فیصلہ کن بات وہی جو علامہ آلوسی کی تفسیر سے:
(قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ)
کی آیت کی تفسیر سے نقل کی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2091   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.