کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سورج اور چاند گرہن کے احکام
The Book of Prayer - Eclipses
3. باب مَا عُرِضَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلاَةِ الْكُسُوفِ مِنْ أَمْرِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ:
3. باب: جنت اور جہنم میں سے کسوف کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا کچھ پیش کیا گیا؟
Chapter: What Was Shown To The Prophet Of Paradise And Hell During The Eclipse Prayer
حدیث نمبر: 2102
اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير . ح وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، وتقاربا في اللفظ، قال: حدثنا ابي ، حدثنا عبد الملك ، عن عطاء ، عن جابر ، قال: انكسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم مات إبراهيم ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال الناس: إنما انكسفت لموت إبراهيم، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس ست ركعات باربع سجدات، بدا فكبر، ثم قرا فاطال القراءة، ثم ركع نحوا مما قام، ثم رفع راسه من الركوع، فقرا قراءة دون القراءة الاولى، ثم ركع نحوا مما قام، ثم رفع راسه من الركوع، فقرا قراءة دون القراءة الثانية، ثم ركع نحوا مما قام، ثم رفع راسه من الركوع، ثم انحدر بالسجود فسجد سجدتين، ثم قام فركع ايضا ثلاث ركعات، ليس فيها ركعة إلا التي قبلها اطول من التي بعدها، وركوعه نحوا من سجوده، ثم تاخر وتاخرت الصفوف خلفه حتى انتهينا، وقال ابو بكر: حتى انتهى إلى النساء، ثم تقدم وتقدم الناس معه حتى قام في مقامه، فانصرف حين انصرف، وقد آضت الشمس، فقال: " يا ايها الناس إنما الشمس والقمر آيتان من آيات الله، وإنهما لا ينكسفان لموت احد من الناس "، وقال ابو بكر: " لموت بشر، فإذا رايتم شيئا من ذلك، فصلوا حتى تنجلي، ما من شيء توعدونه إلا قد رايته في صلاتي هذه، لقد جيء بالنار وذلكم حين رايتموني تاخرت مخافة ان يصيبني من لفحها، وحتى رايت فيها صاحب المحجن يجر قصبه في النار، كان يسرق الحاج بمحجنه، فإن فطن له، قال: إنما تعلق بمحجني، وإن غفل عنه ذهب به، وحتى رايت فيها صاحبة الهرة التي ربطتها، فلم تطعمها ولم تدعها تاكل من خشاش الارض حتى ماتت جوعا، ثم جيء بالجنة وذلكم حين رايتموني تقدمت حتى قمت في مقامي، ولقد مددت يدي وانا اريد ان اتناول من ثمرها لتنظروا إليه، ثم بدا لي ان لا افعل، فما من شيء توعدونه إلا قد رايته في صلاتي هذه ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّاسُ: إِنَّمَا انْكَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ سِتَّ رَكَعَاتٍ بِأَرْبَعِ سَجَدَاتٍ، بَدَأَ فَكَبَّرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، فَقَرَأَ قِرَاءَةً دُونَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، فَقَرَأَ قِرَاءَةً دُونَ الْقِرَاءَةِ الثَّانِيَةِ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ أَيْضًا ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ، لَيْسَ فِيهَا رَكْعَةٌ إِلَّا الَّتِي قَبْلَهَا أَطْوَلُ مِنَ الَّتِي بَعْدَهَا، وَرُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ سُجُودِهِ، ثُمَّ تَأَخَّرَ وَتَأَخَّرَتِ الصُّفُوفُ خَلْفَهُ حَتَّى انْتَهَيْنَا، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَتَّى انْتَهَى إِلَى النِّسَاءِ، ثُمَّ تَقَدَّمَ وَتَقَدَّمَ النَّاسُ مَعَهُ حَتَّى قَامَ فِي مَقَامِهِ، فَانْصَرَفَ حِينَ انْصَرَفَ، وَقَدْ آضَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، وَإِنَّهُمَا لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ "، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: " لِمَوْتِ بَشَرٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ، فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ، مَا مِنْ شَيْءٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ، لَقَدْ جِيءَ بِالنَّارِ وَذَلِكُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ مَخَافَةَ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْ لَفْحِهَا، وَحَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ، كَانَ يَسْرِقُ الْحَاجَّ بِمِحْجَنِهِ، فَإِنْ فُطِنَ لَهُ، قَالَ: إِنَّمَا تَعَلَّقَ بِمِحْجَنِي، وَإِنْ غُفِلَ عَنْهُ ذَهَبَ بِهِ، وَحَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَةَ الْهِرَّةِ الَّتِي رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، ثُمَّ جِيءَ بِالْجَنَّةِ وَذَلِكُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَقَدَّمْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي مَقَامِي، وَلَقَدْ مَدَدْتُ يَدِي وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْ ثَمَرِهَا لِتَنْظُرُوا إِلَيْهِ، ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ لَا أَفْعَلَ، فَمَا مِنْ شَيْءٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ ".
ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہم سے عبداللہ بن نمیر نے حدیث بیان کی، نیز محمد بن عبداللہ بن نمیر نے حدیث بیان کی۔ دونوں کے لفظ ملتے جلتے ہیں۔ کہا: ہمیں میرے والد (عبداللہ بن نمیر) نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں عبدالملک نے عطاء سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں، جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے، سورج گرہن ہو گیا، (بعض) لوگوں نے کہا: سورج کو گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی موت کی بناء پر لگا ہے۔ (پھر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوعوں، چار سجدوں کے ساتھ (دو رکعت) نماز پڑھائی۔ آغاز کیا تو اللہ اکبر کہا، پھر قراءت کی اور طویل قراءت کی، پھر جتنا قیام کیا تھا تقریباً رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور پہلی قراءت سے کچھ کم قراءت کی، پھر (اس) قیام جتنا رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور دوسری قراءت سے کچھ کم قراءت کی، پھر (اس) قیام جتنا رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا، پھر سجدے کے لیے جھکے اور دو سجدے فرمائے، پھر کھڑے ہوئے اور (اس دوسری رکعت میں بھی) تین رکوع کیے، ان میں سے ہر پہلا رکوع بعد والے رکوع سے زیادہ لمبا تھا اور آپ کا رکوع تقریباً سجدے کے برابر تھا، پھر آپ پیچھے ہٹے تو آپ کے پیچھے والی صفیں بھی پیچھے ہٹ گئیں حتیٰ کہ ہم لوگ آخر (آخری کنارے) تک پہنچ گئے۔ ابوبکر (بن ابی شیبہ) نے کہا: حتیٰ کہ آپ عورتوں کی صفوں کے قریب پہنچ گئے۔ پھر آپ آگے بڑھے اور آپ کے ساتھ لوگ بھی (صفوں میں) آگے بڑھ آئے حتیٰ کہ آپ (واپس) اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے پھر جب آپ نے نماز سے سلام پھیرا، اس وقت سورج اپنی اصلی حالت پر آ چکا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگو! سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اور بلاشبہ ان دونوں کو، لوگوں میں سے کسی کی موت پر گرہن نہیں لگتا۔ ابوبکر (بن ابی شیبہ) نے کسی بشر کی موت پر کہا۔ پس جب تم کوئی ایسی چیز دیکھو تو اس وقت تک نماز پڑھو جب تک کہ یہ زائل ہو جائے، کوئی چیز نہیں جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے مگر میں نے اسے اپنی اس نماز میں دیکھ لیا ہے۔ آگ (میرے سامنے) لائی گئی اور یہ اس وقت ہوا جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں اس ڈر سے پیچھے ہٹا ہوں کہ اس کی لپٹیں مجھ تک نہ پہنچیں۔ یہاں تک کہ میں نے اس آگ میں مڑے ہوئے سرے والی چھڑی کے مالک کو دیکھ لیا، وہ آگ میں اپنی انتڑیاں کھینچ رہا ہے۔ وہ اپنی اس مڑے ہوئے سرے والی چھڑی کے ذریعے سے حاجیوں کی (چیزیں) چوری کرتا تھا۔ اگر اس (کی چوری) کا پتہ چل جاتا تو کہہ دیتا: یہ چیز میری لاٹھی کے ساتھ اٹک گئی تھی، اور اگر پتہ نہ چلتا تو وہ اسے لے جاتا۔ یہاں تک کہ میں نے اس (آگ) میں بلی والی اس عورت کو بھی دیکھا جس نے اس (بلی) کو باندھ رکھا، نہ خود اسے کچھ کھلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے چھوٹے موٹے جاندار اور پرندے کھا لیتی، حتیٰ کہ وہ (بلی) بھوک سے مر گئی، پھر جنت کو (میرے سامنے) لایا گیا اور یہ اس وقت ہوا جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں آگے بڑھا حتیٰ کہ میں واپس اپنی جگہ پر آ کھڑا ہوا، میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میں چاہتا تھا کہ میں اس کے پھل میں سے کچھ لے لوں تاکہ تم اسے دیکھ سکو، پھر مجھ پر بات کھلی کہ میں ایسا نہ کروں، کوئی ایسی چیز نہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے مگر میں نے وہ اپنی اس نماز میں دیکھ لی ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں، جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے، سورج گرہن ہو گیا، بعض لوگوں نے کہا: سورج کو گہن تو بس حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت کی بنا پر لگ گیا ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوعوں، چار سجدوں کے ساتھ (دو رکعت) نماز پڑھائی۔ تکبیر تحریمہ سے آغاز کیا پھر قراءت کی اور طویل قراءت کی، پھر قیام کے قریب رکوع کیا، پھر رکوع سے ا پنا سر اٹھایا اور قراءت کی جو پہلی قراءت سے کم تھی، پھر قیام کے بعد رکوع کیا پھر رکوع سے اپنا سراٹھایا اور قراءت کی جو دوسری قراءت سے کم تھی پھر رکوع کیا جو قیام کے قریب تھا پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا پھر سجدے کے لئے جھکے اور دو سجدے کئے، پھر کھڑے ہوئے اور اس دوسری ر کعت میں بھی تین رکوع کیے،اس میں بھی ہر پہلا رکوع بعد والے رکوع سے طویل تھا اور آپﷺ کا رکوع تقریباً سجدے کے برابر تھا، پھر آپﷺ پیچھے ہٹے تو آپﷺ کے پیچھے والی صفیں بھی پیچھے ہٹ گئیں۔ ابو بکرکی روایت میں ہے کہ آپﷺ عورتوں تک پہنچ گئے پھر آپﷺ آگے بڑھے اور آپﷺ کے ساتھ لوگ بھی آگے بڑھ آئے حتیٰ کہ آپ اپنی جگہ پر آ کرکھڑے ہوگئے۔ آپﷺ نمازسے اس وقت فارغ ہوئے کہ سورج پہلی حالت کی طرف لوٹ چکا تھا یعنی روشن ہو چکا تھا پھر آپﷺ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: اے لوگو! سورج اور چاند تو بس اللہ کی قدرت (کاریگری) کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہی ہیں اور یہ کسی انسان کی موت کی بنا پر بے نور نہیں ہوتے (ابو بکر نے موت بشر کہا) جب تم میں سے کسی کی یہ حالت دیکھو، تو اس کے روشن ہونے تک نماز پڑھو، اور تم سے جس کا بھی وعدہ کیا گیا ہے، میں اسے اپنی اس نماز میں دیکھ چکا ہوں، آگ لائی گئی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں اس سے ڈر سے پیچھے ہٹ رہا ہوں کہ میں اس کی لپیٹ میں نہ آ جاؤں یا مجھے اس کی بو نہ لگ جائے، حتی کہ میں نے اس میں ایک طرف سے مڑی ہوئی لاٹھی والے کر دیکھا۔ وہ آگ میں اپنی انتڑیاں کھینچ رہا ہے وہ اپنی اس اسی ایکطرف مڑی ہوئی لاٹھی کے ذریعے حاجیوں کی چوری کرتا تھا۔ لگر پتا چل جاتا تو کہہ دیتا نہ کپڑا میری لاٹھی کے ساتھ اٹک گیا تھا اور اگر پتا نہ چلتا، وہ چیزلے کر چلتا بنتا اور حتی کہ میں نے اس میں (دوزخ میں) بلی والی عورت کو دیکھا، جس نے اسے باندھ رکھا، نہ اسے خود کھلایا پلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ حشرات الارض سے کھا لیتی۔ حتی کہ وہ بھوک سے مر گئی۔ پھر جنت کو لایا گیا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب تم نے مجھے آگے بڑھتے دیکھا حتی کہ میں اپنی اس جگہ پر کھڑا ہو گیا۔ اور میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میں چاہتا تھا کہ میں اس کے پھل میں سے کچھ پکڑ لوں تاکہ تم اسے دیکھ سکو، پھر مجھے یہ حقیقت کھلی کہ مجھے یہ کام نہیں کرنا چاہئیے، جس چیز کا بھی تم سے وعدہ کیا جاتا ہے میں اپنی اس نماز میں دیکھ چکا ہوں
ترقیم فوادعبدالباقی: 904

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
   سنن النسائى الصغرى1479جابر بن عبد اللهالشمس والقمر لا يخسفان إلا لموت عظيم من عظمائهم
   صحيح مسلم2102جابر بن عبد اللهالشمس والقمر آيتان من آيات الله إنهما لا ينكسفان لموت أحد
   سنن أبي داود1178جابر بن عبد اللهالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينكسفان لموت بشر

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2102 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2102  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اضت الشمس:
سورج پہلی کیفیت کی طرف لوٹ آیا۔
(2)
لفح:
لپٹ لو،
یا لو اور تپش۔
(3)
محجن:
ایک طرف سے مڑی ہوئی لاٹھی۔
فوائد ومسائل:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے ثابت ہوتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی موت کے دن والے سورج گہن کے لیے نماز میں ہر رکعت میں تین رکوع کیے تھے اور یہ واقعہ 27جنوری 632ء بمطابق 29 شوال 10 ہجری بروز سوموارپیش آیا اور چونکہ فتح مکہ کے بعد لوگ جوق درجوق مسلمان ہو رہے تھے اس لیے یہاں بھی آپ نے وہی باتیں دہرائیں جو پہلے بتا چکے تھے اور آپ کو یہاں بھی جنت اور دوزخ کا نظارہ تقریباً اسی طرح کرایا گیا ہاں پہلے حدیث میں صاحب محجن کا واقعہ نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2102   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1479  
´سورج گرہن کی نماز کے ایک اور طریقہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک انتہائی گرم دن میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی، اور لمبا قیام کیا یہاں تک کہ لوگ (بیہوش ہو ہو کر) گرنے لگے، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا، پھر آپ رکوع سے اٹھے تو آپ نے لمبا قیام کیا، پھر آپ نے لمبا رکوع کیا، پھر آپ رکوع سے اٹھے تو لمبا قیام کیا، پھر دو سجدے کیے، پھر آپ کھڑے ہوئے تو آپ نے پھر اسی طرح کیا، نیز آپ آگے بڑھے پھر پیچھے ہٹنے لگے، تو یہ چار رکوع اور چار سجدے ہوئے، لوگ کہتے تھے کہ سورج اور چاند گرہن ان کے بڑے آدمیوں میں سے کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے لگتا ہے، حالانکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تمہیں دکھاتا ہے، تو جب گرہن لگے تو نماز پڑھو جب تک کہ وہ چھٹ نہ جائے۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1479]
1479۔ اردو حاشیہ: فوائد کے لیے دیکھیے روایت: 1473۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1479   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1178  
´نماز کسوف میں چار رکوع کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا، یہ اسی دن کا واقعہ ہے جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات ہوئی، لوگ کہنے لگے کہ آپ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن لگا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو نماز (کسوف) پڑھائی، چار سجدوں میں چھ رکوع کیا ۱؎، اللہ اکبر کہا، پھر قرآت کی اور دیر تک قرآت کرتے رہے، پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور پہلی قرآت کی بہ نسبت مختصر قرآت کی پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا پھر تیسری قرآت کی جو دوسری قرآت کے بہ نسبت مختصر تھی اور اتنی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، اس کے بعد سجدے کے لیے جھکے اور دو سجدے کئے، پھر کھڑے ہوئے اور سجدے سے پہلے تین رکوع کیے، ہر رکوع اپنے بعد والے سے زیادہ لمبا ہوتا تھا، البتہ رکوع قیام کے برابر ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں پیچھے ہٹے تو صفیں بھی آپ کے ساتھ پیچھے ہٹیں، پھر آپ آگے بڑھے اور اپنی جگہ چلے گئے تو صفیں بھی آگے بڑھ گئیں پھر آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج (صاف ہو کر) نکل چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، کسی انسان کے مرنے کی وجہ سے ان میں گرہن نہیں لگتا، لہٰذا جب تم اس میں سے کچھ دیکھو تو نماز میں مشغول ہو جاؤ، یہاں تک کہ وہ صاف ہو کر روشن ہو جائے، اور راوی نے بقیہ حدیث بیان کی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1178]
1178۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث کا باب سے تعلق واضح نہیں ہے۔ الا یہ کہ نماز کسوف میں ہر پہلا قیام اور رکوع لمبا اور دوسرا اس سے کم ہونا چاہیے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے مصلے سے آگے بڑھناجنت کے مشاہدے کی بنا پر تھا اور پیچھے ہٹنا جہنم کے دکھائے جانے کے باعث تھا۔
➌ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک اس میں بھی چھ رکوع کے الفاظ شاذ ہیں۔ محفوظ الفاظ چار رکوع ہیں جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1178   



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.