الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الْكُسُوفِ
سورج اور چاند گرہن کے احکام
The Book of Prayer - Eclipses
3. باب مَا عُرِضَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلاَةِ الْكُسُوفِ مِنْ أَمْرِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ:
باب: جنت اور جہنم میں سے کسوف کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا کچھ پیش کیا گیا؟
حدیث نمبر: 2100
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا إسماعيل ابن علية ، عن هشام الدستوائي ، قال: حدثنا ابو الزبير ، عن جابر بن عبد الله ، قال: كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم شديد الحر، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم باصحابه، فاطال القيام حتى جعلوا يخرون، ثم ركع فاطال، ثم رفع فاطال، ثم ركع فاطال، ثم رفع فاطال، ثم سجد سجدتين، ثم قام فصنع نحوا من ذاك، فكانت اربع ركعات واربع سجدات، ثم قال: " إنه عرض علي كل شيء تولجونه، فعرضت علي الجنة حتى لو تناولت منها قطفا اخذته "، او قال: " تناولت منها قطفا فقصرت يدي عنه، وعرضت علي النار، فرايت فيها امراة من بني إسرائيل تعذب في هرة لها ربطتها، فلم تطعمها ولم تدعها تاكل من خشاش الارض، ورايت ابا ثمامة عمرو بن مالك يجر قصبه في النار، وإنهم كانوا يقولون إن الشمس والقمر لا يخسفان إلا لموت عظيم، وإنهما آيتان من آيات الله يريكموهما، فإذا خسفا فصلوا حتى تنجلي ".وحَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتَوَائِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى جَعَلُوا يَخِرُّونَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ نَحْوًا مِنْ ذَاكَ، فَكَانَتْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّهُ عُرِضَ عَلَيَّ كُلُّ شَيْءٍ تُولَجُونَهُ، فَعُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ حَتَّى لَوْ تَنَاوَلْتُ مِنْهَا قِطْفًا أَخَذْتُهُ "، أَوَ قَالَ: " تَنَاوَلْتُ مِنْهَا قِطْفًا فَقَصُرَتْ يَدِي عَنْهُ، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، فَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ لَهَا رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ، وَرَأَيْتُ أَبَا ثُمَامَةَ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ، وَإِنَّهُمْ كَانُوا يَقُولُونَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَخْسِفَانِ إِلَّا لِمَوْتِ عَظِيمٍ، وَإِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ يُرِيكُمُوهُمَا، فَإِذَا خَسَفَا فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ ".
‏‏‏‏ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج گہن ہوا اور ان دونوں میں بڑی گرمی تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھی۔ اور بہت لمبا قیام کیا یہاں تک کہ لوگ گرنے لگے، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا، پھر سر اٹھایا اور لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا اور لمبا قیام کیا، پھر دو سجدے کئیے، پھر کھڑے ہوئے اور اسی طرح کیا۔ غرض چار رکوع ہوئے اور چار سجدے (یعنی دو رکعت میں) پھر فرمایا: جتنی چیزیں ایسی ہیں کہ تم ان میں جاؤ گے۔ (یعنی دوزخ و جنت، قبر و حشر وغیرہ) وہ سب میرے آگے آئیں۔ اور جنت تو ایسی آگے آئی کہ اگر میں ایک گچھا اس میں سے لینا چاہتا تو ضرور ہی لے لیتا یا یہ فرمایا کہ میں نے اس میں سے ایک گچھا لینا چاہا تو میرا ہاتھ نہ پہنچا اور دوزخ میرے آگے آئی اور ایک بنی اسرائیل کی عورت کو دیکھا کہ ایک بلی کی وجہ سے اس پر عذاب ہو رہا ہے کہ اس نے بلی کو باندھ دیا تھا اور اسے نہ تو کھانے کو دیا اور نہ اسے کھولا تاکہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔ اور دوزخ میں ابوثمامہ عمرو بن مالک کو دیکھا کہ اپنی آنتیں دوزخ میں کھینچتا ہے اور عرب کا یہ خیال تھا کہ سورج اور چاند میں گہن نہیں لگتا مگر کسی بڑے شخص کے مرنے سے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کہ وہ تم کو دکھاتا ہے پھر جب ان میں گہن لگے تو نماز پڑھو جب تک وہ کھل نہ جائے۔
حدیث نمبر: 2101
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنيه ابو غسان المسمعي ، حدثنا عبد الملك بن الصباح ، عن هشام بهذا الإسناد مثله، إلا انه قال: " ورايت في النار امراة حميرية سوداء طويلة "، ولم يقل من بني إسرائيل.وحَدَّثَنِيهِ أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الصَّبَّاحِ ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: " وَرَأَيْتُ فِي النَّارِ امْرَأَةً حِمْيَرِيَّةً سَوْدَاءَ طَوِيلَةً "، وَلَمْ يَقُلْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ.
‏‏‏‏ مسلم رحمہ اللہ نے کہا کہ بیان کی یہی روایت مجھ سے ابوغسان مسمعی نے، ان سے عبدالمالک نے، روایت کی ہشام نے، اسی اسناد سے مثل اس کے مگر اس میں یہ ہے دیکھا میں نے ایک عورت بڑی آواز والی لمبی کالی کو اور یہ نہیں فرمایا: وہ بنی اسرائیل کی تھی۔
حدیث نمبر: 2102
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير . ح وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، وتقاربا في اللفظ، قال: حدثنا ابي ، حدثنا عبد الملك ، عن عطاء ، عن جابر ، قال: انكسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم مات إبراهيم ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال الناس: إنما انكسفت لموت إبراهيم، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس ست ركعات باربع سجدات، بدا فكبر، ثم قرا فاطال القراءة، ثم ركع نحوا مما قام، ثم رفع راسه من الركوع، فقرا قراءة دون القراءة الاولى، ثم ركع نحوا مما قام، ثم رفع راسه من الركوع، فقرا قراءة دون القراءة الثانية، ثم ركع نحوا مما قام، ثم رفع راسه من الركوع، ثم انحدر بالسجود فسجد سجدتين، ثم قام فركع ايضا ثلاث ركعات، ليس فيها ركعة إلا التي قبلها اطول من التي بعدها، وركوعه نحوا من سجوده، ثم تاخر وتاخرت الصفوف خلفه حتى انتهينا، وقال ابو بكر: حتى انتهى إلى النساء، ثم تقدم وتقدم الناس معه حتى قام في مقامه، فانصرف حين انصرف، وقد آضت الشمس، فقال: " يا ايها الناس إنما الشمس والقمر آيتان من آيات الله، وإنهما لا ينكسفان لموت احد من الناس "، وقال ابو بكر: " لموت بشر، فإذا رايتم شيئا من ذلك، فصلوا حتى تنجلي، ما من شيء توعدونه إلا قد رايته في صلاتي هذه، لقد جيء بالنار وذلكم حين رايتموني تاخرت مخافة ان يصيبني من لفحها، وحتى رايت فيها صاحب المحجن يجر قصبه في النار، كان يسرق الحاج بمحجنه، فإن فطن له، قال: إنما تعلق بمحجني، وإن غفل عنه ذهب به، وحتى رايت فيها صاحبة الهرة التي ربطتها، فلم تطعمها ولم تدعها تاكل من خشاش الارض حتى ماتت جوعا، ثم جيء بالجنة وذلكم حين رايتموني تقدمت حتى قمت في مقامي، ولقد مددت يدي وانا اريد ان اتناول من ثمرها لتنظروا إليه، ثم بدا لي ان لا افعل، فما من شيء توعدونه إلا قد رايته في صلاتي هذه ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّاسُ: إِنَّمَا انْكَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ سِتَّ رَكَعَاتٍ بِأَرْبَعِ سَجَدَاتٍ، بَدَأَ فَكَبَّرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، فَقَرَأَ قِرَاءَةً دُونَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، فَقَرَأَ قِرَاءَةً دُونَ الْقِرَاءَةِ الثَّانِيَةِ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ أَيْضًا ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ، لَيْسَ فِيهَا رَكْعَةٌ إِلَّا الَّتِي قَبْلَهَا أَطْوَلُ مِنَ الَّتِي بَعْدَهَا، وَرُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ سُجُودِهِ، ثُمَّ تَأَخَّرَ وَتَأَخَّرَتِ الصُّفُوفُ خَلْفَهُ حَتَّى انْتَهَيْنَا، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَتَّى انْتَهَى إِلَى النِّسَاءِ، ثُمَّ تَقَدَّمَ وَتَقَدَّمَ النَّاسُ مَعَهُ حَتَّى قَامَ فِي مَقَامِهِ، فَانْصَرَفَ حِينَ انْصَرَفَ، وَقَدْ آضَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، وَإِنَّهُمَا لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ "، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: " لِمَوْتِ بَشَرٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ، فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ، مَا مِنْ شَيْءٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ، لَقَدْ جِيءَ بِالنَّارِ وَذَلِكُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ مَخَافَةَ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْ لَفْحِهَا، وَحَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ، كَانَ يَسْرِقُ الْحَاجَّ بِمِحْجَنِهِ، فَإِنْ فُطِنَ لَهُ، قَالَ: إِنَّمَا تَعَلَّقَ بِمِحْجَنِي، وَإِنْ غُفِلَ عَنْهُ ذَهَبَ بِهِ، وَحَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَةَ الْهِرَّةِ الَّتِي رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، ثُمَّ جِيءَ بِالْجَنَّةِ وَذَلِكُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَقَدَّمْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي مَقَامِي، وَلَقَدْ مَدَدْتُ يَدِي وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْ ثَمَرِهَا لِتَنْظُرُوا إِلَيْهِ، ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ لَا أَفْعَلَ، فَمَا مِنْ شَيْءٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ ".
‏‏‏‏ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: سورج گہن ہوا ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم انتقال کر گئے تھے، سو لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کی موت سے سورج گہن ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوئے اور چار سجدوں کے ساتھ چھ رکوع کیے۔ اس طرح کہ پہلے اللہ اکبر کہا اور قرأت کی اور لمبی قرأت کی، پھر رکوع کیا قریب قیام کے (یعنی طول میں) پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قرأت کی دوسری قرأت سے کم، پھر رکوع کیا قیام کے برابر، پھر سر اٹھایا اور قیام کیا پھر رکوع کیا، پھر سر اٹھایا اور سجدہ کو جھکے اور دو سجدے کیے، پھر کھڑے ہوئے اور پھر رکوع کئیے تین رکوع کہ ان میں سے ہر پچھلا رکوع اپنے پہلے رکوع سے کم تھا اور ہر رکوع سجدہ کے برابر تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹے اور سب صفیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے ہٹیں یہاں تک کہ ہم عورتوں کے قریب پہنچ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آگے بڑھے (سبحان اللہ! کیا اطاعت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے، اور نماز سے فارغ ہوئے اس وقت کہ آفتاب کھل چکا تھا۔ پھر فرمایا: اے لوگو! سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ اور بے شک ان دونوں میں کسی آدمی کے مرنے سے گہن نہیں لگتا ہے۔ پھر جب دیکھو اس میں سے کچھ تو نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ صاف ہو جائے اور کوئی چیز نہیں رہی جس کا تم کو وعدہ دیا گیا ہے کہ میں نے اس کو نہ دیکھا ہو اس اپنی نماز میں، چنانچہ دوزخ آئی اور جب آئی کہ جب تم نے مجھے دیکھا کہ پیچھے ہٹا، اور ڈر سے کہ شاید اس کی لو مجھے لگ جائے (سبحان اللہ! اتنے بڑے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ ان پر رحمت کرے اور سلام بھیجے۔ دوزخ سے اتنا خوف ہے، پھر ہم کو کتنا لازم ہے) اور وہ یہاں تک قریب ہوئی کہ میں نے اس میں ٹیڑھے منہ کی لکڑی والے کو دیکھا کہ اپنی آنتیں گھسیٹتا تھا آگ میں اور دنیا میں حاجیوں کی اس طرح چوری کرتا تھا کہ اس نے اپنی لکڑی میں کسی چیز کو اٹکایا (یعنی چادر کپڑا وغیرہ) اگر اس کا مالک آگاہ ہوا تو کہہ دیا یہ چیز میری کھونڈی میں اٹک گئی اور اگر اس کا مالک غافل ہو گیا تو وہ لے کر چل دیا اور یہاں تک کہ میں نے اس بلی والی کو دیکھا کہ اس نے بلی کو باندھ رکھا اور نہ کھانا دیا، نہ چھوڑا کہ وہ خود زمیں کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی یہاں تک کہ بھوک سے مر گئی۔ پھر جنت کو میرے آگے لائے۔ اور وہ اس وقت آئی جب تم نے مجھ کو دیکھا کہ میں آگے بڑھا یہاں تک کہ میں اپنی جگہ جا کر کھڑا ہوا۔ اور میں نے اپنا ہاتھ پھیلایا اور چاہتا تھا کہ اس کے کچھ پھل توڑ لوں کہ تم دیکھو۔ پھر میں نے خیال کیا کہ نہ کروں۔ غرض جن چیزوں کا تم کو وعدہ دیا گیا ہے ان میں سے کوئی چیز ایسی نہیں رہی جو میں اپنی اس نماز میں نہ دیکھی ہو۔
حدیث نمبر: 2103
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن العلاء الهمداني ، حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، عن فاطمة ، عن اسماء قالت: خسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخلت على عائشة وهي تصلي، فقلت: ما شان الناس يصلون، فاشارت براسها إلى السماء، فقلت: آية. قالت: نعم، فاطال رسول الله صلى الله عليه وسلم القيام جدا حتى تجلاني الغشي، فاخذت قربة من ماء إلى جنبي، فجعلت اصب على راسي او على وجهي من الماء، قالت: فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد تجلت الشمس، فخطب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال: " اما بعد ما من شيء لم اكن رايته إلا قد رايته في مقامي هذا، حتى الجنة والنار، وإنه قد اوحي إلي انكم تفتنون في القبور قريبا، او مثل فتنة المسيح الدجال "، لا ادري اي ذلك، قالت اسماء: فيؤتى احدكم، فيقال: ما علمك بهذا الرجل، فاما المؤمن او الموقن لا ادري اي ذلك، قالت اسماء: فيقول: هو محمد هو رسول الله جاءنا بالبينات والهدى، فاجبنا واطعنا ثلاث مرار، فيقال له: نم قد كنا نعلم إنك لتؤمن به، فنم صالحا، واما المنافق او المرتاب لا ادري اي ذلك، قالت اسماء: " فيقول: لا ادري سمعت الناس يقولون شيئا، فقلت:حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ فَاطِمَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ تُصَلِّي، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ يُصَلُّونَ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ. قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَطَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِيَامَ جِدًّا حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ، فَأَخَذْتُ قِرْبَةً مِنْ مَاءٍ إِلَى جَنْبِي، فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي أَوْ عَلَى وَجْهِي مِنَ الْمَاءِ، قَالَتْ: فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ رَأَيْتُهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا، حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَإِنَّهُ قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا، أَوْ مِثْلَ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ "، لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيُؤْتَى أَحَدُكُمْ، فَيُقَالُ: مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوقِنُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيَقُولُ: هُوَ مُحَمَّدٌ هُوَ رَسُولُ اللَّهِ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى، فَأَجَبْنَا وَأَطَعْنَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَيُقَالُ لَهُ: نَمْ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ إِنَّكَ لَتُؤْمِنُ بِهِ، فَنَمْ صَالِحًا، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: " فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا، فَقُلْتُ:
‏‏‏‏ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گہن ہوا اور میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی۔ وہ نماز پڑھتی تھیں سو میں نے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ تو انہوں نے اپنے سر سے آسمان کو اشارہ کیا۔ میں نے کہا: ایک نشانی ہے؟ (یعنی اللہ کی قدرت کی) انہوں نے اشارہ سے کہا: ہاں (اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں ضرورت کے وقت اشارہ جائز ہے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت لمبا قیام کیا کہ مجھے غش آنے لگا۔ اور میں نے ایک مشک سے جو میرے بازو پر تھی اپنے سر اور منہ پر پانی ڈالنا شروع کیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور آفتاب کھل گیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور اللہ کی حمد ثنا کی۔ پھر اس کے بعد کہا: کوئی چیز ایسی نہیں رہی جسے میں نے پہلے نہ دیکھا تھا مگر یہاں میں نے اس کو کھڑے کھڑے دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے جنت اور دوزخ کو بھی دیکھا۔ اور میری طرف وحی بھیجی گئی کہ تم اپنی قبروں میں جانچے جاؤ گے جیسے دجال کے فتنہ سے جانچے جاؤ گے اور ہر ایک کے پاس ایک آدمی آئے گا اور کہے گا کہ تو اس شخص کو کیا جانتا ہے؟ پھر اگر قبر والا مؤمن ہے تو کہے گا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اللہ کے بھیجے ہوئے اور ان پر رحمت کرے اور سلامتی۔ وہ ہمارے پاس کھلے معجزے اور سیدھی راہ کی خبر لے کر آئے اور ہم نے ان کی حدیث قبول کی اور ان کا کہنا مانا۔ تین بار وہ یہی جواب دے گا۔ پھر وہ (یعنی فرشتہ) اسے سے کہے گا کہ تو سو جا۔ اور ہم کو معلوم تھا کہ تو ایماندار ہے سو اچھا بھلا سوتا رہ۔ اور منافق کہتا ہے (یعنی فرشتہ کو) کہ میں نہیں جانتا۔ میں لوگوں سے سنتا تھا کچھ کہتے تھے سو میں نے بھی کہہ دیا۔
حدیث نمبر: 2104
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابى شيبة وابو كريب قالا حدثنا ابو اسامة عن هشام عن فاطمة عن اسماء قالت اتيت عائشة فإذا الناس قيام وإذا هى تصلى فقلت ما شان الناس واقتص الحديث بنحو حديث ابن نمير عن هشام.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ أَتَيْتُ عَائِشَةَ فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ وَإِذَا هِىَ تُصَلِّى فَقُلْتُ مَا شَأْنُ النَّاسِ وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ عَنْ هِشَامٍ.
‏‏‏‏ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور لوگوں کو کھڑے دیکھا اور وہ نماز پڑھتی تھیں سو میں نے کہا: کیا حال ہے لوگوں کا؟ اور بیان کی حدیث مثل ابن نمیر کے جو انہوں نے ہشام سے روایت کی۔
حدیث نمبر: 2105
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، عن فاطمة ، عن اسماء ، قالت: اتيت عائشة فإذا الناس قيام، وإذا هي تصلي، فقلت: ما شان الناس؟، واقتص الحديث بنحو حديث ابن نمير، عن هشام، اخبرنا يحيى بن يحيى، اخبرنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن عروة، قال: " لا تقل كسفت الشمس، ولكن قل خسفت الشمس ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ، وَإِذَا هِيَ تُصَلِّي، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ؟، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: " لَا تَقُلْ كَسَفَتِ الشَّمْسُ، وَلَكِنْ قُلْ خَسَفَتِ الشَّمْسُ ".
‏‏‏‏ عروہ کہتے ہیں: «كَسَفَتِ الشَّمْسُ» نہ کہو لیکن «خَسَفَتِ الشَّمْسُ» کہو۔
حدیث نمبر: 2106
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن حبيب الحارثي ، حدثنا خالد بن الحارث ، حدثنا ابن جريج ، حدثني منصور بن عبد الرحمن ، عن امه صفية بنت شيبة ، عن اسماء بنت ابي بكر ، انها قالت: " فزع النبي صلى الله عليه وسلم يوما، قالت: تعني يوم كسفت الشمس، فاخذ درعا حتى ادرك بردائه، فقام للناس قياما طويلا، لو ان إنسانا اتى لم يشعر ان النبي صلى الله عليه وسلم ركع ما حدث انه ركع من طول القيام ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّهَا قَالَتْ: " فَزِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، قَالَتْ: تَعْنِي يَوْمَ كَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَأَخَذَ دِرْعًا حَتَّى أُدْرِكَ بِرِدَائِهِ، فَقَامَ لِلنَّاسِ قِيَامًا طَوِيلًا، لَوْ أَنَّ إِنْسَانًا أَتَى لَمْ يَشْعُرْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكَعَ مَا حَدَّثَ أَنَّهُ رَكَعَ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ ".
‏‏‏‏ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھبرائے مراد یہ تھی کہ جس دن سورج گہن ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبراہٹ سے کسی عورت کی بڑی چادر اوڑھ لی اور چلے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر آپ کو لا کر دی اور نماز میں اتنی دیر کھڑے رہے کہ اگر کوئی شخص آتا تو یہ بھی نہ جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا ہے جیسے رکوع آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہوئے ہیں بہت دیر کھڑے رہنے کے سبب سے۔
حدیث نمبر: 2107
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني سعيد بن يحيى الاموي ، حدثني ابي ، حدثنا ابن جريج بهذا الإسناد مثله، وقال: " قياما طويلا يقوم، ثم يركع "، وزاد: " فجعلت انظر إلى المراة اسن مني، وإلى الاخرى هي اسقم مني ".وحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَقَالَ: " قِيَامًا طَوِيلًا يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ "، وَزَادَ: " فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الْمَرْأَةِ أَسَنَّ مِنِّي، وَإِلَى الْأُخْرَى هِيَ أَسْقَمُ مِنِّي ".
‏‏‏‏ ابن جریج روایت کرتے ہیں اسی اسناد سے مثل اس کے اور اس میں یہ کہا کہ کھڑے ہوئے بہت دیر تک کہ کھڑے ہوتے تھے، پھر رکوع کرتے تھے۔ اور یہ بھی زیادہ کیا کہ اسماء رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ میں دیکھتی تھی ایک عورت کو جو مجھ سے بوڑھی تھی اور دوسری کو جو مجھ سے زیادہ بیمار تھی۔
حدیث نمبر: 2108
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني احمد بن سعيد الدارمي ، حدثنا حبان ، حدثنا وهيب ، حدثنا منصور ، عن امه ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: " كسفت الشمس على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، ففزع فاخطا بدرع حتى ادرك بردائه بعد ذلك، قالت: فقضيت حاجتي، ثم جئت ودخلت المسجد، فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما، فقمت معه فاطال القيام حتى رايتني اريد ان اجلس، ثم التفت إلى المراة الضعيفة، فاقول: هذه اضعف مني فاقوم، فركع فاطال الركوع، ثم رفع راسه فاطال القيام، حتى لو ان رجلا جاء خيل إليه انه لم يركع ".وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: " كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَزِعَ فَأَخْطَأَ بِدِرْعٍ حَتَّى أُدْرِكَ بِرِدَائِهِ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَتْ: فَقَضَيْتُ حَاجَتِي، ثُمَّ جِئْتُ وَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا، فَقُمْتُ مَعَهُ فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى رَأَيْتُنِي أُرِيدُ أَنْ أَجْلِسَ، ثُمَّ أَلْتَفِتُ إِلَى الْمَرْأَةِ الضَّعِيفَةِ، فَأَقُولُ: هَذِهِ أَضْعَفُ مِنِّي فَأَقُومُ، فَرَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، حَتَّى لَوْ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ خُيِّلَ إِلَيْهِ أَنَّهُ لَمْ يَرْكَعْ ".
‏‏‏‏ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے وہی مضمون روایت کیا جو اوپر گزرا۔ اور اس کے بعد کہا کہ میں نے اپنی حاجت پوری کی اور پھر مسجد میں آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نماز کو کھڑے ہیں تو میں بھی ان کے ساتھ کھڑی ہوئی اور بہت لمبا قیام کیا یہاں تک کہ میں اپنے تئیں دیکھتی تھی کہ جی چاہتا تھا کہ بیٹھ جاؤں۔ اور ایک ضعیف عورت کو دیکھا تو میں نے دل میں کہا یہ تو مجھ سے زیادہ ضعیف ہے۔ پھر میں کھڑی رہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا اور بہت لمبا رکوع کیا پھر اپنا سر اٹھایا اور لمبا قیام کیا یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اور آتا تو جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی رکوع نہیں کیا (یعنی قومہ، قیام کے برابر تھا)۔
حدیث نمبر: 2109
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سويد بن سعيد ، حدثنا حفص بن ميسرة ، حدثني زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن ابن عباس ، قال: انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس معه، فقام قياما طويلا قدر نحو سورة البقرة، ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم سجد ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم سجد، ثم انصرف وقد انجلت الشمس، فقال: " إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا ينكسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتم ذلك فاذكروا الله ". قالوا: يا رسول الله رايناك تناولت شيئا في مقامك هذا، ثم رايناك كففت، فقال: " إني رايت الجنة فتناولت منها عنقودا، ولو اخذته لاكلتم منه ما بقيت الدنيا، ورايت النار فلم ار كاليوم منظرا قط، ورايت اكثر اهلها النساء "، قالوا: بم يا رسول الله؟ قال: " بكفرهن ". قيل ايكفرن بالله؟ قال: " بكفر العشير، وبكفر الإحسان، لو احسنت إلى إحداهن الدهر، ثم رات منك شيئا، قالت: ما رايت منك خيرا قط ".حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا قَدْرَ نَحْوِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدِ انْجَلَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ هَذَا، ثُمَّ رَأَيْنَاكَ كَفَفْتَ، فَقَالَ: " إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُودًا، وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا، وَرَأَيْتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ، وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ "، قَالُوا: بِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " بِكُفْرِهِنَّ ". قِيلَ أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ؟ قَالَ: " بِكُفْرِ الْعَشِيرِ، وَبِكُفْرِ الْإِحْسَانِ، لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ ".
‏‏‏‏ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گہن ہوا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور بہت لمبا قیام کیا سورہ بقرہ کے برابر، پھر رکوع کیا بہت لمبا، پھر سر اٹھایا اور بہت لمبا قیام کیا مگر پہلے قیام سے کچھ کم تھا، پھر رکوع کیا لمبا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر سجدہ کیا، پھر قیام کیا لمبا اور وہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر رکوع کیا لمبا اور پہلے رکوع سے کم تھا، پھر سر اٹھایا، پھر قیام کیا لمبا مگر وہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر رکوع کیا لمبا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر سجدہ کیا اور نماز سے فارغ ہوئے اور آفتاب کھل گیا اور فرمایا: سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کہ گہن نہیں لگتا ہے ان میں کسی کی موت سے، نہ کسی کی زندگی سے، پھر جب تم ان کو دیکھو تو اللہ کو یاد کرو۔ پھر لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اس جگہ پر کچھ لیا۔ پھر دیکھا آپ رک گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے جنت کو دیکھا اور اس میں سے ایک خوشہ کو لیا۔ اگر میں اسے توڑ لیتا تو جب تک دنیا باقی رہتی تم اسے کھاتے رہتے۔ اور میں نے دوزخ کو دیکھا۔ سو آج کی برابر میں نے اس کو کبھی نہیں دیکھا اور اکثر بسنے والی اس کی عورتیں دیکھیں۔ لوگوں نے عرض کیا: یہ کیوں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی ناشکری کی وجہ سے۔ لوگوں نے عرض کیا: کیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں۔ اگر ساری دنیا کا کوئی ان پر احسان کرے پھر وہ عورت اس کی طرف سے کوئی بات خلاف مرضی دیکھے تو کہنے لگے گی کہ میں نے تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔
حدیث نمبر: 2110
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثناه محمد بن رافع ، حدثنا إسحاق يعني ابن عيسى ، اخبرنا مالك ، عن زيد بن اسلم في هذا الإسناد بمثله، غير انه قال: " ثم رايناك تكعكعت ".وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا إسحاق يَعْنِي ابْنَ عِيسَى ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " ثُمَّ رَأَيْنَاكَ تَكَعْكَعْتَ ".
‏‏‏‏ زید بن اسلم نے اسی اسناد سے مثل اس کے صرف اتنا ہی کہا کہ انہوں نے کہا: «ثُمَّ رَأَيْنَاكَ تَكَعْكَعْتَ» یعنی پھر دیکھا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے ہٹتے۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.