كِتَاب الْكُسُوفِ سورج اور چاند گرہن کے احکام 5. باب ذِكْرِ النِّدَاءِ بِصَلاَةِ الْكُسُوفِ: «الصَّلاَةَ جَامِعَةً» : باب: نماز کسوف کے لئے «الصّلاةُ جَامِعَةٌ» کہہ کر پکارنا چاہیئے۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج گہن ہوا اور پکارا گیا کہ سب مل کر نماز پڑھیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں۔ اور ہر رکعت میں دو رکوع کیے اور سورج صاف ہو گیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے کبھی اتنے لمبے رکوع، سجدے نہیں کیے۔
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند دونوں نشانیاں ہیں اللہ کی نشانیوں میں سے کہ اللہ ان سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور وہ کسی کے مرنے کے سبب سے نہیں گہناتیں۔ پھر جب تم گہن دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو یہاں تک کہ اللہ اس بلا کو تم سے دور کر دے۔“
سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک سورج اور چاند لوگوں میں سے کسی کی وفات پر گرہن نہیں ہوتے لیکن کہ نشانیاں ہیں اللہ کی نشانیوں میں جب تم ان کو دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو۔“
سفیان اور وکیع سے روایت ہے کہ سورج گرہن ہوا جب ابراہیم فوت ہوئے پس لوگوں نے کہا کہ یہ ابراہیم کی موت کی وجہ سے گرہن ہوا ہے۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر اٹھے کہ قیامت آئی اور مسجد میں آئے اور کھڑے نماز پڑھتے رہے جس میں قیام، رکوع اور سجدہ لمبا تھا کہ میں نے اتنا لمبا ان کی کسی نماز میں نہیں دیکھا۔ پھر فرمایا: ”یہ نشانیاں ہیں کہ اللہ ان کو بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت اور زندگی کے سبب سے نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے پھر جب ایسے کچھ دیکھو تو اللہ کے آگے گڑگڑا کے اسے یاد کرو اور اس سے دعا کرو اور اس سے بخشش مانگو“ اور ابن علاء کی روایت میں «كَسَفَتِ» کا لفظ ہے اور یہ کہ ”اللہ ڈراتا ہے اپنے بندوں کو“۔
عبدالرحمٰن بن سمرہ نے کہا کہ میں تیر پھینک رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کہ سورج گہن ہوا اور میں نے تیروں کو پھینک دیا اور دل میں کہا کہ دیکھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کون سا نیا کام ہوتا ہے سورج گہن میں آج کے دن۔ میں ان تک پہنچا تو وہ دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے اور دعا کرتے تھے اور اللہ اکبر کہتے تھے اور اس کی تعریف کرتے تھے اور «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کہتے تھے یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھی اور دو سورتیں پڑھیں۔
ترجمہ اس کا وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے صرف اتنا فرق ہے کہ راوی نے کہا: جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ کو نماز میں ہاتھ اٹھائے ہوئے پایا کہ آپ تسبیح کرتے تھے اور اللہ کی حمد اور «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» اللہ کہتے تھے اور اللہ کی بڑائی کرتے تھے اور دعا کرتے تھے یہاں تک کہ آفتاب کھل گیا جب آپ نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعتیں تمام کیں۔
عبدالرحمٰن بن سمرہ کہتے ہیں: میں تیر اندازی کر رہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کہ اچانک سورج گرہن ہو گیا پھر مذکورہ حدیث کی طرح بیان کیا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند کسی کے مرنے، جینے سے نہیں گہناتے بلکہ وہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم ان کو دیکھو تو نماز پڑھو۔“
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: گہن لگا سورج کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس دن ابراہیم فوت ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک سورج اور چاند دو نشانیاں ہیں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے، نہیں گہن لگتا ان کو کسی کی موت کی وجہ سے اور نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے، پس جب تم انہیں دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور نماز پڑھو حتیٰ کہ گہن کھل جائے۔“
|