الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سورج اور چاند گرہن کے احکام
The Book of Prayer - Eclipses
3. باب مَا عُرِضَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلاَةِ الْكُسُوفِ مِنْ أَمْرِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ:
3. باب: جنت اور جہنم میں سے کسوف کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا کچھ پیش کیا گیا؟
حدیث نمبر: 2103
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن العلاء الهمداني ، حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، عن فاطمة ، عن اسماء قالت: خسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخلت على عائشة وهي تصلي، فقلت: ما شان الناس يصلون، فاشارت براسها إلى السماء، فقلت: آية. قالت: نعم، فاطال رسول الله صلى الله عليه وسلم القيام جدا حتى تجلاني الغشي، فاخذت قربة من ماء إلى جنبي، فجعلت اصب على راسي او على وجهي من الماء، قالت: فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد تجلت الشمس، فخطب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال: " اما بعد ما من شيء لم اكن رايته إلا قد رايته في مقامي هذا، حتى الجنة والنار، وإنه قد اوحي إلي انكم تفتنون في القبور قريبا، او مثل فتنة المسيح الدجال "، لا ادري اي ذلك، قالت اسماء: فيؤتى احدكم، فيقال: ما علمك بهذا الرجل، فاما المؤمن او الموقن لا ادري اي ذلك، قالت اسماء: فيقول: هو محمد هو رسول الله جاءنا بالبينات والهدى، فاجبنا واطعنا ثلاث مرار، فيقال له: نم قد كنا نعلم إنك لتؤمن به، فنم صالحا، واما المنافق او المرتاب لا ادري اي ذلك، قالت اسماء: " فيقول: لا ادري سمعت الناس يقولون شيئا، فقلت:حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ فَاطِمَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ تُصَلِّي، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ يُصَلُّونَ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ. قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَطَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِيَامَ جِدًّا حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ، فَأَخَذْتُ قِرْبَةً مِنْ مَاءٍ إِلَى جَنْبِي، فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي أَوْ عَلَى وَجْهِي مِنَ الْمَاءِ، قَالَتْ: فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ رَأَيْتُهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا، حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَإِنَّهُ قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا، أَوْ مِثْلَ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ "، لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيُؤْتَى أَحَدُكُمْ، فَيُقَالُ: مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوقِنُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيَقُولُ: هُوَ مُحَمَّدٌ هُوَ رَسُولُ اللَّهِ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى، فَأَجَبْنَا وَأَطَعْنَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَيُقَالُ لَهُ: نَمْ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ إِنَّكَ لَتُؤْمِنُ بِهِ، فَنَمْ صَالِحًا، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: " فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا، فَقُلْتُ:
ہمیں (عبداللہ) ابن نمیر نے حدیث بیان کی، کہا: ہم سے ہشام نے، انھوں نے (اپنی بیوی) فاطمہ (بنت منذر بن زبیر بن عوام) سے اور انھوں نے (اپنی دادی) حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج کوگرہن لگ گیا، چنانچہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آئی اور وہ (ساتھ مسجد میں) نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے پوچھا: لوگوں کو کیا ہوا وہ (اس وقت) نماز پڑھ رہے ہیں؟انھوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔تو میں نے پوچھا: کوئی نشانی (ظاہر ہوئی) ہے؟انھوں نے (اشارے سے) بتایا: ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کو بہت زیادہ لمبا کی حتیٰ کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی، میں نے اپنے پہلو میں پڑی مشک اٹھائی اور اپنے سریا اپنے چہرے پر پانی ڈالنےلگی۔ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے توسورج روشن ہوچکا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا، اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا: " اما بعد (حمد وثنا کے بعد)! کوئی چیز ایسی نہیں جس کا میں نے مشاہدہ نہیں کیا تھا مگر اب میں نے اپنی اس جگہ سے اس کا مشاہدہ کر لیا ہے حتی ٰ کہ جنت اور دوزخ بھی دیکھ لی ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مجھ پر یہ وحی کی گئی ہے کہ عنقریب ہے کہ عنقریب قبروں میں تمھاری مسیح دجال کی آزمائش کے قریب یا س جیسی آزمائش ہوگی۔۔ (فاطمہ نے کہا) مجھے پتہ نہیں، حضر ت اسما رضی اللہ عنہا نے ان میں سے کون سا لفظ کہا۔ اور تم میں سے ہر ایک کے پاس (فرشتوں کی) آمد ہو گی اور پوچھا جائے گا: تم اس آدمی کے بارے میں کیاجانتے ہو؟ تومومن یا یقین رکھنے والا۔ مجھے معلوم نہیں حضرت اسما رضی اللہ عنہا نے کون سا لفظ کہا۔۔کہنے گا: وہ محمد ہیں، وہ اللہ کے رسول ہیں، ہمارےپاس کھلی نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے، ہم نے ان (کی بات) کوقبول کیا اور اطاعت کی، تین دفعہ (سوال وجواب) ہوگا۔ پھراُس سے کہاجائے گا: سوجاؤ، ہمیں معلوم تھا کہ تم ان پر ایمان رکھتےہو۔ ایک نیک بخت کی طرح سوجاؤ۔ اور رہامنافق یا وہ جوشک وشبہ میں مبتلا تھا۔معلوم نہیں حضرت اسما رضی اللہ عنہا نے ان میں سے کو ن سا لفظ کہا۔ تو وہ کہے گا: میں نہیں جانتا، میں نے لوگوں کو کچھ کہتےہوئے سناتھا تو وہی کہہ دیا تھا۔"
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج کوگہن لگ گیا، تو میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئی اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے پوچھا:لوگوں کا کیا حال ہے وہ نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو انھوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ تو میں نے پوچھا: کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی طویل قیام کیا، حتی کہ مجھ پر غشی طاری ہو گئی۔ میرے پہلو میں مشک پڑی ہوئی تھی میں نے وہ لے لی اور اپنے سر یا اپنے چہرے پر پانی ڈالنے لگی۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے اس وقت فارغ ہوئے جبکہ سورج روشن ہو چکا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی ثناء بیان کی۔ پھر فرمایا: امابعد! کوئی چیز ایسی نہیں جس کا میں نے مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ مگر اب میں نے اپنی اس جگہ اس کا مشاہدہ کرلیا ہے۔حتی کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مجھ پر یہ وحی کی گئی ہے کہ تم قبروں میں مسیح دجال کے فتنہ وامتحان کے برابر یا اس کے قریب آزمائے جاؤ گے، راوی کہتا ہے مجھے معلوم نہیں۔ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان میں سے کون سا لفظ کہا، اور تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتے آ کر پوچھیں گے، تیری اس انسان کے بارے میں کیا معلومات ہیں؟ رہا مومن یا موقن (یقین رکھنے والا) مجھے معلوم نہیں اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کون سا لفظ ان میں سے کہا۔ تو وہ جواب دے گا۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور یہ اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ ہمارے پاس کھلے دلائل اور ہدایت لے کر آئے۔ ہم نے ان کی بات کو قبول کیا اور اطاعت کی۔ تین دفعہ سوال وجواب ہو گا۔ اسے کہا جائے گا۔ سو جاؤ۔ہمیں خوب علم ہے کہ تیرا ان پر ایمان ہے، مزے سے سو جا، اور رہا منافق یا شک وشبہ میں مبتلا شخص،معلوم نہیں اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان میں سے کون سالفظ کہا،تو وہ کہے گا۔لوگوں کو میں نے کچھ کہتے ہوئے سنا وہی میں نے کہہ دیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 905
   صحيح البخاري7287أسماء بنت أبي بكرتفتنون في القبور
   صحيح البخاري86أسماء بنت أبي بكرتفتنون في قبوركم
   صحيح البخاري1373أسماء بنت أبي بكرذكر فتنة القبر التي يفتتن فيها المرء
   صحيح البخاري184أسماء بنت أبي بكرتفتنون في القبور
   صحيح مسلم2103أسماء بنت أبي بكرتفتنون في القبور
   سنن النسائى الصغرى2064أسماء بنت أبي بكرتفتنون في القبور قريبا من فتنة الدجال
   موطأ مالك رواية يحيى الليثي447أسماء بنت أبي بكرتفتنون في القبور
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم183أسماء بنت أبي بكرتفتنون فى القبور
   مشكوة المصابيح137أسماء بنت أبي بكرقد اوحي إلي انكم تفتنون في القبور قريبا من فتنة الدجال

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 137  
´قبر کا فتنہ`
«. . . ‏‏‏‏عَن أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَقول قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَذكر فتْنَة الْقَبْر الَّتِي يفتتن فِيهَا الْمَرْءُ فَلَمَّا ذَكَرَ ذَلِكَ ضَجَّ الْمُسْلِمُونَ ضَجَّةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ هَكَذَا وَزَادَ النَّسَائِيُّ: حَالَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ أَنْ أَفْهَمَ كَلَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا سَكَنَتْ - [50] - ضَجَّتُهُمْ قُلْتُ لِرَجُلٍ قَرِيبٍ مِنِّي: أَيْ بَارَكَ اللَّهُ فِيكَ مَاذَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ قَوْلِهِ؟ قَالَ: «قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا من فتْنَة الدَّجَّال» . . .»
. . . 0 . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 137]

تخریج:
[صحيح بخاري 1373]،
[سنن النسائي 2064 وسنده صحيح]

فقہ الحدیث:
➊ قبر کا فتنہ مثلاً قبر کا میّت کو بھینچنا اور جھٹکا دینا برحق ہے۔
➋ کفار و منافقین کے لئے عذاب قبر برحق ہے۔ اسی طرح بعض گناہ گار مسلمانوں کو بھی قبر میں عذاب دیا جائے گا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور رحمت سے کسی کو معاف فرما کر عذاب قبر سے بچا لے۔
➌ صحابہ کرام چونکہ سب کے سب عادل «كلهم عدول» ہیں، لہٰذا اگر کوئی صحیح و حسن حدیث کے راوی صحابی کا نام معلوم نہ ہو تو یہ مضر نہیں ہے چاہے صحابی سے تابعی کی روایت «عن» سے ہو (بشرطیکہ وہ مدلس نہ ہو اور سماع بھی ثابت ہو) یا تابعی نے سماع کی تصریح کر رکھی ہو۔
➍ راوی سے روایت لینا تقلید نہیں ہے۔
➎ جمعہ و عیدین کے علاوہ عام خطبات بھی کھڑے ہو کر دینا بہتر ہے، جیسا کہ احادیث کے عموم سے ظاہر ہے اور عام خطبہ بیٹھ کر دینا بھی جائز ہے۔ ديكهئے: [سنن ابي داود: 4753 وهو حديث صحيح]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 137   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2103  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن لگنے کا یہ واقعہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دونوں واقعات سے الگ ہے اور یہاں خطبہ کا مضمون بھی جدا ہے۔
لیکن یہاں یہ بیان نہیں کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی کیفیت کیا تھی۔
(2)
اس حدیث میں (مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟)
ہے اور بعض حدیثوں میں آگے (لِمُحَمَّدِ)
کے الفاظ ہیں اور بعض احادیث میں آیا ہے (الّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟)
اور اس کے لیے آپ کا وہاں ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ نام سے اور صف بتا کر پوچھا جائے گا۔
یہ تو ایسے ہی جیسا کہ ہرقل نے قافلہ والوں سے کہا تھا۔
(اني سائل عن هذا الرجل)
کہ میں ابو سفیان سے اس آدمی کے بارے میں پوچھنے والا ہوں اور اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ آپﷺ کی شکل نظرآئے گی تو پھر بھی بعید نہیں۔
آج ٹی وی پر ہر روز اس صورت کا مظاہرہ ہو رہا ہے تو اللہ کے لیے یہ کیا مشکل ہے۔
اس لیے اس تاویل کی ضرورت نہیں کہ آپﷺ کی مثل صورت پیش کی جائے گی۔
(3)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کی گواہی وہی شخص دے سکے گا۔
جو آپﷺ پر دل کی گہرائی سے ایمان لایا تھا۔
اور جس نے محض سن سنا کر دوسروں کی دیکھا دیکھی گواہی دی اور خود تحقیق کر کے دل سے تصدیق نہ کی وہ جواب نہیں دے سکے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2103   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.