الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Prayer - Funerals
26. باب الدُّعَاءِ لِلْمَيِّتِ فِي الصَّلاَةِ:
26. باب: نماز جنازہ میں میت کے لئے دعا کرنے کا بیان۔
Chapter: Supplicating for the deceased during the (funeral) prayer
حدیث نمبر: 2234
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا نصر بن علي الجهضمي ، وإسحاق بن إبراهيم ، كلاهما، عن عيسى بن يونس ، عن ابي حمزة الحمصي . ح وحدثني ابو الطاهر ، وهارون بن سعيد الايلي ، واللفظ لابي الطاهر، قالا: حدثنا ابن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، عن ابي حمزة بن سليم ، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير ، عن ابيه ، عن عوف بن مالك الاشجعي ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم وصلى على جنازة، يقول: " اللهم اغفر له وارحمه، واعف عنه وعافه، واكرم نزله ووسع مدخله، واغسله بماء وثلج وبرد، ونقه من الخطايا كما ينقى الثوب الابيض من الدنس، وابدله دارا خيرا من داره، واهلا خيرا من اهله، وزوجا خيرا من زوجه، وقه فتنة القبر وعذاب النار "، قال عوف: فتمنيت ان لو كنت انا الميت، لدعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم على ذلك الميت.وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، وَإسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، كِلَاهُمَا، عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْحِمْصِيِّ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، واللفظ لأبي الطاهر، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ بْنِ سُلَيْمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، وَاعْفُ عَنْهُ وَعَافِهِ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بِمَاءٍ وَثَلْجٍ وَبَرَدٍ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ، وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ، وَقِهِ فِتْنَةَ الْقَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ "، قَالَ عَوْفٌ: فَتَمَنَّيْتُ أَنْ لَوْ كُنْتُ أَنَا الْمَيِّتَ، لِدُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ الْمَيِّتِ.
عبدالرحمان بن جبیر بن نفیر نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: " "اے اللہ!اسے بخش دے اس پر رحم فرما اور اسے عافیت دے، اسے معاف فرما اور اس کی باعزت ضیافت فرما اور اس کے داخل ہونے کی جگہ (قبر) کو وسیع فرما اور اس (کےگناہوں) کو پانی، برف اور اولوں سے دھو دے، اسے گناہوں سے اس طرح صاف کردے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا اور اسے اس گھر کے بدلے میں بہتر گھر، اس کے گھر والوں کے بدلے میں بہتر گھر والے اور اس کی بیوی کے بدلے میں بہتر بیوی عطا فرما اور اس کو جنت میں داخل فرما اور قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اپنی پناہ عطا فرما۔" حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اس میت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی وجہ سے میں نے تمنا کی کہ کاش وہ میت میں ہوتا!
امام صاحب اپنے کئی اساتذہ سے عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتےہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نماز جنازہ میں یہ دعا سنی آپصلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: اے اللہ!اسے بخش دے، اس پر رحمت فرما اور اس سے درگزر فرما، اسے عذاب سے عافیت و سلامتی عطا فرما، اس کی بہترین مہمان نوازی فرما، اس کی قبر کو فراح کر دے اور اسے پانی، برف اور اولوں سے دھو ڈال اور اسے گناہوں کی گندگی سے اس طرح صاف فرما، جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے اور اسے ا سکے گھر کے بدلہ میں اس کے گھر سے بہتر گھر دے اس کے گھر والے سے بہتر گھر والے بدلہ میں دے، او راس کی بیوی کے بدلہ میں اس سے بہتر بیوی عطا فرما، اور اسے قبرکے فتنہ اور آگ ے عذاب سے بچا حضرت عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس میت کے حق میں دعائیں سن کر میں نے خواہش کی، اے کاش یہ میت میںہوتا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 963
   سنن النسائى الصغرى62عوف بن مالكاللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله...
   سنن النسائى الصغرى1985عوف بن مالكاللهم اغفر له وارحمه واعف عنه وعافه وأكرم نزله ...
   سنن النسائى الصغرى1986عوف بن مالكاللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله...
   صحيح مسلم2232عوف بن مالكاللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله ...
   صحيح مسلم2234عوف بن مالكاللهم اغفر له وارحمه واعف عنه وعافه وأكرم نزله...
   جامع الترمذي1025عوف بن مالكاللهم اغفر له وارحمه واغسله بالبرد واغسله كما يغسل الثوب...
   سنن ابن ماجه1500عوف بن مالكاللهم صل عليه واغفر له وارحمه وعافه واعف عنه واغسله...
   بلوغ المرام457عوف بن مالكاللهم اغفر له، وارحمه، وعافه، واعف عنه، وأكرم نزله، ووسع مدخله...

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 457  
´نماز جنازہ سراً اور جہراً دونوں طرح پڑھانا جائز ہے`
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پر نماز پڑھائی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں سے اتنا حصہ یاد کر لیا اے اللہ! اس کی مغفرت فرما دے، اس پر رحم فرما، اسے عافیت و آرام سے رکھ، اس سے درگزر فرما، اس کی مہمان نوازی اچھی فرما، اس کی قبر کشادہ و فراخ کر دے، اسے پانی، برف اور ژالوں (اولوں) سے دھو دے (بالکل صاف کر دے) اسے گناہوں سے ایسا صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اور اسے دنیاوی گھر سے بہتر اور عمدہ گھر اور اہل و عیال سے بہتر اہل و عیال عطا فرما، اسے جنت میں داخل فرما، اسے قبر کے فتنہ و آزمائش اور عذاب دوزخ سے محفوظ رکھ۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 457]
لغوی تشریح:
«نُزُلَهُ» نون اور زا دونوں پر ضمہ ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ زا ساکن ہو، یعنی مہمان کے سامنے پیش کی جانے والی خورد و نوش کی کوئی چیز۔ اس جگہ اجر و ثواب مراد ہے۔
«وَسّعْ» توسیع سے ماخوذ ہے اور دعا کے لیے امر کا صیغہ ہے۔ کشادہ و وسیع کر۔
«مَدْخَلَهُ» میم پر فتحہ ہے البتہ میم پر ضمہ پڑھنا بھی درست ہے۔ جائے داخلہ، لیکں یہاں قبر مراد ہے۔
«اَلْبَرَدِ» با اور را دونوں پر فتحہ ہے اولے مراد ہیں۔
«نَقّهِ» قاف پر تشدید ہے۔ «تنقية» سے ماخوذ دعائیہ کلمہ ہے کہ پاک کر دے، صاف ستھرا کر دے۔
«اَلدَّنَسِ» دال اور نون دونوں پر فتحہ، میل کچیل۔
«اُبْدِلْهُ» ابدال (باب افعال) سے ماخوذ ہے۔ بدل دے، اس کے عوض عطاکر۔
«وَقَهِ» اس میں واو عطف کی ہے۔ قاف کے نیچے کسرہ ہے جو «وقاية» سے ماخوذ دعائیہ کلمہ ہے اور ہ ضمیر میت کی طرف راجع ہے، یعنی بچا اسے، حفاظت فرما اس کی، محفوظ رکھ اسے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ دعا بھی بلند آواز سے پڑھی تھی، تبھی تو حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے اسے یاد کر لیا تھا۔ سنن ابن ماجہ وغیرہ میں تو صراحتاً منقول ہے کہ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
«شَهِدْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه واله وسلم صَلّٰي عَلٰي رَجُلٟ مَنَ الْاَنْصَارِ فَسَمِعْتُهُ . . .» میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کا جنازہ پڑھایا۔ میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے۔۔۔ [سنن ابن ماجه، الجنائز، باب ماجاء فى الدعاء فى الصلاة على الجنازة، حديث: 1500]
➋ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے نماز جنازہ بآواز بلند پڑھائی تھی، اس لیے مذکورہ حدیث اور دیگر دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز جنازہ سراً اور جہراً دونوں طرح پڑھانا جائز ہے جبکہ بعض علماء اس کی بابت یوں فرماتے ہیں کہ دعا میں چونکہ افضل یہ ہے کہ آہستہ مانگی جائے۔ اس لیے اکثر فقہاء نے آہستہ پڑھنے کو راجح قرار دیا ہے اور اکثر احادیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے، البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرح بطور تعلیم اونچی آواز سے پڑھا جائے تو اس میں اعتراض کی گنجائش نہیں۔ «والله اعلم»

راوی حدیث:
[ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ ] شرف صحابیت سے مشرف ہیں۔ قبیلہ اشجع سے تعلق کی وجہ سے اشجعی کہلائے۔ غزوہ خیبر میں پہلی مرتبہ شریک جہاد ہوئے۔ فتح مکہ کے روز قبیلہ اشجع کا علم ان کے ہاتھ میں تھا۔ شام میں سکونت اختیار کی۔ ۷۳ ہجری میں وہیں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 457   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1500  
´نماز جنازہ کی دعا۔`
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری شخص کی نماز جنازہ پڑھائی، میں حاضر تھا، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا: «اللهم صل عليه واغفر له وارحمه وعافه واعف عنه واغسله بماء وثلج وبرد ونقه من الذنوب والخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس وأبدله بداره دارا خيرا من داره وأهلا خيرا من أهله وقه فتنة القبر وعذاب النار» اے اللہ! اس پر اپنی رحمت نازل فرما، اسے بخش دے، اس پر رحم کر، اسے اپنی عافیت میں رکھ، اسے معاف کر دے، اور اس کے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو دے، اور اسے غلطیوں اور گناہوں سے ایس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1500]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ دعا بھی اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں صرف میت کے لئے دعا ہے جو نماز جنازہ کا اصل مقصود ہے۔

(2)
پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھونے سے اس کی کامل صفائی اور طہارت سے مراد ہے۔
چونکہ گناہوں کا شیطان سے اور جہنم کی آگ سے تعلق ہے۔
اس لئے گناہوں کا اثر ختم کرنے کےلئے ٹھنڈی چیزوں کاذکر کیا گیا۔

(3)
دنیا کے گھر سے بہتر گھر جنت کا گھر ہے اور دنیا کے اہل وعیال سے بہتراہل وعیال جنت کی حوریں ہیں۔
اس لحاظ سے یہ اس کے لئے دخول جنت کی دعا ہے۔

(4)
اس میں عذاب قبر کا ثبوت ہے۔

(5)
اس میں نماز جنازہ جہری آواز سے پڑھنے کا بھی ثبوت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1500   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2234  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں صرف حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا نقل فرمائی ہے اور آپﷺ سے اور دعائیں بھی ثابت ہیں۔
نیزمصنف اس دعا کا موقعہ اور محل بھی بیان نہیں فرمایا صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ریاض الصالحین میں نماز جنازہ کی کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد تعوذ سورہ فاتحہ اور کوئی ایک سورت پڑھے دوسری تکبیر کے بعد نماز میں پڑھا جانے والا درود ابراہیم پڑھے تیسری تکبیر کے بعد میت اور عام مسلمانوں کے لیے دعائیں کریں۔
اور چوتھی تکبیر کے بعد بھی عام لوگوں کی عادت کے برعکس لمبی دعا کر کے سلام پھیر دے۔

نماز جنازہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو مختلف دعائیں ثابت ہیں۔
ان سب کو ملا کر یا بعض کو پڑھنا چاہیے اور دعائیں خوب اخلاص اور الحاح سے کرنی چاہئیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب دعائیں اور ان کا معنی ومفہوم یاد ہو۔

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتا ہے،
آپﷺ نے یہ دعائیں اونچی آواز سے آہستہ آہستہ (ٹھہرٹھہر کر)
پڑھی تھیں کہ ان کو سن کر یاد ہو گئیں اس طرح دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی روایت سے بھی نماز جنازہ میں دعائیں بلند آواز سے پڑھنا ثابت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سے بلند آواز سے دعائیں پڑھتے تھے نیز کسی حدیث میں یہ ثابت نہیں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پیچھے بلند آواز سے آمین کہتے تھے۔
اس لیے یہ طریقہ یعنی آمین کہنا درست نہیں ہے۔

نماز جنازہ کے بعد میت کے دفن تک آپ یا آپ کے خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کوئی دعا ثابت نہیں ہے۔
اس لیے بعد کی سب دعائین خود ساختہ ہیں حالانکہ یہ بات مسلم ہے کہ عبادات میں اصل چیزثبوت ہے رائے یا قیاس کا یہاں دخل نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2234   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.