الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
47. باب ذِكْرِ الْخَوَارِجِ وَصِفَاتِهِمْ:
47. باب: خوارج اور ان کی صفات کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2456
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني ابو الطاهر ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن ، عن ابي سعيد الخدري . ح وحدثني حرملة بن يحيى ، واحمد بن عبد الرحمن الفهري ، قالا: اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن ، والضحاك الهمداني ، ان ابا سعيد الخدري ، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقسم قسما، اتاه ذو الخويصرة وهو رجل من بني تميم، فقال: يا رسول الله اعدل، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ويلك ومن يعدل إن لم اعدل، قد خبت وخسرت إن لم اعدل "، فقال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: يا رسول الله ائذن لي فيه اضرب عنقه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " دعه فإن له اصحابا يحقر احدكم صلاته مع صلاتهم، وصيامه مع صيامهم، يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية، ينظر إلى نصله فلا يوجد فيه شيء، ثم ينظر إلى رصافه فلا يوجد فيه شيء، ثم ينظر إلى نضيه فلا يوجد فيه شيء وهو القدح، ثم ينظر إلى قذذه فلا يوجد فيه شيء سبق الفرث والدم آيتهم رجل اسود إحدى عضديه مثل ثدي المراة او مثل البضعة تتدردر، يخرجون على حين فرقة من الناس "، قال ابو سعيد: فاشهد اني سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، واشهد ان علي بن ابي طالب رضي الله عنه قاتلهم وانا معه، فامر بذلك الرجل فالتمس فوجد، فاتي به حتى نظرت إليه على نعت رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي نعت.حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْفِهْرِيُّ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَالضَّحَّاكُ الْهَمْدَانِيُّ ، أن أبا سعيد الخدري ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْسِمُ قَسْمًا، أَتَاهُ ذُو الْخُوَيْصِرَةِ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْدِلْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَيْلَكَ وَمَنْ يَعْدِلُ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ، قَدْ خِبْتُ وَخَسِرْتُ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ "، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فِيهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يُنْظَرُ إِلَى نَصْلِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى رِصَافِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى نَضِيِّهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ وَهُوَ الْقِدْحُ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى قُذَذِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ آيَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدَى عَضُدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَتَدَرْدَرُ، يَخْرُجُونَ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ "، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَاتَلَهُمْ وَأَنَا مَعَهُ، فَأَمَرَ بِذَلِكَ الرَّجُلِ فَالْتُمِسَ فَوُجِدَ، فَأُتِيَ بِهِ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَيْهِ عَلَى نَعْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي نَعَتَ.
ابن شہاب سے روایت ہے، کہا: مجھے ابو سلمہ بن عبدالرحمان اورضحاک ہمدانی نے خبر دی کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مال تقسیم فرمارہے تھے کہ اسی اثناء میں آپ کے پاس ذوالخویصرہ جو بنو تمیم کا ایک فرد تھا، آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !عدل کیجئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تیری ہلاکت (کا سامان ہو)!اگر میں عدل نہیں کرو گاتو کون عدل کرے گا؟ اگر میں عدل نہیں کررہا تو میں ناکام ہوگیا اور خسارے میں پڑ گیا۔" (یا اگر میں نے عدل نہ کیا تو تم ن اکام رہو گے اور خسارے میں ہوں گے) اس پر حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کو قتل کردوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اے چھوڑ دو، اس کے کچھ ساتھی ہوں گے۔تمھارا کوئی فرد اپنی نماز کو ان کی نماز اور اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے سامنے ہیچ سمجھے گا، یہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کی ہنسلیوں سے نیچے نہیں اترے گا۔اسلام سے اس طرح نکلیں گے جیسے تیر نشانہ بنائے گئے شکار سے نکلتاہے۔اس کے پھل (یا پیکان) کو دیکھا جائے تو اس میں کچھ نہیں پایا جاتا، پھر اس کے سو فار کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں پایا جاتا، پھر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں کچھ نہیں پایا جاتا، وہ (تیر) گوبر اور خون سے آگے نکل گیا (لیکن اس پر لگا کچھ بھی نہیں)، ان کی نشانی ایک سیاہ فام مرد ہے، اس کے دونوں مونڈھوں میں سے ایک مونڈھا عورت کے پستان کی طرح یا گوشت کے ہلتے ہوئے ٹکڑے کی طرح ہوگا۔وہ لوگوں (مسلمانوں) کے باہمی اختلاف کے وقت (نمودار) ہوں گے۔" ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کےخلاف جنگ کی، میں ان کے ساتھ تھا۔انھوں نے اس آدمی (کو تلاش کرنے) کے بارے میں حکم دیا، اسے تلاش کیا گیا تو وہ مل گیا، اس (کی لاش) کو لایا گیا تو میں نے اس کو اسی طرح دیکھا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تعارف کرایاتھا۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ مال تقسیم فرما رہے تھے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنو تمیم کا ایک فرد ذوالخویصرہ آیا، اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! انصاف کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھ پر افسوس! اگر میں عدل نہیں کرتا تو عدل کون کرے گا؟ اگر میں عدل نہیں کر رہا تو میں ناکامی اور گھاٹے کا شکار ہو گیا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے چھوڑیے، اس کے کچھ ساتھی ہیں۔ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں کم تر خیال کرو گے، اور اپنے روزوں کو ان کے مقابلے میں ہیچ سمجھو گے، وہ قرآن پڑھیں گے، ان کی ہنسلی سے اوپر نہیں اٹھے گا۔ (قبول نہیں ہو گا) اسلام (فرمانبرداروں) سے اس طرح نکلیں گے جیسے تیر شکار سے نکلتا ہے۔ اس کے پھل کو دیکھا جائے تو اس میں کچھ نہیں پایا جائے گا، اس کے پھل کی جڑ کو دیکھا جائے پھر اس کی لکڑی کو دیکھا جائے تو اس پر کچھ نہیں ہو گا، پھر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس پر کچھ نہیں ہو گا، تیر گوبر اور خون سے تجاوز کر گیا ہے (لیکن اس پر لگا کچھ بھی نہیں) ان کی علامت و نشانی ایک سیاہ آدمی ہے۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح ہو گا، یا گو شت کے ہلتے ہوئے ٹکڑہ کی طرح، لوگوں کے (مسلمانوں) کے باہمی اختلاف کے وقت نکلیں گے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے جنگ لڑی جبکہ میں ان کے ساتھ تھا۔ تو انھوں نے اس آدمی کو تلاش کرنے کا حکم دیا، تو وہ مل گیا، اسے ان کے پاس لایا گیا۔ حتی کہ میں نے اسے اس حالت و صفت میں پایا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1064
   صحيح البخاري4351سعد بن مالكألا تأمنوني وأنا أمين من في السماء يأتيني خبر السماء صباحا ومساء قال فقام رجل غائر العينين مشرف الوجنتين ناشز الجبهة كث اللحية محلوق الرأس مشمر الإزار فقال يا رسول الله اتق الله قال ويلك أولست أحق أهل الأرض أن يتقي الله قال ثم ولى الرجل قال خالد بن
   صحيح البخاري3610سعد بن مالكومن يعدل إذا لم أعدل قد خبت وخسرت إن لم أكن أعدل فقال عمر يا رسول الله ائذن لي فيه فأضرب عنقه فقال دعه فإن له أصحابا يحقر أحدكم صلاته مع صلاتهم وصيامه مع صيامهم يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ينظر إلى نصله
   صحيح البخاري6931سعد بن مالكيخرج في هذه الأمة ولم يقل منها قوم تحقرون صلاتكم مع صلاتهم يقرءون القرآن لا يجاوز حلوقهم أو حناجرهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية فينظر الرامي إلى سهمه إلى نصله إلى رصافه فيتمارى في الفوقة هل علق بها من الدم شيء
   صحيح البخاري6933سعد بن مالكيمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية
   صحيح البخاري5058سعد بن مالكيخرج فيكم قوم تحقرون صلاتكم مع صلاتهم وصيامكم مع صيامهم وعملكم مع عملهم ويقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ينظر في النصل فلا يرى شيئا وينظر في القدح فلا يرى شيئا وينظر في الريش فلا يرى شيئا ويتمارى في الفوق
   صحيح البخاري7432سعد بن مالكمن يطيع الله إذا عصيته فيأمنني على أهل الأرض ولا تأمنوني فسأل رجل من القوم قتله أراه خالد بن الوليد فمنعه النبي فلما ولى قال النبي إن من ضئضئ هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من
   صحيح البخاري6163سعد بن مالكيمرقون من الدين كمروق السهم من الرمية
   صحيح البخاري7562سعد بن مالكيخرج ناس من قبل المشرق ويقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ثم لا يعودون فيه حتى يعود السهم إلى فوقه قيل ما سيماهم قال سيماهم التحليق أو قال التسبيد
   صحيح البخاري4667سعد بن مالكيخرج من ضئضئ هذا قوم يمرقون من الدين
   صحيح مسلم2455سعد بن مالكيخرج في هذه الأمة ولم يقل منها قوم تحقرون صلاتكم مع صلاتهم فيقرءون القرآن لا يجاوز حلوقهم أو حناجرهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية فينظر الرامي إلى سهمه إلى نصله إلى رصافه فيتمارى في الفوقة هل علق بها من الدم شيء
   صحيح مسلم2451سعد بن مالكيقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية
   صحيح مسلم2457سعد بن مالكهم شر الخلق أو من أشر الخلق يقتلهم أدنى الطائفتين إلى الحق
   صحيح مسلم2452سعد بن مالكيتلون كتاب الله رطبا لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية
   صحيح مسلم2456سعد بن مالكيقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية
   سنن أبي داود4764سعد بن مالكمن يطيع الله إذا عصيته أيأمنني الله على أهل الأرض ولا تأمنوني قال فسأل رجل قتله أحسبه خالد بن الوليد قال فمنعه قال فلما ولى قال إن من ضئضئ هذا أو في عقب هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية يقتلون أهل الإسلام ويدع
   سنن النسائى الصغرى4106سعد بن مالكمن ضئضئ هذا قوما يخرجون يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان لئن أنا أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد
   سنن النسائى الصغرى2579سعد بن مالكمن ضئضئ هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد
   سنن ابن ماجه169سعد بن مالكيمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7432  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ المعارج میں) فرمان فرشتے اور روح القدس اس کی طرف چڑھتے ہیں`
«. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" بَعَثَ عَلِيٌّ وَهُوَ بِالْيَمَنِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا، فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلَابٍ وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، فَتَغَضَّبَتْ قُرَيْشٌ، وَالْأَنْصَارُ، فَقَالُوا: يُعْطِيهِ صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا، قَالَ: إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ، نَاتِئُ الْجَبِينِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَمَنْ يُطِيعُ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ، فَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي، فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ؟ قَتْلَهُ أُرَاهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، فَمَنَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ . . .»
. . . ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سونا بھیجا گیا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ اور مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، ان سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے، انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدری فزاری، علقمہ بن علاثہ العامری اور زید الخیل الطائی میں تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو غصہ آ گیا اور انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے رئیسوں کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک مصلحت کے لیے ان کا دل بہلاتا ہوں۔ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی تھی، داڑھی گھنی تھی، دونوں کلے پھولے ہوئے تھے اور سر گٹھا ہوا تھا۔ اس مردود نے کہا: اے محمد! اللہ سے ڈر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بھی اس (اللہ) کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اس کی اطاعت کرے گا؟ اس نے مجھے زمین پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔ پھر حاضرین میں سے ایک صحابی خالد رضی اللہ عنہ یا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کے صرف لفظ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکاری جانور میں سے پار نکل جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو (کافر کہہ کر) قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں نے ان کا دور پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح نیست و نابود کر دوں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7432]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7432 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {تَعْرُجُ الْمَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جو حدیث پیش فرمائی ہے اس کا بظاہر باب سے مناسبت دکھائی نہیں دیتا کیونکہ تحت الباب نہ تو فرشتوں کا ذکر ہے اور نہ ہی اعمال صالحہ کا اوپر چڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اسی روایت کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں باب سے مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«حديث أبى سعيد الخدري رضي الله عنه، و مناسبة للترجمة من جهة أنه ورد فى بعض روايات هذا الحديث: ألا تأمنوني و أنا أمين من فى السماء فجرى البخاري على عادته المعروفة من الإشارة إلى الرواية التى لم يوردها لإرادة تشحيذ أذهان الطلبة.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 271/5]
حدیث سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی باب سے مناسبت اس جہت سے ہے کہ بعض روایات میں اس حدیث کے یہ الفاظ وارد ہیں: میں اس اللہ کا امین ہوں جو آسمانوں میں ہے، پس امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا تاکہ تشحیذ کا سامان پیدا ہو جائے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بعض لوگوں نے مناسبت دینے کے لیے تکلف کیا ہے کہ کتاب المغازی میں یہ روایت ہے کہ «و أنا أمين من فى السماء» ۔ [عمدة القاري للعيني: 181/25]

لہٰذا ان تصریحات سے مناسبت کا پہلو اس طرح سے اجاگر ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں «و أنا أمين» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، پس انہی الفاظوں کے ساتھ باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 320   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث169  
´خوارج کا بیان۔`
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حروریہ ۱؎ (خوارج) کے بارے میں کچھ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی قوم کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جو بڑی عبادت گزار ہو گی، اس کی نماز کے مقابلہ میں تم میں سے ہر ایک شخص اپنی نماز کو کمتر اور حقیر سمجھے گا ۲؎، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کے جسم سے نکل جاتا ہے کہ تیر انداز اپنا تیر لے کر اس کا پھل دیکھتا ہے، تو اسے (خون وغیرہ) کچھ بھی نظر نہیں آتا، پھر اس کے پھل کو دیکھتا ہے تو بھی کچھ نظر نہیں آت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 169]
اردو حاشہ:
(1)
خوارج، نماز روزہ وغیرہ نیک اعمال میں بہت محنت کرتے تھے حتی کہ صحابہ بھی دیکھیں تو تعجب کریں۔
لیکن عقیدے کی خرابی کے ساتھ نیک عمل میں جتنی بھی محنت کی جائے، کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

(2)
اس حدیث میں تیر کے مختلف حصوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

نَصْل (پھل)
تیر کے اس حصے کو کہتے ہیں جو لوہے کا بنا ہوتا ہے اور تیز دھار ہونے کی وجہ سے زخمی کرتا ہے۔

رِصَاف وہ پٹھے جو تیر میں وہاں ہوتے ہیں جہاں لوہے کا پھل لکڑی سے ملتا ہے۔

قَدْح:
تیر کی وہ لمبی لکڑی جس کے سرے پر نصل لگایا جاتا ہے۔

قُذَذ:
اُن پروں کو کہتے ہیں جو تیر کے پچھلے حصے میں ہوتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ تیر کے کسی حصے میں شکار شدہ جانور کا خون یا گوشت کا ٹکڑا تک نہیں لگا بلکہ تیر اسے لگ کر اتنی تیزی سے پار ہو گیا کہ بالکل صاف نکل گیا۔
اسی طرح یہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور سیدھے باہر نکل گئے۔
اسلام کی دینی اور اخلاقی تعلیمات کا کچھ اثر قبول نہیں کیا۔

(3)
اگرچہ خوارج کی گمراہی واضح ہے اور صحیح اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اسی لیے محدثین کا ایک گروہ ان کے کافر ہونے کا قائل ہے، تاہم علماء کی اکثریت نے اس کے باوجود انہیں مرتد یا غیر مسلم قرار نہیں دیا بلکہ گمراہ اور باغی ہی فرمایا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 169   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4764  
´چوروں سے مقابلہ کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مٹی سے آلودہ سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار لوگوں: اقرع بن حابس حنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید الخیل طائی جو بنی نبہان کے ایک فرد ہیں اور علقمہ بن علاثہ عامری جو بنی کلاب سے ہیں کے درمیان تقسیم کر دیا، اس پر قریش اور انصار کے لوگ ناراض ہو گئے اور کہنے لگے: آپ اہل نجد کے رئیسوں کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ان کی تالیف قلب کرتا ہوں اتنے میں ایک شخص آیا (جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4764]
فوائد ومسائل:
رسول ؐ انتہائی حلیم ومتحمل مزاج تھے اور بے ادب وگستاخ لوگوں سے بھی صرف نظر کر جاتے تھے۔
چنانچہ حکام، قضاہ اور اصحاب منصب کو بھی چاہیے کہ پہلے جاہلوں کی اصلاح کی کوشش کریں، اگر وہ اعلانیہ فساد پھیلانے لگیں تو ان کا قلع قمع کریں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4764   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2456  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نضي:
تیر کی لکڑی۔
(2)
قدد:
قدة کی جمع ہے،
تیر کا پر۔
(3)
تددر:
حرکت کرتا ہے ہلتا جلتا ہے۔
فوائد ومسائل:
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں جن جن چیزوں کے بارے میں پیشن گوئی فرمائی،
ان کا ظہور اسی طرح ہوا،
ان لوگوں نے واقعہ تحکیم کے وقت خروج کیا،
مسلمانوں سے الگ ہوگئے،
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کو کافر قراردیا،
حروراء نامی عراق کی بستی جوکوفہ کے قریب تھی میں ان کا اجتماع ہوا اس لیے ان کو حروریہ کا نام بھی دیا گیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول (يَخْرُجُونَ)
کی وجہ سےخارجی کہا گیا اور(يَمْرُقُونَ)
کی بنا پر مارقہ کہا گیا،
لمبی لمبی مسلمان امیر وحاکم کی اطاعت سے بالکل کورے تھے۔
قرآنی ہدایات وتعلیمات کا اثر نہ ہونے کی بنا پر مسلمانوں کے خلاف ہی اٹھ کھڑےہوئے اور سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا مقابلہ کیا۔
اور نشان زدہ آدمی بھی انہیں ہی ملا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2456   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.