الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
22. بَابُ جَوَازِ تَعْلِيقِ الْإِحْرَامِ وَهُوَ أَنْ يُحْرِمَ بِإِحْرَامٍٍ كَإِحْرَامِ فُلَانٍ فَيَصِير مُحْرِمًا بِإِحْرَامٍ مِثْلَ إِحْرَامِ فُلَانٍ
22. باب: اپنے احرام کو دوسرے محرم کے احرام کے ساتھ معلق کر نے کا جواز۔
حدیث نمبر: 2961
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن عمارة بن عمير ، عن إبراهيم بن ابي موسى ، عن ابي موسى ، انه كان يفتي بالمتعة، فقال له رجل: رويدك ببعض فتياك، فإنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في النسك بعد، حتى لقيه بعد فساله، فقال عمر : " قد علمت ان النبي صلى الله عليه وسلم قد فعله واصحابه، ولكن كرهت ان يظلوا معرسين بهن في الاراك، ثم يروحون في الحج تقطر رءوسهم ".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِالْمُتْعَةِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: رُوَيْدَكَ بِبَعْضِ فُتْيَاكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدُ، حَتَّى لَقِيَهُ بَعْدُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ عُمَرُ : " قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَهُ وَأَصْحَابُهُ، وَلَكِنْ كَرِهْتُ أَنْ يَظَلُّوا مُعْرِسِينَ بِهِنَّ فِي الْأَرَاكِ، ثُمَّ يَرُوحُونَ فِي الْحَجِّ تَقْطُرُ رُءُوسُهُمْ ".
ابراہیم بن ابی موسیٰ نے حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ حج تمتع (کرنے) کافتویٰ دیاکرتے تھے، ایک شخص نے ان سے کہا: اپنےبعض فتووں میں زرا رک جاؤ، تم نہیں جانتے کہ اب امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے مناسک (حج) کے متعلق کیا نیا فرمان جاری کیا ہے۔بعد میں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (حکم صادر) کیا، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے (اس پرعمل) کیا، لیکن مجھے یہ بات ناگوارمعلوم ہوئی کہ لوگ عرفات کے پاس وادی عرفہ کے قریب اراک مقام میں (یا پیلو کے درختوں کی اوٹ میں) اپنی عورتوں کےساتھ لطف اندوز ہوتے رہیں۔پھر جب وہ (آٹھ ذوالحجہ یوم الترویہ کی) صبح حج کے لئے چلیں تو (غسل جنابت کریں اور) ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حج تمتع کا فتویٰ دیا کرتا تھا، تو مجھے ایک آدمی نے کہا، اپنے اس فتویٰ سے باز رہو، کیونکہ تمہیں پتہ نہیں ہے، تیرے بعد امیر المؤمنین نے حج کے بارے میں کیا نیا حکم جاری کیا ہے، حتی کہ بعد میں ان کی ملاقات عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی، تو ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا، اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا، مجھے خوب معلوم ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے حج تمتع کیا ہے، لیکن میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگ پیلو کے درخت کے نیچے اپنی عورتوں سے تعلق قائم کریں، پھر حج کرنے کے لیے چلیں، اور ان کے سروں سے پانی کے قطرات گر رہے ہوں (غسل جنابت کے سبب)۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1222
   صحيح مسلم2961إبراهيم بن عبد اللهفعله وأصحابه ولكن كرهت أن يظلوا معرسين بهن في الأراك ثم يروحون في الحج تقطر رءوسهم
   سنن ابن ماجه2979إبراهيم بن عبد اللهرسول الله فعله وأصحابه ولكني كرهت أن يظلوا بهن معرسين تحت الأراك ثم يروحون بالحج تقطر رءوسهم
   سنن النسائى الصغرى2736إبراهيم بن عبد اللهفعله ولكن كرهت أن يظلوا معرسين بهن في الأراك ثم يروحوا بالحج تقطر رءوسهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2979  
´حج تمتع کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حج تمتع کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے، ایک شخص نے ان سے کہا: آپ اپنے بعض فتوؤں سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ آپ کے بعد امیر المؤمنین نے حج کے مسئلہ میں جو نئے احکام دئیے ہیں وہ آپ کو معلوم نہیں، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملا، اور ان سے پوچھا، تو آپ نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ایسا کیا ہے، لیکن مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ لوگ پیلو کے درخت کے نیچے عورتوں کے ساتھ رات گزاریں پھر حج کو جائیں، اور ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2979]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حج تمتع کو شرعاً ممنوع نہیں سمجھتے تھے۔

(2)
رسول اللہ ﷺ نے حج قران ادا کیا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمتع کیا ہے۔
اس سے تمتع کا لغوی معنی مراد ہے۔
یعنی ایک سفر میں حج اور عمرہ دونوں کا فائدہ حاصل کرنا۔
یا یہ مطلب ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم ﷺ کے حکم سے تمتع کیا۔
آپ کے حکم کو عمل کے برابر قرار دیتے ہوئے یہ جملہ فرمایا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2979   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2961  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرورت کے تحت اپنا احرام کس دوسری محترم شخصیت جس کی اقتدا کرنی ہو کے احرام پر معلق کیا جا سکتا ہے اور اس ابہام کی تعیین بعد میں اس کے ساتھ مل کر ہو سکتی ہے۔

میقات سے احرام باندھنے کے بعد عمرہ کیے بغیر اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہاں کسی ضرورت یا مانع کی صورت میں احرام کی کیفیت میں تبدیلی جائز ہے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا احرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر معلق کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قارن تھے کیونکہ ہدی ساتھ لانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج سے فراغت سے پہلے احرام کھول نہیں سکتے تھے لیکن ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ہدی نہ تھی اس لی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حج تمتع کرنے کا حکم دیا وہ عمرہ کر کے حلال ہو گئے۔

قرآن کی اصطلاح کی روسے حج تمتع اور حج قران دونوں (چونکہ ایک ہی سفر میں دونوں سرانجام دئیے جاتے ہیں)
حج تمتع کہلاتے ہیں اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے خوب معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے حج تمتع کیا تھا لیکن وہ حج تمتع سے ایک مصلحت اور حکمت کے تحت روکتے تھے وہ اس کے جواز کے منکرنہ تھے تفصیل حدیث نمبر145 کے تحت گزر چکی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2961   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.