الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
59. باب اسْتِحْبَابِ النُّزُولِ بِالْمُحَصَّبِ يَوْمَ النَّفْرِ وَالصَّلاَةِ بِهِ:
59. باب: کوچ کے دن وادی محصب میں اترنا مستحب ہے۔
حدیث نمبر: 3171
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن سالم : ان ابا بكر، وعمر، وابن عمر: كانوا ينزلون الابطح، قال الزهري ، واخبرني عروة ، عن عائشة : انها لم تكن تفعل ذلك، وقالت: " إنما نزله رسول الله صلى الله عليه وسلم لانه كان منزلا اسمح لخروجه ".حدثنا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ : أَنَّ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَابْنَ عُمَرَ: كَانُوا يَنْزِلُونَ الْأَبْطَح، قَالَ الزُّهْرِيُّ ، وَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنْ عَائِشَةَ : أَنَّهَا لَمْ تَكُنْ تَفْعَلُ ذَلِكَ، وَقَالَتْ: " إِنَّمَا نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَنَّهُ كَانَ مَنْزِلًا أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ ".
زہری نے سالم سے روایت کی کہ ابو بکر عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہ ابطح پڑاؤکیا کرتے تھے۔ زہر ی نے کہا مجھے عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی کہ وہ ایسا نہیں کرتی تھیں اور (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اترے تھے کیونکہ پڑاؤ کی وہ جگہ آپ کے (مکہ سے) نکلنے کے لیے زیادہ آسان تھی۔
سالم رحمۃ اللہ علہ بیان کرتے ہیں، حضرت ابوبکر، عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنھم وادی اَبطَحَ میں اترتے تھے، عروہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں بتاتے ہیں، وہ ایسا نہیں کرتی تھیں، وہ فرماتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں محض اس لیے اترے تھے، کیونکہ وہ ایسی منزل تھی، جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (مدینہ منورہ کے لیے) نکلنا آسان تھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1311
   صحيح البخاري1765عائشة بنت عبد اللهمنزل ينزله النبي ليكون أسمح لخروجه يعني بالأبطح
   صحيح مسلم3169عائشة بنت عبد اللهنزول الأبطح ليس بسنة إنما نزله رسول الله لأنه كان أسمح لخروجه إذا خرج
   صحيح مسلم3171عائشة بنت عبد اللهنزله رسول الله لأنه كان منزلا أسمح لخروجه
   جامع الترمذي923عائشة بنت عبد اللهنزل رسول الله الأبطح لأنه كان أسمح لخروجه
   سنن أبي داود2008عائشة بنت عبد اللهنزل رسول الله المحصب ليكون أسمح لخروجه وليس بسنة فمن شاء نزله ومن شاء لم ينزله
   سنن أبي داود2006عائشة بنت عبد اللهنزل المحصب
   سنن ابن ماجه3067عائشة بنت عبد اللهنزول الأبطح ليس بسنة إنما نزله رسول الله ليكون أسمح لخروجه
   بلوغ المرام642عائشة بنت عبد اللهإنما نزله رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لانه كان منزلا اسمح لخروجه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3067  
´وادی محصب میں اترنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابطح میں اترنا سنت نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اس لیے اترے تھے کہ وہاں سے مدینہ کے لیے روانگی میں آسانی ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3067]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ابطح يا بطحاء کے لفظی معنی ہموار اور وسیع قطعہ زمین کے ہیں۔
یہاں اس سے مراد مکہ اور منی کے درمیان کا میدان ہے۔
اس کو محصب کہتے ہیں۔ (فتح الباري: 3/ 754)

(2)
  رسول اللہ ﷺ نے یہاں ٹھہر کر ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر پانچ نمازیں ادا کیں۔
اسی رات کو مکہ جاکر طواف وداع کیا اور واپس آگئے۔

(3)
حضرت عائشہ اپنے بھائی حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے ساتھ عمرے کے لیے تشریف لے گئی تھیں۔
جب وہ واپس آئیں تو رسول اللہ ﷺ یہیں سے مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ (صحيح البخاري، العمرة، باب الاعتمار بعد الحج بغير هدي، حديث: 1786)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3067   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 642  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ ابطح (محصب) میں فروکش ہونے کا عمل نہیں کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر اس لئے قیام فرمایا تھا کہ یہاں سے واپسی میں آسانی و سہولت زیادہ تھی۔ (مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 642]
642لغوی تشریح:
«با لا بطح» «ابطح» سے مراد وادی محصب ہی مراد ہے۔
«اسمع» زیادہ سہل و آسان۔
«لخروجه» مکہ سے مدینہ کو جانے کے لیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ محصب میں قیام کرنا ان مناسک حج میں سے نہیں ہے جو مستحب ہیں۔ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ اس مقام پر اس لیے اترے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں قریش نے بنو ہاشم سے نبوت کے ساتویں سال میں قطع تعلق کا عہد و پیمان کیا اور وہاں بیٹھ کر اس کا بائیکاٹ کا معاہدہ لکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے اترے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین اور اپنے رسول کو غلبہ عطا فرمایا، اس لیے ان کا قول ہے کہ حاجیوں کو یہاں فروکش ہونا چاہیے، مگر بظاہر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہی درست معلوم ہوتا ہے۔ «والله اعلم»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 642   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2008  
´وادی محصب میں اترنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محصب میں صرف اس لیے اترے تاکہ آپ کے (مکہ سے) نکلنے میں آسانی ہو، یہ کوئی سنت نہیں، لہٰذا جو چاہے وہاں اترے اور جو چاہے نہ اترے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2008]
فوائد ومسائل:
چونکہ نبی کریم ﷺ یہاں اُترے تھے۔
اور بعد ازاں خلفائے راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین بھی یہاں اترتے رہے ہیں۔
اس لئے اس کے مستحب ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے ایک عام منزل سمجھتے تھے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2008   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.