الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
3. باب وُجُوبِ الْكَفَّارَةِ عَلَى مَنْ حَرَّمَ امْرَأَتَهُ وَلَمْ يَنْوِ الطَّلاَقَ:
3. باب: کفارہ کا واجب ہونا اس پر جس نے اپنی عورت سے کہا: کہ تو مجھ پر حرام ہے اور نیت طلاق کی نہ تھی۔
Chapter: Expiation must be offered by one who declares his wife to be unlawful for him but does not intend divorce thereby
حدیث نمبر: 3679
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء ، وهارون بن عبد الله ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب الحلواء والعسل، فكان إذا صلى العصر دار على نسائه فيدنو منهن، فدخل على حفصة، فاحتبس عندها اكثر مما كان يحتبس، فسالت عن ذلك: فقيل لي: اهدت لها امراة من قومها عكة من عسل، فسقت رسول الله صلى الله عليه وسلم منه شربة، فقلت: اما والله لنحتالن له فذكرت ذلك لسودة، وقلت: إذا دخل عليك، فإنه سيدنو منك، فقولي له: يا رسول الله، اكلت مغافير، فإنه سيقول لك: لا، فقولي له: ما هذه الريح وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يشتد عليه ان يوجد منه الريح، فإنه سيقول لك: سقتني حفصة شربة عسل، فقولي له: جرست نحله العرفط، وساقول ذلك له، وقوليه انت يا صفية، فلما دخل على سودة، قالت: تقول سودة: والذي لا إله إلا هو لقد كدت ان ابادئه بالذي قلت لي، وإنه لعلى الباب، فرقا منك، فلما دنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: يا رسول الله، اكلت مغافير؟ قال: " لا "، قالت: فما هذه الريح؟ قال: " سقتني حفصة شربة عسل "، قالت: جرست نحله العرفط، فلما دخل علي قلت له مثل ذلك، ثم دخل على صفية، فقالت بمثل ذلك، فلما دخل على حفصة، قالت: يا رسول الله، الا اسقيك منه، قال: لا حاجة لي به، قالت: تقول سودة: سبحان الله، والله لقد حرمناه، قالت: قلت لها: اسكتي، قال ابو إسحاق إبراهيم: حدثنا الحسن بن بشر بن القاسم، حدثنا ابو اسامة، بهذا سواء،حدثنا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حدثنا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ، فَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ دَارَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَاحْتَبَسَ عَنْدَهَا أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ: فَقِيلَ لِي: أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةً مِنْ عَسَلٍ، فَسَقَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ شَرْبَةً، فَقُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ، وَقُلْتُ: إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ، فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ، فَقُولِي لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: لَا، فَقُولِي لَهُ: مَا هَذِهِ الرِّيح وكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ يُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقُولِي لَهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، وَسَأَقُولُ ذَلِكِ لَهُ، وَقُولِيهِ أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ، قَالَت: تَقُولُ سَوْدَةُ: وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِئَهُ بِالَّذِي قُلْتِ لِي، وَإِنَّهُ لَعَلَى الْبَابِ، فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ قَالَ: " لَا "، قَالَت: فَمَا هَذِهِ الرِّيح؟ قَالَ: " سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ "، قَالَت: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيَّ قُلْتُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ، فقَالَت بِمِثْلِ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، قَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَسْقِيكَ مِنْهُ، قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي بِهِ، قَالَت: تَقُولُ سَوْدَةُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ، قَالَت: قُلْتُ لَهَا: اسْكُتِي، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ: حدثنا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْقَاسِمِ، حدثنا أَبُو أُسَامَةَ، بِهَذَا سَوَاءً،
ابواسامہ نے ہمیں ہشام سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد کو پسند فرماتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھتے تو اپنی تمام ازواج کے ہاں چکر لگاتے اور ان کے قریب ہوتے، (ایسا ہوا کہ) آپ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو ان کے ہاں آپ اس سے زیادہ (دیر کے لیے) رکے جتنا آپ (کسی بیوی کے پاس) رکا کرتے تھے۔ ان (حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا) کو ان کے خاندان کی کسی عورت نے شہد کا (بھرا ہوا) ایک برتن ہدیہ کیا تھا تو انہوں نے اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد پلایا۔ میں نے (دل میں) کہا: اللہ کی قسم! ہم آپ (کو زیادہ دیر قیام سے روکنے) کے لیے ضرور کوئی حیلہ کریں گی، چنانچہ میں نے اس بات کا ذکر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا، اور کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ہاں تشریف لائیں گے تو تمہارے قریب ہوں گے، (اس وقت) تم ان سے کہنا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟ وہ تمہیں جواب دیں گے، نہیں! تو تم ان سے کہنا: یہ بو کیسی ہے؟۔۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات انتیائی گراں گزرتی تھی کہ آپ سے بو محسوس کی جائے۔۔ اس پر وہ تمہیں جواب دیں گے: مجھے حفصہ نے شہد پلایا تھا، تو تم ان سے کہنا (پھر) اس کی مکھی نے عرفط (بوٹی) کا رس چوسا ہو گا۔میں بھی آپ سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہنا! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! آپ ابھی دروازے پر ہی تھے کہ میں تمہاری ملامت کے ر سے آپ کو بلند آواز سے وہبات کہنے ہی لگی تھی جو تم نے مجھ سے کہی تھی، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریب ہوئے تو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں۔" انہوں نے کہا: تو یہ بو کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے حفصہ نے شہد پلایا تھا۔" انہوں نے کہا: پھر اس کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہو گا۔ اس کے بعد جب آپ میرے ہاں تشریف لائے، تو میں نے بھی آپ سے یہی بات کہی، پھر آپ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے، تو انہوں نے بھی یہی بات کہی، اس کے بعد آپ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں (دوبارہ) تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی: کیا آپ کو شہد پیش نہ کروں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، مجھے اس کی ضرورت نہیں۔" (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: سودہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں، سبحان اللہ! اللہ کی قسم! ہم نے آپ کو اس سے محروم کر دیا ہے۔ تو میں نے ان سے کہا: خاموش رہیں۔ ابواسحاق ابراہیم نے کہا: ہمیں حسن بن بشر بن قاسم نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں ابواسامہ نے بالکل اسی طرح حدیث بیان کی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیرینی اور شہد پسند تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز سے فارغ ہوتے تو تمام بیویوں کے ہاں چکر لگاتے اور ان کے قریب بیٹھتے۔ ایک دفعہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں گئے اور عام معمول سے زیادہ ان کے پاس رک گئے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو مجھے بتایا گیا۔ ان کی قوم کی کسی عورت نے انہیں شہد کا ایک کپا ہدیہ کے طور پر دیا ہے۔ تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ پلایا ہے تو میں نے دل میں کہا، ہم اللہ کی قسم! اس کے لیے کوئی تدبیر اختیار کریں گے۔ میں نے اس کا تذکرہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کیا اور انہیں کہا، جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئیں گے تو آپ کے قریب بیٹھیں گے، تو ان سے کہنا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فورا فرمائیں گے نہیں، تو ان سے کہنا، یہ بو کیسی ہے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات انتہائی ناگوار تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بو آئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً یہ فرمائیں گے، حفصہ نے مجھے کچھ شہد پلایا ہے۔ تو ان سے کہنا، اس کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہے، اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہوں گی۔ اور تو بھی اے صفیہ، یہی کہنا۔ تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں آئے، تو سودہ بیان کرتی ہیں، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، قریب تھا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سے وہ بات کہوں جو آپ نے (عائشہ نے) مجھے کہی تھی۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دروازہ پر تھے، تیرے ڈر کی خاطر، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریب پہنچے سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں۔ انہوں نے کہا، یہ بو کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حفصہ نے تھوڑا سا شہد پلایا ہے) انہوں نے کہا، شہد کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، تو میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کہا، پھر صفیہ کے ہاں گئے۔ انہوں نے بھی ایسے ہی کہا، تو جب حفصہ کے ہاں پہنچے، انہوں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کو اس سے (شہد سے) نہ پلاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں، سودہ نے کہا سبحان اللہ! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے محروم کر دیا ہے، تو میں نے اسے کہا، خاموش رہو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1474
   صحيح البخاري5599عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل
   صحيح البخاري5614عائشة بنت عبد اللهيعجبه الحلواء والعسل
   صحيح البخاري5431عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل
   صحيح البخاري6972عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء ويحب العسل إذا صلى العصر أجاز على نسائه فيدنو منهن كان رسول الله يشتد عليه أن يوجد منه الريح جرست نحله العرفط فلما دخل علي قلت له مثل ذلك ودخل على صفية فقالت له مثل ذلك فلما دخل على حفصة قالت له يا رسول الله ألا أسقيك منه قال لا حاجة لي به قال
   صحيح البخاري5216عائشة بنت عبد اللهإذا انصرف من العصر دخل على نسائه فيدنو من إحداهن دخل على حفصة فاحتبس أكثر مما كان يحتبس
   صحيح البخاري5682عائشة بنت عبد اللهيعجبه الحلواء والعسل
   صحيح مسلم3679عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل إذا صلى العصر دار على نسائه فيدنو منهن كان رسول الله يشتد عليه أن يوجد منه الريح جرست نحله العرفط وسأقول ذلك له وقوليه أنت يا صفية فلما دخل على سودة قالت تقول سودة والذي لا إله إلا هو لقد كدت أن أبادئه بالذي قلت لي وإنه لعلى الباب فرقا
   جامع الترمذي1831عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل
   سنن ابن ماجه3323عائشة بنت عبد اللهيحب الحلواء والعسل
   بلوغ المرام910عائشة بنت عبد اللهغير مسيس حتى يبلغ التي هو يومها،‏‏‏‏ فيبيت عندها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5599  
´ باذق (انگور کے شیرہ کی ہلکی آنچ میں پکائی ہوئی شراب) کے بارے میں`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ، وَالْعَسَلَ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلوا اور شہد کو دوست رکھتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَشْرِبَةِ: 5599]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5599 کا باب: «بَابُ الْبَاذَقِ، وَمَنْ نَهَى عَنْ كُلِّ مُسْكِرٍ مِنَ الأَشْرِبَةِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں «الباذق» کا ذکر فرمایا ہے، جس کے معنی انگور کے شیرے کی ہلکی آنچ میں پکائی ہوئی شراب ہے، جبکہ تحت الباب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث نقل فرمائی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کا باب سے مناسبت واضح ہے جبکہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا تعلق باب سے مشکل ہے کیونکہ باب میں «الباذق» کے الفاظ ہیں اور حدیث میں حلوا اور شہد کے۔

غور کرنے سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو اجاگر ہوتا ہے، وہ اس جہت سے کہ انگور کا شیرہ جب اتنا پکایا جائے کہ وہ حلوا ہو جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ کو پسند فرمایا کرتے تھے لیکن اس میں اس بات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ اس میں مطلق نشہ نہ ہو۔

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ووجه إيراده فى هذا الباب أن الذى يحل من المطبوخ هو ما كان فى معنى الحلواء، والذي يجوز شربه من عصير العنب بغير طبخ هو ما كان فى معنى العسل، فانهم كانوا يمزجونه بالماء ويشربونه من ساعته. والله اعلم» [فتح الباري لابن حجر: 57/11]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پکانے سے وہی حلال ہو گا جو حلوہ کے معنی میں ہو اور وہ عصیر عنب سے جس کا شرب بغیر پکانے کے حلال ہے وہ شہد کے معنی میں ہے، کیونکہ وہ اس سے پانی ملا کر اسی وقت (یعنی تازہ تازہ) پی لیا کرتے تھے۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح ہے کہ عصیر المطبوخ جبکہ اس میں نشہ نہ ہو، وہ حلال ہے۔ [ارشاد الساري: 500/9]
یعنی جس طرح حلوہ شہد میں ڈال کر پکایا جاتا ہے پانی کے ساتھ ملا کر جو کہ بڑا لذید اور پاکیزہ ہوتا ہے، بعین اسی طرح اگر انگور کا شیرہ پکایا جائے اور وہ حلوہ بن جائے (شراب کی صفات، اس میں نہ پائی جائیں جیسا کہ نشہ وغیرہ) تو وہ حلوہ حلال ہو گا، یعنی سکر بننے سے قبل اس کو حلوہ بنا کر کھانا درست ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں مناسبت ہوگی۔ «والله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 140   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3323  
´حلوا (مٹھائی) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلوا (شیرینی) اور شہد پسند فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3323]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حلواء اور حلویٰ سے بعض علماء نے انسان کی بنائی میٹھی چیز (مٹھائی)
اور بعض نے ہر میٹھی چیز مراد لی ہے پھل ہو یا دوسری چیز۔

(2)
پسند ہونے کامطلب یہ ہے کہ جب پیش کی جاتی تو رغبت سےتناول فرماتے۔
یہ مطلب نہیں کہ اسے طلب فرماتے۔

(3)
شہد ایک قدرتی غذا ہے جو بے شمار فوائد کی حامل ہے۔
اور اس میں دوسری مٹھاس (چینی وغیرہ)
کےمضر اثرات نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3323   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 910  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا عروہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے میری بہن کے لخت جگر (بھانجے)! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کی باری کی تقسیم میں کسی کو کسی پر فوقیت و فضیلت نہیں دیتے تھے۔ ہمارے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا اور کم ہی ایسا کوئی دن ہو گا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آتے جاتے نہ ہوں اور ہر بیوی کے پاس جاتے ضرور مگر کسی کو چھوتے تک نہ تھے۔ پھر اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور رات اس کے پاس بسر فرماتے۔ احمد و ابوداؤد اور یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ اور مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر ادا فرما کر اپنی ساری بیویوں کے ہاں تشریف لے جاتے پھر ان سے قرب بھی حاصل کرتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 910»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب في القسم بين النساء، حديث:2135، وأحمد:6 /107، والحاكم:2 /186، وصححه، ووافقه الذهبي، وحديث عائشة: كان إذا صلي العصر....، أخرجه مسلم، الطلاق، حديث:1474، والبخاري، النكاح، حديث:5216.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز اپنی ازواج مطہرات کی قیام گاہوں میں حالات معلوم کرنے کی غرض سے چکر ضرور لگاتے اور باہمی محبت و پیار کا اظہار کرتے۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر بیوی کی قیام گاہ الگ ہونی چاہیے‘ اس سے پردہ داری رہتی ہے۔
3.کم عمر بچوں کو پیار سے بلانا بھی ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے کو یَاابْنَ أُخْتِي کہہ کر بلایا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 910   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3679  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
عَرْفَط:
ایک کانٹے دار درخت ہے،
جس کی گوند کو مغافیر کہتے ہیں یا یہ ایک بوٹی ہے،
جو کانٹےدار ہے اور زمین پر پھیل جاتی ہے،
اور اسے سفید پھل لگتا ہے۔
فوائد ومسائل:
عورتوں کے اندر چونکہ غیرت طبعی طور پرسوکن کے خلاف زیادہ ہوتی ہے۔
اس لیے وہ یہ برداشت نہیں کر سکتیں کہ خاوند کس سوکن کے ہاں ان سے زیادہ ٹھہرے۔
اسی طبعی تقاضا کے تحت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نےتدبیر سوچی اور توریہ کے ذریعہ اس پر عمل کیا اور اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو گوارا فرمایا:
اور کسی رد عمل کا اظہار نہ فرمایا،
اور شہد پینے کا واقعہ کس کے ہاں پیش آیا۔
صحیحین کی روایات کی روسے یہ دو بیویوں کے ہاں پیش آیا۔
حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا،
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ،
علامہ عینی اور امام کرمانی وغیرہم کے نزدیک پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں شہد پیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد پینا چھوڑدیا لیکن حرام نہیں ٹھہرایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں پیا۔
یہ سمجھ کر ضروری نہیں ہے۔
ہر شہد میں عرفط کے پھل یا گوند کی آمیزش ہو یا اس کی بو ہو کیونکہ اگر اس کی مقدار معمولی ہو تو اس کا اثر نمایاں ہو گا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں پیا اور دوبارہ پہلے والی صورت حال پیش آئی۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھ لیا مدینہ کے ہر شہد میں عرفط کے پھل یا گوند کی بساند موجود ہے۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حرام ٹھہرالیا۔
اپنی حد تک کہ میں اس کو استعمال نہیں کروں گا۔
وگرنہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو مطلقاً حرام قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس لیے اس کے بارے میں یہ کہنا کہ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا،
درست نہیں اور اس بنیاد پر مذکورہ تطبیق پر اعتراض نہیں ہو سکتا،
چونکہ حرمت کا باعث زینب والا واقعہ بنا ہے جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایکا کیا تھا۔
اس لیے قرآن مجید میں ان دونوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن قاضی عیاض امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا والے واقعہ کو ترجیح دی ہے اور اس کے لیے کچھ وجوہ ترجیح علماء نے بیان کی ہیں جن کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3679   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.