الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3924
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، زمین بٹائی پر دیتے تھے، اور ان سے قصارۃ اور فلاں زمین کا حصہ لیتے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہو وہ خود کاشت کرے یا اس کا بھائی اس کو کاشت کرے، وگرنہ اس کو پڑی رہنے دے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3924]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قصری سے مراد یہ ہے کہ گندم گاہنے کے بعد،
خوشوں،
بالیوں میں جو دانے رہ جاتے ہیں۔
جن کو قصارہ کہتے ہیں وہ مالک کے زمین کے ہوں گے اور من کذا سے مراد یہ ہے،
جداول یا نالیوں پر جو زمین ہے اس کی پیداوار بھی ہم لیں گے،
اور یہ طریقہ ناجائز ہے کیونکہ اس میں غرر ہے،
اور مزارع کا نقصان ہے جس کو اگلی حدیث میں ماذیانات سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3924
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3925
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، نالوں کے کنارے والی زمین کی پیداوار اور تہائی یا چوتھائی حصہ پر زمین لیتے تھے۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہے وہ خود کاشت کرے، اور اگر کاشت نہ کر سکے تو اپنے بھائی کو عارضی طور پر دے دے۔ اور اگر اپنے بھائی کو نہ دے سکے، تو اپنے پاس روکے رکھے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3925]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
زمین کا مالک اپنے لیے زمین کا وہ ٹکڑا رکھ لیتا جو کھال کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے زیادہ زرخیز ہوتا اور زیادہ پیداوار دیتا اور کاشت کار کو زمین کا وہ ٹکڑا دیتا جو پانی سے دور ہوتا اور کم پیداوار دیتا اور اس کے ساتھ بسا اوقات کاشت کار کے حصہ کی زمین کا بھی،
تہائی یا چوتھائی لیتا جب کھال پر زمین کم ہوتی،
اور ظاہر ہے اس میں غرر بھی ہے کہ کاشت کار کی زمین کا بھی،
تہائی یا چوتھائی لیتا جب کھال پر زمین کم ہوتی،
اور ظاہر ہے اس میں غرر بھی ہے کہ کاشت کار کی زمین تک پانی پہنچ ہی نہ سکے یا مالک والا حصہ غرقاب ہو جائے،
ماذیانات،
ماذیان کی جمع ہے۔
کھال کو کہتے ہیں جس میں پانی خوب بہتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3925