الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
The Book of Musaqah
5. باب مَنْ أَدْرَكَ مَا بَاعَهُ عِنْدَ الْمُشْتَرِي وَقَدْ أَفْلَسَ فَلَهُ الرُّجُوعُ فِيهِ:
5. باب: اگر خریدار مفلس ہو جائے اور بائع مشتری کے پاس اپنی چیز بجنسہ پائے تو واپس لے سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 3987
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا احمد بن عبد الله بن يونس ، حدثنا زهير بن حرب ، حدثنا يحيى بن سعيد ، اخبرني ابو بكر بن محمد بن عمرو بن حزم ، ان عمر بن عبد العزيز ، اخبره، ان ابا بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، اخبره، انه سمع ابا هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، او سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من ادرك ماله بعينه عند رجل قد افلس، او إنسان قد افلس، فهو احق به من غيره "،حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ أَدْرَكَ مَالَهُ بِعَيْنِهِ عِنْدَ رَجُلٍ قَدْ أَفْلَسَ، أَوْ إِنْسَانٍ قَدْ أَفْلَسَ، فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ "،
عبداللہ بن وہب نے ہمیں خبر دی، کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے عبداللہ بن کعب بن مالک نے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، مسجد میں، ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے قرض کا مطالبہ کیا جو ان کے ذمے تھا تو ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے اندر ان کی آوازیں سنیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف گئے یہاں تک کہ آپ نے اپنے حجرے کا پردہ ہٹایا اور کعب بن مالک کو آواز دی: "کعب!" انہوں نے عرض کی: حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ نے اپنے ہاتھ سے انہیں اشارہ کیا کہ اپنے قرض کا آدھا حصہ معاف کر دو۔ کعب نے کہا: اللہ کے رسول! کر دیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوسرے سے) فرمایا: "اٹھو اور اس کا قرض چکا دو
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: جس نے اپنا ہو بہو مال اس انسان کے پاس پایا جو مفلس ہو چکا ہے یا اسے دیوالیہ قرار دے دیا گیا ہے، تو وہ دوسروں سے اس کا زیادہ حقدار ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1559
   صحيح البخاري2402عبد الرحمن بن صخرمن أدرك ماله بعينه عند رجل قد أفلس فهو أحق به من غيره
   صحيح مسلم3992عبد الرحمن بن صخرإذا أفلس الرجل فوجد الرجل عنده سلعته بعينها فهو أحق بها
   صحيح مسلم3987عبد الرحمن بن صخرمن أدرك ماله بعينه عند رجل قد أفلس فهو أحق به من غيره
   صحيح مسلم3990عبد الرحمن بن صخرإذا أفلس الرجل فوجد الرجل متاعه بعينه فهو أحق به
   جامع الترمذي1262عبد الرحمن بن صخرأيما امرئ أفلس ووجد رجل سلعته عنده بعينها فهو أولى بها من غيره
   سنن أبي داود3519عبد الرحمن بن صخرأيما رجل أفلس فأدرك الرجل متاعه بعينه فهو أحق به من غيره
   سنن أبي داود3520عبد الرحمن بن صخرأيما رجل باع متاعا فأفلس الذي ابتاعه ولم يقبض الذي باعه من ثمنه شيئا فوجد متاعه بعينه فهو أحق به مات المشتري فصاحب المتاع أسوة الغرماء
   سنن أبي داود3523عبد الرحمن بن صخرمن أفلس مات فوجد رجل متاعه بعينه فهو أحق به
   سنن النسائى الصغرى4681عبد الرحمن بن صخرإذا وجد عنده المتاع بعينه وعرفه أنه لصاحبه الذي باعه
   سنن النسائى الصغرى4680عبد الرحمن بن صخرأيما امرئ أفلس ثم وجد رجل عنده سلعته بعينها فهو أولى به من غيره
   سنن ابن ماجه2358عبد الرحمن بن صخرمن وجد متاعه بعينه عند رجل قد أفلس فهو أحق به من غيره
   سنن ابن ماجه2359عبد الرحمن بن صخرأيما رجل باع سلعة فأدرك سلعته بعينها عند رجل وقد أفلس ولم يكن قبض من ثمنها شيئا فهي له قبض من ثمنها شيئا فهو أسوة للغرماء
   بلوغ المرام727عبد الرحمن بن صخر من أدرك ماله بعينه عند رجل قد أفلس فهو أحق به من غيره
   مسندالحميدي1065عبد الرحمن بن صخرأيما رجل وجد متاعه بعينه عند رجل قد أفلس فهو أحق به

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2359  
´ایک شخص کا دیوالیہ ہو گیا اور کسی نے اپنا مال اس کے پاس پا لیا تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کوئی سامان بیچا پھر اس نے اس کو بعینہ اس (مشتری) کے پاس پایا جو دیوالیہ ہو گیا ہے، اور بائع کو ابھی تک اس کی قیمت میں سے کچھ نہیں ملا تھا، تو وہ سامان بائع کو ملے گا، اور اگر وہ اس کی قیمت میں سے کچھ لے چکا ہے تو وہ دیگر قرض خواہوں کے مانند ہو گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2359]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جب کسی شخص پر قرض اتنا زیادہ ہو جائے کہ وہ ا سے ادا کرنے سے قاصر ہو تواسے دیوالیہ قرار دینا مشروع ہے۔

(2)
دیوالیہ کے گھر کا اسباب بیچ کر قرض خواہوں کا قرض واپس کیا جائےگا۔ 3۔
اگر دیوالیہ کے پاس قرض خواہ کی کوئی چیز موجود ہو تو اس کی دوصورتیں ہیں
(الف)
اگر دیوالیہ نے اس کی قیمت بالکل ادا نہیں کی توقرض خواہ اپنی چیز وصول کرے گا اور یوں سمجھا جائے گا کہ یہ چیز بیچی اور خریدی ہی نہیں گئی۔

(ب)
اگر مقروض نے اس چیز کی کل قیمت یا کچھ قیمت ادا کر دی ہے تواب یہ مقروض (دیوالیہ)
کی ملکیت ہے۔
اسباب قرض خواہوں میں تقسیم کرتے ہوئے اگر یہ چیز اس قرض خواہ کے حصے میں آجائے تو بھی ٹھیک ہے نہیں تو جس کے حصے میں چلی جائے وہ لے لے گا۔
یہ قرض خواہ دوسرے قرض خواہوں سے اس چیز کا زیادہ حق نہیں رکھتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2359   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 727  
´مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان`
سیدنا ابوبکر بن عبدالرحمٰن نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو شخص مفلس کے پاس اپنی چیز بعینہ اسی حالت میں پائے تو وہ اس کا دوسرے کی بہ نسبت زیادہ حقدار ہے۔ (بخاری و مسلم) ابوداؤد اور مالک نے ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے ان الفاظ کے ساتھ مرسل روایت بیان کی ہے کہ کوئی آدمی اگر کوئی چیز بیچے اور خریدنے والا مفلس ہو جائے اور بیچنے والے کو اس کی قیمت میں سے ابھی کچھ بھی نہیں ملا تو (اس صورت میں) اگر وہ بعینہ اپنا مال پا لیتا ہے تو وہ اس مال کا زیادہ حقدار ہے اور اگر خریدار مر جائے تو پھر صاحب مال دوسرے قرض خواہوں کے برابر ہے۔ بیہقی نے اسے موصول بیان کیا ہے اور ابوداؤد کی اتباع میں اسے ضعیف کہا ہے۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ نے اسے عمر بن خلدۃ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ہم اپنے ایک ساتھی کے لئے جو مفلس ہو گیا تھا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا ہی فیصلہ کروں گا (اور وہ یہ تھا کہ) جو کوئی مفلس ہو جائے یا مر جائے اور کوئی آدمی اس کے پاس اپنی چیز بعینہ پا لے تو وہ ہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ابوداؤد نے ضعیف کہا ہے اور اسی طرح ابوداؤد نے اس زیادتی کو جو موت کے ذکر میں ہے، ضعیف کہا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 727»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الاستقراض، باب إذا وجد ماله عند مفلس، حديث:2402، ومسلم، المساقاة، باب من أدرك ما باعه عند المشتري وقد أفلس، حديث:1559، ورواية أبي بكر بن عبدالرحمن أخرجه أبوداود، البيوع، حديث:3520، ومالك:2 /678، والبهقي:6 /46 وهو حديث صحيح، ورواية، عمر بن خلدة أخرجه أبوداود، البيوع، حديث:3523، وابن ماجه، الأحكام، حديث:2360، والحاكم:2 /51 وسنده حسن.»
تشریح:
اس حدیث میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے اس کی نوعیت یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی قسم کا مال خریدے اور اس کی رقم اس پر قرض ہو‘ اس کے بعد وہ مفلس و قلاش ہو جائے اور ادائیگیٔ قرض کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہ بچے‘ اس صورت میں اس مال کے فروخت کرنے والے کو حق پہنچتا ہے کہ اگر اس کی فروخت کردہ چیز بعینہ موجود ہے تو وہ اسے بلاتردد حاصل کر لے اور معاہدئہ بیع کو فسخ کر دے۔
جمہور کا یہی مذہب ہے۔
لیکن احناف کے نزدیک وہ تنہا اس مال کو نہیں لے سکتا بلکہ وہ بھی عام قرض خواہوں کی طرح کا ایک قرض خواہ ہے‘ جس تناسب سے دوسرے قرض خواہوں کو قرض کی واپسی ہوگی اسے بھی اسی تناسب سے قرض واپس ہوگا۔
لیکن یہ حدیث کے خلاف ہے۔
امام ابوداود رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی روایت کردہ ابوبکر بن عبدالرحمن کی مرسل حدیث‘ جسے انھوں نے موصول بیان کیا ہے‘ میں ایک راوی اسماعیل بن عیاش ہے جسے ضعیف قرار دیا گیا ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر اسماعیل شامیوں سے روایت کرتا ہے تو وہ درست ہے اور اس حدیث میں اس نے حارث زبیدی شامی سے روایت کیا ہے‘ تاہم امام ابوداود نے مرسل ہی کو صحیح ترین کہا ہے اور عمر بن خلدہ کی روایت میں أبومعتمر کو امام ابوداود‘ طحاوی اور ابن منذر نے مجہول کہا ہے اور امام ابن ابی حاتم نے اس سے صرف‘ ابن ابی ذئب ہی روایت کرنے والا ذکر کیا ہے‘ اسی لیے امام ابوداود نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(التلخیص) جبکہ ہمارے فاضل محقق نے ابوبکر بن عبدالرحمن کی روایت کو صحیح اور عمر بن خلدہ کی روایت کو سنداً حسن قرار دیا ہے اور انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
راوئ حدیث: «حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ مخزومی مدنی۔
مدینہ منورہ کے قاضی تھے۔
ان کے نام کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام محمد تھا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام مغیرہ تھا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام ابوبکر اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی کنیت ہی ان کا نام ہے۔
بڑے فقیہ‘ عبادت گزار اور ثقہ آدمی تھے۔
انھیں تیسرے طبقے میں شمار کیا گیا ہے۔
ولید بن عبدالملک کے دور خلافت میں وفات پائی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت ہے۔
شعبی اور زہری وغیرہ نے ان سے روایت کیا ہے۔
ان کی وفات ۷۳ یا ۷۴ یا ۷۵ ہجری میں ہوئی۔
«حضرت عمر بن خلدہ رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ ابوحفص ان کی کنیت تھی۔
مدینہ منورہ کے انصار میں سے تھے۔
قضا کے عہدے و منصب پر فائز رہے۔
نہایت پرہیزگار‘ پاک دامن و عفیف‘ بڑے بہادر‘ حریف کے مقابل شمشیر بُرّاں اور بڑے با رعب انسان تھے۔
انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور ان سے ربیعہ الرای نے۔
اور خلدہ کے خا پر فتحہ ہے۔
کہا گیا ہے کہ خلدہ ان کے دادا ہیں اور ان کے والد کا نام عبدالرحمن ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 727   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3519  
´آدمی مفلس (دیوالیہ) کے پاس اپنا سامان بعینہ پائے تو اس کا زیادہ حقدار وہی ہو گا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی مفلس ہو جائے، پھر کوئی آدمی اپنا مال اس کے پاس ہو بہو پائے تو وہ (دوسرے قرض خواہوں کے مقابل میں) اسے واپس لے لینے کا زیادہ مستحق ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3519]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
حدیث میں مذکور صورت میں اگر بائع (فروخت کنندہ) نے کوئی قیمت وصول نہ کی ہو اور مال بعینہ موجود ہو تو بیع فسخ سمجھی جائے گی اور مال واپس ہوگا۔
اگر اس مال میں کوئی تصرف کیا گیا ہو۔
تو دیگر قرض خواہ بھی اس میں سے اپنا حصہ لے سکتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3519   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3987  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
افلاس یہ ہے کہ انسان پیسے پیسے کا محتاج ہو گیا ہے،
کیونکہ اس کے پاس کوئی فلس (پیسہ)
نہیں رہا ہے،
اور قاضی نے اس کو دیوالیہ قرار دے دیا ہے،
کہ وہ اپنے مال میں تصرف نہیں کر سکتا،
لیکن اس کا سارامال بیچ کر بھی اس کا قرضہ اتارا نہیں جا سکتا،
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر کوئی انسان دوسرے سے کوئی چیز خریدتا ہے،
اور قیمت نقد ادا نہیں کرتا،
پھر قیمت کی ادائیگی سے پہلے ٹکےٹکے کا محتاج ہو جاتا ہے،
لیکن جو سامان اس نے خریدا تھا،
وہ بغیر کسی تغیروتبدل کے اصل حالت میں اس کے پاس موجود ہے،
تو وہ سامان فروخت کرنے والے کا ہوگا،
دوسرے قرض خواہوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا،
جمہور ائمہ،
مالک،
شافعی،
احمد اور اسحاق وغیرہ ہم کا یہی موقف ہے،
لیکن ائمہ احناف کا اس کے برعکس نظریہ ہے،
کہ اس میں تمام قرض خواہ حصہ دار ہوں گے،
اور اس حدیث کو انہوں نے،
غضب،
عاریہ،
اور امانت وغیرہ کی واپسی پر محمول کیا ہے،
حالانکہ اگلی روایت میں یہ تصریح موجود ہے،
(انه لصاحبه الذی باعه)
یہ سامان،
اس کے مالک کا ہے،
جس نے اسے فرخت کیا تھا،
اور علامہ انور شاہ نے اس حدیث سے جان چھڑانے کے لیے اس کو دیانت کا مسئلہ قرار دیا ہے کہ مشتری کو فیصلہ عدالت میں جانے سے پہلے پہلے،
یہ مال،
اس کے مالک،
بائع کے حوالہ کر دینا چاہیے،
کیونکہ اگر فیصلہ عدالت میں چلا گیا،
تو پھر بائع بھی دوسروں قرض خواہوں کی طرح ایک قرض خواہ ہو گا۔
(فیض الباری،
ج (3)
،
ص313)

لیکن علامہ تقی عثمانی صاحب احناف کے تمام عذر اور بہانے پیش کرنے کے بعد،
اپنا نظریہ،
یہ ظاہر کیا ہے کہ مذهب الجمهور،
اوفق بلفظ الحديث،
حدیث کے الفاظ جمہور کے موقف کے مطابق ہیں۔
(تکملہ،
ج (1)
،
ص 500)

اور علامہ عبدالحئی لکھنوی نے بھی التعلیق الممجد میں جمہور کی رائے کو پسند کیا ہے۔
(تکملہ،
ج (1)
،
ص501)

اور علامہ سعیدی نے بھی احناف کے دلائل نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
ہر چند امام ابو حنیفہ کا نظریہ،
قیاس اور درایت کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے،
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اور صریح احادیث مقدم ہیں۔
(شرح مسلم،
ج (4)
،
ص284)

معلوم نہیں،
احناف کو صحیح احادیث کو قیاس اور درایت کے مخالف ثابت کر کے کیا ملتا ہے،
کہ ایسے قیاس اور درایت کو غلط کیوں قرار نہیں دیتے،
اور اس کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے صحیح احادیث کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں،
اور مقلد ہونے کے باوجود امام صاحب کے غلط موقف کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں،
حالانکہ سیدھی سادی بات ہے کہ امام صاحب کو اس صحیح حدیث کا علم نہ ہو سکا،
اس لیے انہوں نے قیاس ورائے کا سہارا لیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3987   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.