ابومعاویہ نے اعمش سے، انہوں نے عبداللہ بن مرہ سے اور انہوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ایک یہودی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزارا گیا جس کا منہ کالا کیا ہوا تھا اسے کوڑے لگائے گئے تھے، آپ نے انہیں (ان کے عالموں کو) بلایا اور پوچھا: "کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد اسی طرح پاتے ہو؟" انہوں نے کہا: جی ہاں۔ (بعد ازاں آپ کے حکم سے تورات منگوائی گئی۔ انہوں نے آیت رجم چھپا لی، وہ ظاہر ہو گئی۔ اس کے بعد) آپ نے ان کے علماء میں سے ایک آدمی کو بلایا اور فرمایا: "میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی! کیا تم لوگ اپنی کتاب میں زانی کی حد اسی طرح پاتے ہو؟" اس نے جواب دیا: نہیں، اور اگر آپ مجھے یہ قسم نہ دیتے تو میں آپ کو نہ بتاتا۔ (ہم کتاب مین) رجم (کی سزا لکھی ہوئی) پاتے ہیں۔ لیکن ہمارے اشراف میں زنا بہت بڑھ گیا۔ (اس وجہ سے) ہم جب کسی معزز کو پکڑتے تھے تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کسی کمزور کو پکڑتے تو اس پر حد نافذ کر دیتے تھے۔ ہم نے (آپس میں) کہا: آؤ! کسی ایسی چیز (سزا) پر جمع ہو جائیں جسے ہم معزز اور معمولی آدمی (دونوں) پر لاگو کر سکیں، تو ہم نے رجم کے بجائے منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے (کی سزا) بنا لی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جبکہ انہوں نے اسے مردہ کر دیا تھا۔" پھر آپ نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اسے رجم کر دیا گیا۔ اس پر اللہ عزوجل نے (یہ آیت) نازل فرمائی: "اے رسول! آپ ان لوگوں کے پیچھے نہ کڑھیے جو تیزی سے کفر میں داخل ہوتے ہیں۔۔" اس فرمان تک: "اگر تمہیں یہی حکم دیا جائے تو قبول کر لینا۔" (النائدہ: 41: 5) (ان کو مشورہ دینے والا) کہتا تھا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، اگر وہ تمہیں (یہی) منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے کا حکم دیں تو قبول کر لینا اور اگر رجم کا فتویٰ دیں تو احتراز کرنا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی: "اور جو لوگ اس (حکم) کے مطابق فیصلہ نہ کریں جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔" (المائدہ: 44: 5) "اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کریں جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔" (المائدۃ؛ 45: 5) "اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کریں جو اللہ نے اتارا ہے تو وہی لوگ فاسق ہیں۔" (المائدہ: 47: 5) یہ ساری آیات کفار کے بارے میں ہیں
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک یہودی گزارا گیا، جس کو کوڑے لگا کر منہ کالا کیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر پوچھا: ”کیا تمہاری کتاب میں زانی کی یہی حد موجود ہے؟“ انہوں نے کہا، ہاں، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ایک صاحب علم آدمی کو بلا کر پوچھا گیا: ”میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں، جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات اتاری، کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد یہی پاتے ہو؟“ اس نے کہا، نہیں اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہ قسم نہ دیتے تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بتاتا، تورات میں رجم کی سزا ہے، لیکن صورت حال یہ پیدا ہوئی، ہمارے معزز اور صاحب مقام لوگ بکثرت اس کے مرتکب ہونے لگے، اس لیے جب ہم کسی عزت دار کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور، کم مرتبہ کو پکڑتے، اس پر حد قائم کر دیتے، پھر ہم نے آپس میں کہا آؤ! ہم کسی ایسی سزا پر متفق ہو جائیں، جو مرتبے والے اور کم مرتبہ دونوں کو دی جا سکے تو ہم نے رجم کی جگہ منہ کالا کرنا اور کوڑے لگانا مقرر کر دیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! میں پہلا فرد ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا ہے، جبکہ یہ اسے مار چکے ہیں۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اے رسول! جو لوگ کفر کی طرف جلدی کرتے ہیں، وہ تمہیں غمزدہ نہ کریں“