الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
13. باب اسْتِحْقَاقِ الْقَاتِلِ سَلَبَ الْقَتِيلِ:
13. باب: قاتلوں کو مقتول کا سامان دلانا۔
حدیث نمبر: 4569
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي التميمي ، اخبرنا يوسف بن الماجشون ، عن صالح بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف ، عن ابيه ، عن عبد الرحمن بن عوف ، انه قال: " بينا انا واقف في الصف يوم بدر نظرت عن يميني وشمالي، فإذا انا بين غلامين من الانصار حديثة اسنانهما تمنيت لو كنت بين اضلع منهما، فغمزني احدهما، فقال: يا عم هل تعرف ابا جهل، قال: قلت: نعم، وما حاجتك إليه يا ابن اخي؟، قال: اخبرت انه يسب رسول الله صلى الله عليه وسلم، والذي نفسي بيده لئن رايته لا يفارق سوادي سواده حتى يموت الاعجل منا، قال: فتعجبت لذلك، فغمزني الآخر، فقال: مثلها قال: فلم انشب ان نظرت إلى ابي جهل يزول في الناس، فقلت: الا تريان هذا صاحبكما الذي تسالان عنه؟، قال: فابتدراه فضرباه بسيفيهما حتى قتلاه، ثم انصرفا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبراه، فقال: ايكما قتله، فقال كل واحد منهما: انا قتلت، فقال: هل مسحتما سيفيكما؟، قالا: لا، فنظر في السيفين، فقال: كلاكما قتله "، وقضى بسلبه لمعاذ بن عمرو بن الجموح، والرجلان معاذ بن عمرو بن الجموح، ومعاذ بن عفراء.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " بَيْنَا أَنَا وَاقِفٌ فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ نَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي وَشِمَالِي، فَإِذَا أَنَا بَيْنَ غُلَامَيْنِ مِنْ الْأَنْصَارِ حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا تَمَنَّيْتُ لَوْ كُنْتُ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا، فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا، فَقَالَ: يَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَمَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي؟، قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيْتُهُ لَا يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا، قَالَ: فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ، فَغَمَزَنِي الْآخَرُ، فَقَالَ: مِثْلَهَا قَالَ: فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَزُولُ فِي النَّاسِ، فَقُلْتُ: أَلَا تَرَيَانِ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي تَسْأَلَانِ عَنْهُ؟، قَالَ: فَابْتَدَرَاهُ فَضَرَبَاهُ بِسَيْفَيْهِمَا حَتَّى قَتَلَاهُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَاهُ، فَقَالَ: أَيُّكُمَا قَتَلَهُ، فَقَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُ، فَقَالَ: هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا؟، قَالَا: لَا، فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ، فَقَالَ: كِلَاكُمَا قَتَلَهُ "، وَقَضَى بِسَلَبِهِ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَالرَّجُلَانِ مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَمُعَاذُ بْنُ عَفْرَاءَ.
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: بدر کے دن جب میں صف میں کھڑا تھا، میں نے اپنی دائیں اور بائیں طرف نظر دوڑائی تو میں انصار کے دو لڑکوں کے درمیان میں کھڑا تھا، ان کی عمریں کم تھیں، میں نے آرزو کی، کاش! میں ان دونوں کی نسبت زیادہ طاقتور آدمیوں کے درمیان ہوتا، (اتنے میں) ان میں سے ایک نے مجھے ہاتھ لگا کر متوجہ کیا اور کہا: چچا! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ کہا: میں نے کہا: ہاں، بھتیجے! تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا: مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا وجوداس وقت تک اس کے وجود سے الگ نہیں ہو گا یہاں تک کہ ہم میں سے جلد تر مرنے والے کو موت آ جائے۔ کہا: میں نے اس پر تعجب کیا تو دوسرے نے مجھے متوجہ کیا اور وہی بات کہی، کہا: پھر زیادہ دیر نہ گزری کہ میری نظر ابوجہل پر پڑی، وہ لوگوں میں گھوم رہا تھا۔ تو میں نے (ان دونوں سے) کہا: تم دیکھ نہیں رہے؟ یہ ہے تمہارا (مطلوبہ) بندہ جس کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے۔ کہا: وہ دونوں یکدم اس کی طرف لپکے اور اس پر اپنی تلواریں برسا دیں حتی کہ اسے قتل کر دیا، پھر پلٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ نے پوچھا: "تم دونوں میں سے اسے کس نے قتل کیا ہے؟" ان دونوں میں سے ہر ایک نے جواب دیا: میں نے اسے قتل کیا ہے۔ آپ نے پوچھا: "کیا تم دونوں نے اپنی تلواریں صاف کر لی ہیں؟" انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے دونوں تلواریں دیکھیں اور فرمایا: "تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔" اور اس کے سازوسامان کا فیصلہ آپ نے عاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کے حق میں دیا۔ اور وہ دونوں جوان معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہم تھے
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں غزوہ بدر کے موقع پر صف میں کھڑا ہوا تھا، اس اثناء میں میں نے اپنے دائیں اور بائیں دیکھا تو میں دو نو عمر انصاری لڑکوں کے درمیان تھا، میں نے آرزو کی، اے کاش، میں ان سے زور آور، طاقتور آدمیوں کے درمیان ہوتا تو ان میں سے ایک نے مجھے دبایا، (کچوکا لگایا) اور پوچھا، اے چچا جان! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا، ہاں اور تجھے اس سے کیا کام ہے؟ اے میرے بھتیجے، اس نے جواب دیا، مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتا ہے اور اس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر میں نے اسے دیکھ لیا، تو میں اس سے اس وقت تک جدا نہیں ہوں گا، جب تک ہم میں سے وہ مر نہ جائے، جس کی موت پہلے آنی ہے تو مجھے اس کی اس بات سے حیرت ہوئی، اتنے میں مجھے دوسرے نے دبایا اور پہلے والی بات کہی، تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ میں نے ابوجہل کو لوگوں میں گھومتے پھرتے دیکھا تو میں نے کہا، کیا دیکھ رہے ہو؟ یہی وہ شخص ہے جس کے بارے میں تم دونوں پوچھ رہے تھے تو وہ دونوں اس پر جھپٹے اور اپنی اپنی تلوار سے اسے نشانہ بنایا حتی کہ اسے قتل کر دیا، (قریب الموت کر دیا) پھر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پلٹے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟ تو ان میں سے ہر ایک نے کہا، میں نے قتل کیا ہے تو آپ نے پوچھا: کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کر لی ہیں؟ ان دونوں نے کہا، جی نہیں، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تلواروں کو دیکھا اور فرمایا: دونوں نے قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سلب کا فیصلہ معاذ بن عمرو بن جموح کے حق میں دیا، (اور وہ دونوں معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء تھے)
ترقیم فوادعبدالباقی: 1752
   صحيح البخاري3141عبد الرحمن بن عوفبينا أنا واقف في الصف يوم بدر فنظرت عن يميني وعن شمالي فإذا أنا بغلامين من الأنصار حديثة أسنانهما تمنيت أن أكون بين أضلع منهما فغمزني أحدهما فقال يا عم هل تعرف أبا جهل قلت نعم ما حاجتك إليه يا ابن أخي قال أخبرت أنه يسب رسول الله والذي ن
   صحيح مسلم4569عبد الرحمن بن عوفأيكما قتله فقال كل واحد منهما أنا قتلت فقال هل مسحتما سيفيكما قالا لا فنظر في السيفين فقال كلاكما قتله
   بلوغ المرام1101عبد الرحمن بن عوف أيكما قتله ؟ هل مسحتما سيفيكما ؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1101  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ابوجہل کے قتل کے قصہ میں مروی ہے کہ دونوں اپنی اپنی تلوار لے کر ابوجہل کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھے اور انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوجہل کے قتل کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم دونوں میں سے کس نے اسے قتل کیا؟ نیز دریافت فرمایا کہ کیا تم نے تلواریں صاف کر لی ہیں؟ دونوں بولے نہیں۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی تلواروں کو ملاحظہ کیا اور فرمایا تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کا ساز و سامان معاذ بن عمرو بن جموح کو دینے کا فیصلہ فرمایا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1101»
تخریج:
«أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب من لم يخمس الأسلاب، حديث:3141، ومسلم، الجهاد والسير، باب استحقاق القاتل سلب القتيل، حديث:1752.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت معاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ یہ انصار کے قبیلۂ خزرج کے فرد تھے۔
بیعت عقبہ اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔
انھوں نے ابوجہل کا پاؤں کاٹ کر اسے پچھاڑ دیا تھا۔
عکرمہ بن ابی جہل نے ان کو زخم لگایا کہ ان کا ہاتھ کٹ کر لٹک گیا تو انھوں نے پاؤں تلے دبا کر کھینچ کر اسے جدا کر دیا اور پھینک دیا اور باقی سارا وقت اکیلے ہاتھ سے لڑتے اور داد شجاعت دیتے رہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے موقف سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صاحب‘ ابن عفراء کے علاوہ اور کوئی تھے کیونکہ ابن عفراء کا نسب اس طرح ہے۔
معاذ بن حارث بن رفاعہ نجاری۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1101   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4569  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ابو جہل کو ضرب کاری لگانے والے،
حضرت معاذ بن عمرو بن جموح تھے اور دوسری چوٹ لگانے والے معاذ بن عفراء تھے اور تیسری چوٹ معوذ بن عفراء نے لگائی اور ابھی اس میں زندگی کی رمق باقی تھی کہ اس کی گردن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تن سے جدا کر دی اور اسے سلب سمیت لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر کر دیا اور جب تمام واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو آپﷺ نے تلواریں دیکھ کر سلب کا فیصلہ معاذ بن عمرو بن جموح کے حق میں کیا،
کیونکہ ضرب کاری،
جس کی وجہ سے،
وہ زندہ رہنے کے قابل نہیں رہا تھا،
اس نے لگائی تھی،
اگرچہ بعد میں اس کو ختم کرنے میں دوسروں نے بھی حصہ لیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4569   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.