حبیب بن ابی ثابت نے ابووائل (شقیق) سے روایت کی، انہوں نے کہا: سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ جنگ صفین کے روز کھڑے ہوئے اور (لوگوں کو مخاطب کر کے) کہا: لوگو! (امیر المومنین پر الزام لگانے کے بجائے) خود کو الزام دو (صلح کو مسترد کر کے اللہ اور اس کے بتائے ہوئے راستے سے تم ہٹ رہے ہو) ہم حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور اگر ہم جنگ (ہی کو ناگزیر) دیکھتے تو جنگ کر گزرتے۔ یہ اس صلح کا واقعہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی۔ (اب تو مسلمانوں کے دو گروہوں کا معاملہ ہے۔) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟ آپ نے فرمایا: "کیوں نہیں!" عرض کی: کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول آگ میں نہ جائیں گے؟ فرمایا: "کیوں نہیں!" عرض کی: تو ہم اپنے دین میں نیچے لگ کر (صلح) کیوں کریں (نیچے لگ کر کیوں صلح کریں؟) اور اس طرح کیوں لوٹ جائیں کہ اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خطاب کے بیٹے! میں اللہ کا رسول ہوں، (اس کے حکم سے صلح کر رہا ہوں) اللہ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔" کہا: عمر رضی اللہ عنہ غصے کے عالم میں چل پڑے اور صبر نہ کر سکے۔ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟ کہا: کیوں نہیں! کہا: کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول آگ میں نہیں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو ہم اپنے دین میں نیچے لگ کر (جیسی صلح وہ چاہتے ہیں انہیں) کیوں دیں؟ اور اس طرح کیوں لوٹ جائیں کہ اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا؟ تو انہوں نے کہا: ابن خطاب! وہ اللہ کے رسول ہیں، اللہ انہیں ہرگز کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح (کی خوشخبری) کے ساتھ قرآن اترا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور انہیں (جو نازل ہوا تھا) وہ پڑھوایا۔ انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں۔" تو (اس پر) عمر رضی اللہ رنہ کا دل خوش ہو گیا اور وہ لوٹ آئے
ابو وائل سے روایت ہے کہ صفین کے دن حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے، اے لوگو! اپنی سوچ کو مہتم قرار دو، اپنے آپ کو قصوروار خیال کرو، ہم حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اگر ہم جنگ ضروری سمجھتے تو ضرور لڑتے اور یہ اس صلح کی بات ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکوں کے درمیان ہوئی، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہو کر عرض کرنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں،“ انہوں نے کہا تو پھر اپنے دین میں ہم دباؤ کیوں قبول کریں اور اس حال میں لوٹ جائیں کہ ابھی اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے خطاب کے بیٹے! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔“ تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ چل دئیے اور غصہ پر قابو نہ پا سکے (غصہ کی وجہ سے رک نہ سکے) اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور کہا، اے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کیوں نہیں، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں ہوں گے؟ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کیوں نہیں، عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، پھر ہم اپنے دین میں خست اور کوتاہی کیوں قبول کریں؟ اور اس حال میں کیوں واپس لوٹیں کہ ابھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا؟ تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے خطاب کے بیٹے! آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا، حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح کی بشارت کے سلسلہ میں قرآن اترا تو آپ نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف پیغام پہنچا اور انہیں قرآن پڑھایا تو انہوں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ اور وہ خوش خوش مطمئن ہو کر لوٹ آئے۔