الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
امور حکومت کا بیان
The Book on Government
10. باب الْوَفَاءِ بِبَيْعَةِ الْخُلَفَاءِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ:
10. باب: جس خلیفہ سے پہلے بیعت ہو اسی کو قائم رکھنا چاہیئے۔
حدیث نمبر: 4776
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا زهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم ، قال إسحاق: اخبرنا، وقال زهير: حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن زيد بن وهب ، عن عبد الرحمن بن عبد رب الكعبة ، قال: دخلت المسجد، فإذا عبد الله بن عمرو بن العاص جالس في ظل الكعبة، والناس مجتمعون عليه، فاتيتهم فجلست إليه، فقال: " كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فنزلنا منزلا فمنا من يصلح خباءه، ومنا من ينتضل، ومنا من هو في جشره إذ نادى منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة جامعة، فاجتمعنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إنه لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه ان يدل امته على خير ما يعلمه لهم، وينذرهم شر ما يعلمه لهم، وإن امتكم هذه جعل عافيتها في اولها، وسيصيب آخرها بلاء وامور تنكرونها، وتجيء فتنة فيرقق بعضها بعضا، وتجيء الفتنة فيقول المؤمن هذه مهلكتي ثم تنكشف، وتجيء الفتنة فيقول المؤمن هذه هذه فمن احب ان يزحزح عن النار، ويدخل الجنة، فلتاته منيته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر، وليات إلى الناس الذي يحب ان يؤتى إليه ومن بايع إماما فاعطاه صفقة يده وثمرة قلبه، فليطعه إن استطاع، فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر فدنوت منه، فقلت له: انشدك الله آنت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فاهوى إلى اذنيه وقلبه بيديه، وقال: سمعته اذناي ووعاه قلبي، فقلت له: هذا ابن عمك معاوية يامرنا ان ناكل اموالنا بيننا بالباطل ونقتل انفسنا، والله يقول: يايها الذين آمنوا لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل إلا ان تكون تجارة عن تراض منكم ولا تقتلوا انفسكم إن الله كان بكم رحيما سورة النساء آية 29، قال: فسكت ساعة، ثم قال: اطعه في طاعة الله واعصه في معصية الله "،حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ، فَأَتَيْتُهُمْ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: " كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يُصْلِحُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ إِذْ نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ جَامِعَةً، فَاجْتَمَعْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَاءٌ وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، وَتَجِيءُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ مُهْلِكَتِي ثُمَّ تَنْكَشِفُ، وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ هَذِهِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ إِنِ اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ فَدَنَوْتُ مِنْهُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَأَهْوَى إِلَى أُذُنَيْهِ وَقَلْبِهِ بِيَدَيْهِ، وَقَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي، فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْكُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا، وَاللَّهُ يَقُولُ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا سورة النساء آية 29، قَالَ: فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ "،
حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اب میرے بعد (کچھ لوگوں سے) ترجیحی سلوک ہو گا اور ایسے کام ہوں گے جنہیں تم برا سمجھو گے۔" صحابہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم میں سے جو شخص ان حالات کا سامنا کرے اس کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: "تم پر (حکام کا) جو حق ہے تم اس کو ادا کرنا اور جو تمہارا حق ہے وہ تم اللہ سے مانگنا
عبدالرحمٰن بن عبد رب الکعبہ بیان کرتے ہیں، میں مسجد میں پہنچا تو وہاں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ ان کے گرد جمع تھے، میں بھی لوگوں میں آ کر ان کے قریب بیٹھ گیا، تو انہوں (عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ) نے بتایا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، تو ہم نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا، تو ہم میں سے کچھ اپنا خیمہ درست کرنے لگے، اور ہم سے کچھ تیر اندازی میں مشغول ہو گئے اور بعض اپنے چرنے والے مویشیوں کے ساتھ ٹھہر گئے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آواز دی، نماز تیار ہے، آ جاؤ، تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واقعہ یہ ہے، مجھ سے پہلے ہر نبی پر لازم تھا کہ وہ اپنی امت کی رہنمائی ہر اس خیر کی طرف کرے، جو ان کے حق میں جانتا ہو یعنی اپنے علم کے مطابق ہر خیر سے انہیں آگاہ کرے اور ان کو ہر اس شر سے ڈرائے، جو ان کے بارے میں جانتا ہو اور تمہاری اس امت کے پہلے لوگوں میں سلامتی ہے اور اس کے بعد والے لوگوں کو مصائب میں مبتلا ہونا پڑے گا اور ایسی باتیں ہوں گی جن کو تم برا سمجھو گے اور ایسی آزمائشیں آئیں گی جو ایک دوسرے کو ہلکا بنا دیں گی، ایک فتنہ آئے گا اور مومن کہے گا، یہ تو ہلاک کر کے ہی چھوڑے گا، تو جو اس شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اسے آگ سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو اسے اس کی موت اسی حالت میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرے جو سلوک ان سے اپنے بارے میں چاہتا ہے اور جس نے کسی امام کی بیعت کر لی اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارا اور اپنے دل سے اس سے محبت کی تو جہاں تک اس سے ہو سکے، وہ اس کی اطاعت کرے اور اگر وہ دوسرا شخص اس کے مقابلہ میں آ کھڑا ہو تو دوسرے کی گردن اڑا دو۔ تو میں ان کے قریب ہوا اور ان سے پوچھا، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے کانوں اور دل کی طرف اشارہ کر کے کہا، میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اس کو یاد رکھا، تو میں نے ان سے کہا، یہ تیرا چچا زاد معاویہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طریقہ سے کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقوں سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ تمہاری رضا مندی سے باہمی تجارت (لین دین) ہو اور اپنے آپ کو (ایک دوسرے کو) قتل نہ کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر بہت مہربان ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1844
   سنن النسائى الصغرى4196عبد الله بن عمرولم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على ما يعلمه خيرا لهم وينذرهم ما يعلمه شرا لهم أمتكم هذه جعلت عافيتها في أولها آخرها سيصيبهم بلاء وأمور ينكرونها تجيء فتن فيدقق بعضها لبعض فتجيء الفتنة فيقول المؤمن هذه مهلكتي
   صحيح مسلم4776عبد الله بن عمرولم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على خير ما يعلمه لهم وينذرهم شر ما يعلمه لهم أمتكم هذه جعل عافيتها في أولها سيصيب آخرها بلاء وأمور تنكرونها وتجيء فتنة فيرقق بعضها بعضا وتجيء الفتنة فيقول المؤمن هذه مهلكتي ثم تنكشف
   سنن ابن ماجه3956عبد الله بن عمرولم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه أن يدل أمته على ما يعلمه خيرا لهم وينذرهم ما يعلمه شرا لهم أمتكم هذه جعلت عافيتها في أولها آخرهم يصيبهم بلاء وأمور ينكرونها ثم تجيء فتن يرقق بعضها بعضا فيقول المؤمن هذه مهلكتي ثم تنكشف ثم تجيء فتنة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3956  
´(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن عبدرب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچا، وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے، اور لوگ ان کے پاس جمع تھے، تو میں نے ان کو کہتے سنا: اس دوران کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، آپ نے ایک جگہ قیام کیا، تو ہم میں سے کوئی خیمہ لگا رہا تھا، کوئی تیر چلا رہا تھا، اور کوئی اپنے جانور چرانے لے گیا، اتنے میں ایک منادی نے آواز لگائی کہ لوگو! نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، تو ہم نماز کے لیے جمع ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ہمیں خطبہ دیا، اور فرمایا: مجھ سے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3956]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نبیﷺ کی جدو جہد کی بنیاد خلوص اور انسانوں کی خیر خواہی پر ہوتی ہے۔
علماء کو بھی اسی بنیاد پر محنت کرنی چاہیے۔

(2)
صحابہ وتابعین مخلص مومن تھے ان سے اختلاف کرنے والے غلطی پر تھے۔

(3)
مومن فتنوں کو پہچانتا ہے اس لیے انھیں قبول نہیں کرتا اگرچہ بے انتہا مشکلات آجائیں۔

(4)
فتنوں کے دور میں ایمان کی حفاظت کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے۔

(5)
معاملات میں صحیح اور غلط کا معیار یہ ہے کہ دوسروں سے ایسا سلوک کرو جیسا تم اپنے آپ سے کیا جانا پسند کرتے ہو مثلاً:
جس طرح ایک شخص یہ پسند کرتا ہے کہ جب اسے مشورے کی ضرورت پڑے تو صحیح مشورہ دیا جائے اسی طرح اسے چاہیے کہ دوسروں کو صحیح مشورہ دے۔
جس طرح وہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی دھوکہ نہ دے اسی طرح اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ نہ دے۔

(6)
اسلامی سلطنت میں ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے شخص کا خلا فت کے استحقاق کا دعوی ٰ لے کر کھڑا ہونا مسلمانوں میں انتشار وافتراق کا باعث ہے۔

(7)
پہلے خلیفہ کے بعد مسلمانوں کے اہل حل وعقد دوسرا خلیفہ منتخب کریں گے۔
کسی کو خود بخود خلافت کا دعویٰ لے کر کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔

(8)
موجود خلیفہ غلطی کرے تو اسے متنبہ کرنا ضروری ہے، جیسے امام مالک اور امام احمد بے حنبل رحمۃ اللہ علیہما وغیرہ نے حکام کی غلطیوں پر سخت تنقید کی لیکن یہ مطالبہ کبھی نہیں کیا کہ حکومت ہمیں دے دو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3956   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4776  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يُصْلِحُ خِبَاءَهُ:
اپنے خیمہ کو درست کرنے لگا۔
(2)
يَنْتَضِلُ:
تیراندازی کرنے لگا۔
(3)
جَشَرِ:
ان مویشیوں کو کہتے ہیں،
جو چراگاہ میں چرتے ہیں اور وہیں رات گزارتے ہیں۔
(4)
الصَّلَاةَ جَامِعَةً:
سلف نے اگر کسی اہم کام کے لیے لوگوں کو جمع کرنا ہوتا،
تو وہ ان کلمات کے ذریعہ لوگوں کو بلاتے،
لیکن اسے مراد صبح کی اذان اور اقامت کے درمیان تثویب نہیں،
دوبارہ حي علي الصلوة،
حي الصلوة،
کہنے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے،
کیونکہ نماز کے لیے تثویب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے،
جبکہ دینی امور میں صلاح ومشورہ کرنے کے لیے الصَّلَاةَ جَامِعَةً کے ذریعہ لوگوں کو اکھٹا کرنا ثابت ہے،
کیونکہ جن لوگوں نے نماز کے لیے آنا ہے،
ان کے لیے آذان کافی ہے،
جنہوں نے نہیں آنا،
تشہد کے کلمات یا آج کل الصلوة والسلام عليك يا رسول الله کے کلمات،
ان کو مسجد میں نہیں لاسکتے،
اس لیے یہ کلمات لاحاصل ہیں۔
(5)
جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا:
آپ کی پیش گوئی کے مطابق امت کا ابتدائی طبقہ دین پر قائم رہا اور اس کو کوئی چیز دین پر عمل پیرا ہونے سے نہ روک سکی،
یہی معنی ہے کہ امت کی عافیت وسلامتی اس کے پہلے طبقہ میں ہے،
اس لیے پہلے تین قرون کو خیر القرون قرار دیا گیا،
کیونکہ مجموعی طور پر وہ دین پر قائم رہے۔
(6)
يُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا:
بعد والے فتنہ کے مقابلہ میں پہلا فتنہ ہلکا اور کم نقصان دہ محسوس ہوتا تھا۔
(7)
وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ:
لوگوں سے وہ یہ رویہ اور طرز عمل اختیار کرے،
جو ان سے اپنے لیے پسند کرتا ہے،
یعنی جس طرح دوسروں سے ہمدردی اور خیرخواہی اور اچھے طرز عمل کا خواہاں ہے،
اس طرح ان کے ساتھ،
ہمدردی وخیر خواہی کا رویہ اختیار کرے،
اگر آج ہمارا اس جامع نصیحت پر عمل ہوجائے،
تو ہمارے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں،
اور ہم بے شمار مشکلات ومصائب سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔
(8)
فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ:
بیعت کے لیے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا ہے اور دل کی گہرائی سے تسلیم کیا ہے۔
(9)
فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ:
دوسرے خلیفہ کی گردن ماردو،
اسے قتل کر دو۔
فوائد ومسائل:
هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ:
کہ تمہارے بقول پہلے خلیفہ کے بعد خلافت کا مدعی قابل قتل ہے،
تو پھر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بن چکے ہیں،
تو پھر معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کیوں لڑ رہے ہیں،
اس طرح اپنے لشکر اور حواریوں پر جو مال خرچ کر رہے ہیں،
وہ ناجائز طریقہ سے مال کھانا ہے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے،
یہ اس سائل کا دعویٰ ہے،
حالانکہ حضرت معاویہ نے خلافت کا دعویٰ نہیں کیا،
بلکہ قاتلین عثمان کو اپنے حوالہ کرنے کی استدعا کی تھی اور قاتلین عثمان کی سازشوں کے نتیجہ میں اپنا دفاع کرنے کے لیے جنگ لڑنی پڑی تھی،
اس لیے وہ اپنے اجتہاد اور اپنی رائے کی روشنی میں اس لڑائی کو صحیح سمجھتے تھے اور اس کے لیے مال خرچ کرنا،
وہ ناجائز طریقہ سے مال کھانا قرار نہیں دیا جا سکتا،
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک خط لکھوا کر،
ملک کے اکناف واطراف میں نشر کردیا تھا،
جس میں لکھا،
ہمارا اور اہل شام کا مقابلہ ہوا اور یہ کھلی حقیقت ہے،
ہمارا رب ایک ہے،
ہمارا نبی ایک ہے،
اسلام کے بارے میں ہماری وحدت یکساں ہے،
اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لانے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے میں،
ہم ان سے بڑھ کر نہیں ہیں اور نہ وہ ہم پر اس میں فائق ہیں،
ہمارا معاملہ یکساں ہے،
مگر خون عثمان میں ہمارا اور ان کا اختلاف ہو گیا ہے اور ہم اس سے برئ الذمہ ہیں۔
(نہج البلاغۃج 2،
ص114۔
مع حواشی امام عبدہ،
بحوالہ رحماء بینھم ج4 ص183۔
یہی بات درۃ نجفیہ شرح نہج البلاغۃ ص 344 میں موجود ہے)

۔
اس لیے جب شاہ روم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملانے کی خواہش کی،
کیونکہ ان کا اقتدار رومی سلطنت کے لیے خطرہ بن چکا تھا اور شامی فوجیں اس کی افواج کو مغلوب کر کے ذلیل کرچکی تھیں،
تو وہ ایک بڑی فوج کے ساتھ ایک قریبی علاقہ میں آیا اور حضرت معاویہ کو تعاون کی پیش کش کی،
تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے خط لکھا:
اللہ کی قسم! اگر تو نہ رکا اور اے لعین،
تو اگر اپنے ملک واپس نہ گیا،
تو میں اور میرے چچا زاد دونوں آپس میں مل جائیں گے اور تجھے تیرے تمام قلمرو سے خارج کر دیں گے۔
(البدایۃ والنھایۃ ج 8 ص 119)
۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے سائل کو حضرت معاویہ کی اطاعت کا حکم اس لیے دیا،
کیونکہ 40ھ میں حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما میں صلح ہو گئی تھی اور دونوں نے فوجیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں واپس بلالی تھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شام کا علاقہ حضرت معاویہ کے حوالہ کردیا تھا،
(البدایۃ والنھایۃ،
ج7،
ص322۔
تاریخ طبری،
ج،
6 ص 81،
سن40ھ)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4776   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.