الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
امور حکومت کا بیان
The Book on Government
22. باب الْبَيْعَةِ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِيمَا اسْتَطَاعَ:
22. باب: بیعت کرنا سننے اور ماننے پر جہاں تک ہو سکے۔
Chapter: Oath of allegiance pledging to hear and obey as much as possible
حدیث نمبر: 4836
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن ايوب ، وقتيبة ، وابن حجر ، واللفظ لابن ايوب، قالوا: حدثنا إسماعيل وهو ابن جعفر ، اخبرني عبد الله بن دينار ، انه سمع عبد الله بن عمر ، يقول: " كنا نبايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، يقول: لنا فيما استطعت ".حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَيُّوبَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: " كُنَّا نُبَايِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، يَقُولُ: لَنَا فِيمَا اسْتَطَعْتَ ".
عبداللہ بن دینار نے بتایا کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: ہم سننے اور اطاعت کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرتے تھے اور آپ ہم سے فرماتے تھے: " (کہو:) جس کی مجھے استطاعت ہو گی۔"
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور ماننے پر بیعت کرتے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم ہمیں فرماتے تھے تمہاری استطاعت کی حد تک۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1867
   صحيح البخاري7202عبد الله بن عمربايعنا رسول الله على السمع والطاعة فيما استطعتم
   صحيح مسلم4836عبد الله بن عمرنبايع رسول الله على السمع والطاعة فيما استطعت
   جامع الترمذي1593عبد الله بن عمرعلى السمع والطاعة فيقول لنا فيما استطعتم
   سنن أبي داود2940عبد الله بن عمرنبايع النبي على السمع والطاعة يلقننا فيما استطعت
   سنن النسائى الصغرى4192عبد الله بن عمرنبايع رسول الله على السمع والطاعة فيما استطعت
   سنن النسائى الصغرى4193عبد الله بن عمرنبايع رسول الله على السمع والطاعة فيما استطعتم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم16عبد الله بن عمرفيما استطعتم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 16  
´اتباع رسول کا بیان`
«. . . 294- وبه: قال: كنا إذا بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، يقول لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: فيما استطعتم . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ جب ہم سننے اور اطاعت کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں فرماتے: جتنی تمہاری استطاعت ہو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 16]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 7202، من حديث مالك، ومسلم 1867، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه
➊ ہر انسان پر اس کی استطاعت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض ہے۔
➋ اسلام میں دو ہی بیعتیں ہیں:
اول: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت
دوم: خلیفہ اور حکمران کی بیعت
ان کے علاوہ کسی تیسری بیعت کا اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ہے، چاہے یہ بیعت کسی نام نہاد کاغذی پارٹی کی ہو یا کسی پیر کی۔
➌ سیدنا ابوغادیہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ شاگرد نے پوچھا: آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کے ساتھ بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں۔ [مسند أحمد 5/68 ح20666 وسنده حسن]
◈ سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ نے دائیں ہاتھ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی، اس دائیں ہاتھ کو ابوالاسود الجرشی رحمہ اللہ نے لے کر اپنی آنکھوں اور چہرے پر پھیرا۔ دیکھئے [مسند أحمد 3/491 ح16016، وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ افضل ہے۔ اسی طرح بعض آثار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ دو ہاتھوں سے مصافحہ بھی جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 294   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2940  
´بیعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کرتے تھے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلقین کرتے تھے کہ ہم یہ بھی کہیں: جہاں تک ہمیں طاقت ہے (یعنی ہم اپنی پوری طاقت بھر آپ کی سمع و طاعت کرتے رہیں گے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2940]
فوائد ومسائل:

اسلام اور جہادی بعیت کے بعد شوریٰ کے ذریعے سے منتخب حکمران کی بعیت بیعت حکومت کہلاتی ہیں۔
اس بعیت سے دو مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔


یہ بعیت اس بات کی علامت تھی۔
کہ لوگوں نے تجویز ہونے والےنام کو قبول کرلیا ہے۔
اس بعیت کے بعد خلافت کا انعقاد ہوجاتا تھا۔


تمام مسلمان شوریٰ کے ذریعے سے منتخب حکمران ان سے تعاون کریں گے۔
یہ ایک طرف کا عمرانی معاہدہ ہے۔
خلفائے راشدین نے ان الفاظ کا اضافہ کرایا۔
کہ سمع وطاقت ان کاموں میں ہوگی۔
جو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکامات اور سابقہ خلفائے راشدین کے اقدامات کے مطابق ہوں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے بعیت کے الفاظ میں انسانی استطاعت کے مطابق کے الفاظ شامل کرنے کی تلقین اس لئے فرمائی کہ بعیت کرنے والے خود کو ایسی صورت حال میں نہ پایئں جس کی انسان استطاعت ہی نہیں رکھتا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2940   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4836  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت پر شفقت اور الفت کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ بیعت لیتے وقت خود یہ تلقین فرماتے کہ یوں کہو،
اپنی استطاعت کی حد تک۔
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو کسی چیز کا التزام اور پابندی اپنی قدرت اور طاقت کے دائرہ میں رہتے ہوئے کرنا چاہیے اور کسی ایسی چیز کے الزام کو قبول نہیں کرنا چاہیے،
جو اپنی قدرت اور وسعت سے باہر ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4836   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.