الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
43. بَابُ كَيْفَ يُبَايِعُ الإِمَامُ النَّاسَ:
43. باب: امام لوگوں سے کن باتوں پر بیعت لے؟
(43) Chapter. How do the people give the Baia (pledge) to the Imam (ruler).
حدیث نمبر: 7202
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال:" كنا إذا بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، يقول لنا: فيما استطعتم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كُنَّا إِذَا بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، يَقُولُ لَنَا: فِيمَا اسْتَطَعْتُمْ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کرتے تو آپ ہم سے فرماتے کہ جتنی تمہیں طاقت ہو۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: Whenever we gave the Pledge of allegiance to Allah's Apostle for to listen to and obey, he used to say to us, for as much as you can."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 309


   صحيح البخاري7202عبد الله بن عمربايعنا رسول الله على السمع والطاعة فيما استطعتم
   صحيح مسلم4836عبد الله بن عمرنبايع رسول الله على السمع والطاعة فيما استطعت
   جامع الترمذي1593عبد الله بن عمرعلى السمع والطاعة فيقول لنا فيما استطعتم
   سنن أبي داود2940عبد الله بن عمرنبايع النبي على السمع والطاعة يلقننا فيما استطعت
   سنن النسائى الصغرى4192عبد الله بن عمرنبايع رسول الله على السمع والطاعة فيما استطعت
   سنن النسائى الصغرى4193عبد الله بن عمرنبايع رسول الله على السمع والطاعة فيما استطعتم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم16عبد الله بن عمرفيما استطعتم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 16  
´اتباع رسول کا بیان`
«. . . 294- وبه: قال: كنا إذا بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، يقول لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: فيما استطعتم . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ جب ہم سننے اور اطاعت کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں فرماتے: جتنی تمہاری استطاعت ہو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 16]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 7202، من حديث مالك، ومسلم 1867، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه
➊ ہر انسان پر اس کی استطاعت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض ہے۔
➋ اسلام میں دو ہی بیعتیں ہیں:
اول: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت
دوم: خلیفہ اور حکمران کی بیعت
ان کے علاوہ کسی تیسری بیعت کا اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ہے، چاہے یہ بیعت کسی نام نہاد کاغذی پارٹی کی ہو یا کسی پیر کی۔
➌ سیدنا ابوغادیہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ شاگرد نے پوچھا: آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کے ساتھ بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں۔ [مسند أحمد 5/68 ح20666 وسنده حسن]
◈ سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ نے دائیں ہاتھ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی، اس دائیں ہاتھ کو ابوالاسود الجرشی رحمہ اللہ نے لے کر اپنی آنکھوں اور چہرے پر پھیرا۔ دیکھئے [مسند أحمد 3/491 ح16016، وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ افضل ہے۔ اسی طرح بعض آثار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ دو ہاتھوں سے مصافحہ بھی جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 294   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2940  
´بیعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کرتے تھے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلقین کرتے تھے کہ ہم یہ بھی کہیں: جہاں تک ہمیں طاقت ہے (یعنی ہم اپنی پوری طاقت بھر آپ کی سمع و طاعت کرتے رہیں گے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2940]
فوائد ومسائل:

اسلام اور جہادی بعیت کے بعد شوریٰ کے ذریعے سے منتخب حکمران کی بعیت بیعت حکومت کہلاتی ہیں۔
اس بعیت سے دو مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔


یہ بعیت اس بات کی علامت تھی۔
کہ لوگوں نے تجویز ہونے والےنام کو قبول کرلیا ہے۔
اس بعیت کے بعد خلافت کا انعقاد ہوجاتا تھا۔


تمام مسلمان شوریٰ کے ذریعے سے منتخب حکمران ان سے تعاون کریں گے۔
یہ ایک طرف کا عمرانی معاہدہ ہے۔
خلفائے راشدین نے ان الفاظ کا اضافہ کرایا۔
کہ سمع وطاقت ان کاموں میں ہوگی۔
جو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکامات اور سابقہ خلفائے راشدین کے اقدامات کے مطابق ہوں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے بعیت کے الفاظ میں انسانی استطاعت کے مطابق کے الفاظ شامل کرنے کی تلقین اس لئے فرمائی کہ بعیت کرنے والے خود کو ایسی صورت حال میں نہ پایئں جس کی انسان استطاعت ہی نہیں رکھتا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2940   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7202  
7202. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب ہم رسول اللہ ﷺ سے سمع و اطاعت کی بیعت کرتے تو آپ ہم سے فرماتے: جتنی تمہیں طاقت ہو۔ یعنی اپنی ہمت کے مطابق اسے بجا لائیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7202]
حدیث حاشیہ:
حاکم وقت سے سمع و طاعت پر بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ایسی بات کا حکم دے جو ہماری طبیعت یا ذاتی رائے کے خلاف ہو تو اپنی ذاتی طبیعت کے رجحان اور ذاتی رائے کو نظر انداز کر کے اپنی ہمت کے مطابق اس کی بات کو ماناجائے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو قدم قدم پر اختلاف و انتشار ہو گا۔
جو حکومت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔
ہاں اگر اس کی بات شریعت کے خلاف ہو تو پھر اس کی بات ماننا ضروری نہیں کیونکہ شریعت کا حکم مقدم اور سب سے بالا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7202   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.