الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
امور حکومت کا بیان
The Book on Government
33. باب فِي بَيَانِ أَنَّ أَرْوَاحَ الشُّهَدَاءِ فِي الْجَنَّةِ وَأَنَّهُمْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ:
33. باب: شہیدوں کی روحیں جنت میں ہیں اور یہ کہ وہ اپنے رب کے نزدیک زندہ ہیں رزق دیئے جاتے ہیں۔
حدیث نمبر: 4885
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، وابو بكر بن ابي شيبة كلاهما، عن ابي معاوية . ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا جرير ، وعيسى بن يونس جميعا، عن الاعمش . ح وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير واللفظ له، حدثنا اسباط ، وابو معاوية ، قالا: حدثنا الاعمش ، عن عبد الله بن مرة ، عن مسروق ، قال: سالنا عبد الله عن هذه الآية ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا بل احياء عند ربهم يرزقون سورة آل عمران آية 169، قال: اما إنا قد سالنا عن ذلك، فقال: " ارواحهم في جوف طير خضر لها قناديل معلقة بالعرش، تسرح من الجنة حيث شاءت ثم تاوي إلى تلك القناديل، فاطلع إليهم ربهم اطلاعة، فقال: هل تشتهون شيئا؟ قالوا: اي شيء نشتهي ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا "، ففعل ذلك بهم ثلاث مرات، فلما راوا انهم لن يتركوا من ان يسالوا، قالوا: يا رب نريد ان ترد ارواحنا في اجسادنا حتى نقتل في سبيلك مرة اخرى، فلما راى ان ليس لهم حاجة تركوا.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ جميعا، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ سورة آل عمران آية 169، قَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ، فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمُ اطِّلَاعَةً، فَقَالَ: هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا؟ قَالُوا: أَيَّ شَيْءٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا "، فَفَعَلَ ذَلِكَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَكُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا، قَالُوا: يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى، فَلَمَّا رَأَى أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِكُوا.
مسروق بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی: "جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھو، وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں، ان کو رزق دیا جاتا ہے۔" حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے بھی اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا، آپ نے فرمایا: "ان کی روحیں سبز پرندوں کے اندر رہتی ہیں، ان کے لیے عرش الہیٰ کے ساتھ قبدیلیں لٹکی ہوئی ہیں، وہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی ہیں، پھر ان قندیلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں، ان کے رب نے اوپر سے ان کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا: "کیا تمہیں کس چیز کی خواہش ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہم (اور) کیا خواہش کریں، ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ اللہ نے تین بار ایسا کیا (جھانک کر دیکھا اور پوچھا۔) جب انہوں نے دیکھا کہ ان کو چھوڑا نہیں جائے گا، ان سے سوال ہوتا رہے گا تو انہوں نے نے کہا: اے ہمارے رب! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے یہاں تک کہ ہم دوبارہ تیری راہ میں شہید کیے جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھے گا کہ ان کو کوئی حاجت نہیں ہے تو ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔"
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی تین سندوں سے بیان کرتے ہیں، کہ مسروق نے کہا، ہم نے عبداللہ یعنی ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا، جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے جاتے ہیں، ان کو مردے خیال نہ کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں، رزق دئیے جاتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1887

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4885  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء کی ارواح جنت میں سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں،
یعنی ان کے جسم و بدن کی جگہ انہیں سبز پرندوں کی شکل میں جسم ملا ہے،
جس میں وہ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور عرش سے لٹکے ہوئے قنادیل میں رہتے ہیں اور ان کی دنیا میں آنے کی خواہش پوری نہیں ہوتی،
اس جہاں سے ان کا تعلق منقطع ہو جاتا ہے اور برزخی جہاں سے ان کا تعلق قائم ہو جاتا ہے،
لیکن عام مومنوں کی روح کو پرندہ کی شکل دی جاتی ہے،
جبکہ شہید کی روح سبز پرندے کے پیٹ میں ہے،
اس لیے دونوں میں فرق ہے،
دونوں کا مقام و مرتبہ یکساں نہیں ہے اور جنت کی نعمتوں سے لطف اندوزی میں بھی برابر نہیں ہے،
لیکن اس جہان میں اس کی مکمل تفصیلات کو جاننا ممکن نہیں ہے،
لیکن اس حدیث سے تناسخ یا آواگون پر استدلال درست نہیں ہے،
کیونکہ تناسخ میں روح اسی جہان فانی میں ایک جسم سے نکل کر دوسرے جسم میں داخل ہوتی ہے،
پھر اس سے نکل کر کسی دوسرے میں داخل ہوتی ہے،
اس طرح عذاب و ثواب کا چکر اسی دنیا میں چلتا رہتا ہے،
جبکہ شہداء کی ارواح اس دنیا کی بجائے برزخ کے عالم میں سبز پرندوں میں ہیں،
دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور پھر قیامت تک ان سے نکل کر کسی اور جسم میں نہیں جانا ہے اور تناسخ میں تو یہ چکر بار بار اسی دنیا میں چل رہا ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے،
جنت اب بھی موجود ہے،
جہاں شہداء کی ارواح نعمتوں سے بھرپور طریقہ سے متمتع ہو رہی ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4885   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.