حجاج بن محمد نے ابن جریج سے روایت کی، کہا: مجھے ابن شہاب نے علی بن حسین بن علی سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت علی بن ابی طا لب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کے مال غنیمت میں سے ایک (جوان اونٹنی حاصل ہو ئی۔ ایک اور جوان اونٹنی (خمس میں سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا فرما ئی۔ایک دن میں نے ان دونوں اونٹنیوں کو ایک انصاری کے دروازے پر بٹھا یا اور میں ان دو نوں پر بیچنے کے لیے اذخر (کی خوشبو دار گھاس) لا دکر لا نا چاہتا تھا۔۔۔بنو قینقاع کا سنار بھی میرے ساتھ تھا۔۔۔اور اس (کی قیمت) سے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا (کے ساتھ اپنی شادی) کے ولیمے میں مدد لینا چا ہتا تھا۔حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ اس گھر میں (بیٹھے) شراب پی رہے تھے، ان کے قریب ایک گا نے والی عورت گا رہی تھی پھر وہ یہ اشعار گا نے لگی۔ سنیں حمزہ! (اٹھ کر) فربہ اونٹنیوں کی طرف بڑھیں (دوسرا مصرع ہے۔ وَہُنَّ مُعَقَّلَاتٌ بِالْفِنَاءِ"اور گھر کے آگے کھلی جگہ میں بندھی ہو ئی ہیں۔) "حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تلوار سمیت لپک کر ان کی طرف بڑھے ان کے کوہانوں کو جڑسے کاٹ لیا ان کے پہلو چیردیے پھر ان کے کلیجے نکا ل لیے۔ میں نے ابن شہاب سے کہا: اور کو ہان بھی؟ انھوں نے کہا: وہ (حمزہ رضی اللہ عنہ) ان دونوں کے کو ہان جڑ سے کا ٹ کر لے گئے۔ابن شہاب نے کہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس نے مجھے دہلا کر رکھ دیا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پاس مو جو د تھے۔آپ زید رضی اللہ عنہ کے ہمرا ہ نکل پڑے۔میں بھی آپ کے ساتھ چلنے لگا۔آپ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور غصے کا اظہار فرمایا۔حمزہ رضی اللہ عنہ نے آنکھ اٹھا ئی اور کہنے لگے: تم میرے آبا واجداد کے غلاموں سے برھ کر کیا ہو! (وہ دونوں جناب عبد المطلب کے پو تے تھے اور رشتے کے حوالے سے خدمت گزاری کے مقام پر تھے۔ حمزہ رضی اللہ عنہ رشتے میں ان سے ایک پشت اوپر تھے۔ انھوں نے شراب کی لہر میں اسی بات کو مبا لغہ آمیز فخر و مباہات کے رنگ میں کہہ دیا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں واپس ہو ئے اور ان کی محفل سے نکل آئے۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غنیمت سے ایک عمر رسیدہ اونٹنی ملی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک اور عمر رسیدہ اونٹنی دے دی، تو ایک دن میں نے ان دونوں کو ایک انصاری کے دروازہ پر بیٹھا اور میں چاہتا تھا کہ ان دونوں پر بیچنے کے لیے اذخر لاؤں اور میرے ساتھ بنو قینقاع کا ایک زرگر بھی تھا، میں اس رقم سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی پر ولیمہ کی تیاری میں مدد حاصل کرنا چاہتا تھا اور حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس گھر میں شراب پی رہے تھے، ان کے پاس ایک گانے والی گا رہی تھی، اس نے کہا، خبردار! اے حمزہ، فربہ عمر رسیدہ اونٹنیوں کو ذبح کرنے کے لیے اٹھو، تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر ان دونوں کی طرف کودے اور ان دونوں کے کوہان کاٹ لیے اور دونوں کے کوکھ چاک کر ڈالے، پھر ان کے جگر نکال لیے، ابن جریج کہتے ہیں، میں نے ابن شہاب سے کہا اور کوہان سے؟ انہوں نے کہا، دونوں کے کوہان کاٹ کر لے گئے، ابن شہاب نے کہا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، تو میں نے ایسا منظر دیکھا، جس نے مجھ دکھ پہنچایا، تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے پاس تھے، میں نے آپ کو واقعہ سے آگاہ کیا، تو آپ چل پڑے، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے اور میں بھی آپ کے ساتھ چلا، آپ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے، اس پر ناراض ہوئے، تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی نظر اوپر اٹھا کر کہا، تم میرے بزرگوں کے غلام ہی تو ہو؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں لوٹے اور گھر سے نکل گئے۔