الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5180
´گھر میں داخل ہونے کی اجازت لینے کے لیے آدمی کتنی بار سلام کرے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں انصار کی مجالس میں سے ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے آئے، تو ہم نے ان سے کہا: کس چیز نے آپ کو گھبراہٹ میں ڈال دیا ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے عمر رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا تھا، میں ان کے پاس آیا، اور تین بار ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، مگر مجھے اجازت نہ ملی تو میں لوٹ گیا (دوبارہ ملاقات پر) انہوں نے کہا: تم میرے پاس کیوں نہیں آئے؟ میں نے کہا: میں تو آپ کے پاس گیا تھا، تین بار اجازت مانگی، پھر مجھے اجازت نہ دی گئی، رسول اللہ صلی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5180]
فوائد ومسائل:
1۔
اجازت طلب کرنے کے لئے اصل شرعی ادب اسلام علیکم کہنا ہے اور تین بار سلام کہہ کر اجازت مانگی جائے۔
اسی پر دستک دینے یا گھنٹی بجانے کو قیاس کرنا چاہیے۔
اس سے زیادہ خلاف ادب ہے، نہ معلوم گھر والا کسی خاص کام میں مشغول ہو یا آرام کر رہا ہو، تو اسے پریشان نہ کیا جائے۔
علاوہ ازیں دستک دینے یا گھنٹی بجانے میں بھی بے ادبی یا بد تمیزی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔
بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اتنی زور سے دستک دیتے ہیں کہ اڑوس پروس کے لوگوں کا سکون بھی بر باد ہو جاتا ہے۔
اسی طرح بعض لوگ گھنٹی اس طرح تسلسل سے بجاتے ہیں جیسے انہوں نے مردوں کو زندہ کرنا یا بہروں کو سنانا ہے یہ بے ہوگیاں ہماری اخلاقی پستی کی غماز ہیں۔
2: اجازت یا جواب نہ ملنے پر بلاوجہ ناراض انہیں ہونا چاہیے، بلکہ واپس آجانا چاہیے۔
3: حضرت عمر رضی اللہ احادیث رسول کی روایت میں اس لئے شدید تھے کہ لوگ کہیں یقین واعتماد کے بغیر رسول ﷺکی طرف سے نسبت نہ کرنے لگیں اور اللہ انہیں جزائے خیر دے یہ ان کی بہت بڑی دانائی کی سختی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 5180