الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
شعر و شاعری کا بیان
The Book of Poetry
1ق. باب فِي إِنْشَادِ الْاشْعَارِ وَبَيَانِ أَشْعَرِ الْكَلِمَةِ وَذَمِّ الشعْرِ
1ق. باب: شعر پڑھنے، بیان کرنے اور اس کی مذمت کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 5890
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن زائدة ، عن عبد الملك بن عمير ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اصدق بيت قاله الشاعر: الا كل شيء ما خلا الله باطل "، وكاد ابن ابي الصلت ان يسلم.وحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَصْدَقُ بَيْتٍ قَالَهُ الشَّاعِرُ: أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلٌ "، وَكَادَ ابْنُ أَبِي الصَّلْتِ أَنْ يُسْلِمَ.
زائد ہ نے عبد الملک بن عمیر سے، انھوں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: "کسی بھی شاعرکا کہا ہوا سب سے سچا شعر وہ ہے جو لبید نے کہا ہے۔"سنو اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔ "اور قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت مسلمان ہو جا تا۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے سچا بول شعر جو کسی شاعر نے کہا ہے، یہ ہےخبردار! اللہ کے سوا ہر چیز بے حقیقت ہے۔ اور قریب تھا کہ ابن ابی صلت اسلام لے آتا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2256
   صحيح البخاري6147عبد الرحمن بن صخرأصدق كلمة قالها الشاعر كلمة لبيد ألا كل شيء ما خلا الله باطل
   صحيح البخاري6489عبد الرحمن بن صخرأصدق بيت قاله الشاعر ألا كل شيء ما خلا الله باطل
   صحيح البخاري3841عبد الرحمن بن صخرأصدق كلمة قالها الشاعر كلمة لبيد ألا كل شيء ما خلا الله باطل كاد أمية بن أبي الصلت أن يسلم
   صحيح مسلم5890عبد الرحمن بن صخرأصدق بيت قاله الشاعر ألا كل شيء ما خلا الله باطل
   صحيح مسلم5891عبد الرحمن بن صخرأصدق بيت قالته الشعراء ألا كل شيء ما خلا الله باطل
   صحيح مسلم5892عبد الرحمن بن صخرأصدق كلمة قالها شاعر كلمة لبيد ألا كل شيء ما خلا الله باطل
   صحيح مسلم5888عبد الرحمن بن صخرأشعر كلمة تكلمت بها العرب كلمة لبيد ألا كل شيء ما خلا الله باطل
   صحيح مسلم5889عبد الرحمن بن صخرأصدق كلمة قالها شاعر كلمة لبيد ألا كل شيء ما خلا الله باطل
   جامع الترمذي2849عبد الرحمن بن صخرأشعر كلمة تكلمت بها العرب كلمة لبيد ألا كل شيء ما خلا الله باطل
   سنن ابن ماجه3757عبد الرحمن بن صخرأصدق كلمة قالها الشاعر كلمة لبيد ألا كل شيء ما خلا الله باطل كاد أمية بن أبي الصلت أن يسلم
   مسندالحميدي1084عبد الرحمن بن صخر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6489  
´جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے اور اسی طرح دوزخ بھی ہے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَصْدَقُ بَيْتٍ قَالَهُ الشَّاعِرُ: أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے سچا شعر جسے شاعر نے کہا ہے یہ ہے ہاں اللہ کے سوا تمام چیزیں بےبنیاد ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6489]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6489 کا باب: «بَابُ: «الْجَنَّةُ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ، وَالنَّارُ مِثْلُ ذَلِكَ»

باب اور حدیث میں مناسبت:
تحت الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے دو حدیثوں کا انتخاب فرمایا، پہلی سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس سے باب کا تعلق ظاہر ہے، مگر دوسری حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کا ذکر ہم نے چند سطروں پہلے کیا ہے اس کا تعلق باب کے ساتھ مشکل ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«مناسبة هذا الحديث الثاني للترجمة خفية، وكأنه الترجمة لما تضمنت ما فى الحديث الأول من التحريض على الطاعة و لو قلت و الزجر عن المعصية و لو قلت فيفهم أن من خالف ذالك إنما يخالفه لرغبة فى أمر من أمور الدنيا، و كل ما فى الدنيا باطل كما صرح به الحديث الثاني، فلا ينبغي للعاقل أن يؤثر الفاني على الباقي.» (3)
یعنی حدیث ثانی کے ساتھ باب کی مناسبت بہت خفی ہے، گویا ترجمہ میں پہلی حدیث میں مذکور اطاعت کی ترغیب کو متضمن ہے چاہے قلیل ہو، اسی طرح زجر عن معصیت چاہے قلیل ہوں تو اسے سمجھا جائے گا کہ جس نے اس کی مخالفت کی اس نے امور دنیا میں سے کسی امر میں جنت کے سبب اس کی مخالفت کی اور دنیا میں جو کچھ ہے باطل ہے، جیسا کہ دوسری حدیث نے تصریح کی تو عاقل کو چاہیے کہ فانی چیز کو باقی رہنے والی چیز پر ترجیح ہرگز نہ دے۔
یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے ہی دقیق الفاظوں سے باب کا معنی حدیث سے اخذ فرمایا ہے، آپ کا طریقہ استنباط اس طرح سے ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالی کی اطاعت میں ہو گا اس کا عمل قائم رہے گا اور وہ برباد اور ضائع نہ ہو گا، کیوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ ہر کسی کو زوال اور اختتام ہے، لہذا جو نیک کام اللہ کے لیے ہو گا اسے زوال نہ ہو گا اور جو کام نا فرمانی کی غرض سے ہو گا، یقینا اس کام کو زوال ہو گا اور وہ کام صرف دنیا میں ہی نظر آئے گا اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو گا، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
ابن بطال رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و المراد بقوله ألا كل بشيئي إلى آخره الخصوص، لأن كل ما قرب من الله تعالي فليس بباطل، و إنما أراد أن كل شيئي ما خلا الله باطل من أمر الدنيا الذى لا يئول إلى طاعة الله، و لا يقرب منه تعالي فهي باطل.» (1)
یعنی ہر وہ شیئ جو اللہ تعالی کے قریب ہو گی وہ باطل نہ ہو گی اور ہر وہ شیئی جو اللہ تعالی کی نافرمانی پر قائم ہو گی تو پس وہ اللہ تعالی کے قریب نہ ہو گی اور وہ باطل ہو گی۔
لہذا اب باب سے حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہوئی کہ نیک اعمال کا ٹھکانہ جنت ہے اور وہ لازوال ہے، اور برے اعمال کا ٹھکانہ جہنم ہے اور جہنم والے اعمال برباد کر دیے جائیں گے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 220   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3757  
´شعر کہنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ہے وہ لبید (شاعر) کا یہ شعر ہے «ألا كل شيء ما خلا الله باطل» سن لو! اللہ کے علاوہ ساری چیزیں فانی ہیں اور قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت مسلمان ہو جائے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3757]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت لبید ؓ عرب کے ایک شاعر تھے جو مسلمان ہو گئے تھے۔
حضرت معاویہ ؓ کے دور خلافت میں فوت ہوئے۔

(2)
جو کام اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے وہی نیکی ہے۔

(3)
میہ بن ابوصلت غیر مسلم شاعر تھا لیکن اس کے شعر اچھے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے پسند فرمائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3757   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5890  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ کا وجود،
ذاتی اور مستقل اور ازلی ہے اورابد تک رہے گا،
نہ وہ معدوم تھا،
نہ معدوم ہوگا،
کائنات میں ہر چیز کا وجود،
پہلے نہ تھا،
بعد میں اللہ کی تخلیق اور ایجاد سے اس کو وجود ملا،
نہ وہ ازلی ہے اور نہ ذاتی ہے،
بلکہ اس کا عطاکر دہ ہے اور اس کے ارادہ اور مشیت کے ساتھ موجود اور برقرار ہے،
جب وہ چاہے گا،
وہ ختم ہو جائے گا،
وہ مستقل نہیں ہے بلکہ محتاج ہے اور ذاتی حیثیت سے وہ بے حقیقت ہے،
اس لیے اس کو باطل کا نام دیا گیا،
لیکن اس وحدت الوجود کا نظریہ کشید کرنا،
ایک فضول اور بے کار کاوش ہے،
اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے،
اگر اس سے وحدت الوجود کا اثبات ہوتا تو یہ نظریہ صحابہ و تابعین کے دور میں پیدا ہو چکا ہوتا،
یہ تو ایک فلسفہ یا نظریہ ہے،
جو الحاد اور زندقہ کا راستہ کھولتا ہے اگر اسلامی نظریہ ہوتا تو بے دینی کا راستہ ہموار نہ کرتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 5890   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.