الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
40. بَابُ الْعِلْمِ وَالْعِظَةِ بِاللَّيْلِ:
40. باب: اس بیان میں کہ رات کو تعلیم دینا اور وعظ کرنا جائز ہے۔
(40) Chapter. The knowledge and its teaching and preaching at night.
حدیث نمبر: 115
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا صدقة، اخبرنا ابن عيينة، عن معمر، عن الزهري، عن هند، عن ام سلمة، وعمرو، ويحيى بن سعيد، عن الزهري، عن هند، عن ام سلمة، قالت: استيقظ النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فقال:" سبحان الله، ماذا انزل الليلة من الفتن، وماذا فتح من الخزائن، ايقظوا صواحبات الحجر، فرب كاسية في الدنيا عارية في الآخرة".حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ هِنْدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَة، وَعَمْرٍو، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ هِنْدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ، مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتَنِ، وَمَاذَا فُتِحَ مِنَ الْخَزَائِنِ، أَيْقِظُوا صَوَاحِبَاتِ الْحُجَرِ، فَرُبَّ كَاسِيَةٍ فِي الدُّنْيَا عَارِيَةٍ فِي الْآخِرَةِ".
صدقہ نے ہم سے بیان کیا، انہیں ابن عیینہ نے معمر کے واسطے سے خبر دی، وہ زہری سے روایت کرتے ہیں، زہری ہند سے، وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے، (دوسری سند میں) عمرو اور یحییٰ بن سعید زہری سے، وہ ایک عورت سے، وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیدار ہوتے ہی فرمایا کہ سبحان اللہ! آج کی رات کس قدر فتنے اتارے گئے ہیں اور کتنے ہی خزانے بھی کھولے گئے ہیں۔ ان حجرہ والیوں کو جگاؤ۔ کیونکہ بہت سی عورتیں (جو) دنیا میں (باریک) کپڑا پہننے والی ہیں وہ آخرت میں ننگی ہوں گی۔

Narrated Um Salama: One night Allah's Apostle got up and said, "Subhan Allah! How many afflictions have been descended tonight and how many treasures have been disclosed! Go and wake the sleeping lady occupants of these dwellings (his wives) up (for prayers). A well-dressed (soul) in this world may be naked in the Hereafter. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 115

   صحيح البخاري3599هند بنت حذيفةسبحان الله ماذا أنزل من الخزائن وماذا أنزل من الفتن
   صحيح البخاري7069هند بنت حذيفةسبحان الله ماذا أنزل الله من الخزائن وماذا أنزل من الفتن من يوقظ صواحب الحجرات يريد أزواجه لكي يصلين رب كاسية في الدنيا عارية في الآخرة
   صحيح البخاري5844هند بنت حذيفةلا إله إلا الله ماذا أنزل الليلة من الفتنة ماذا أنزل من الخزائن من يوقظ صواحب الحجرات كم من كاسية في الدنيا عارية يوم القيامة قال الزهري وكانت هند لها أزرار في كميها بين أصابعها
   صحيح البخاري115هند بنت حذيفةسبحان الله ماذا أنزل الليلة من الفتن وماذا فتح من الخزائن أيقظوا صواحبات الحجر فرب كاسية في الدنيا عارية في الآخرة
   صحيح البخاري1126هند بنت حذيفةسبحان الله ماذا أنزل الليلة من الفتنة ماذا أنزل من الخزائن من يوقظ صواحب الحجرات يا رب كاسية في الدنيا عارية في الآخرة
   جامع الترمذي2196هند بنت حذيفةسبحان الله ماذا أنزل الليلة من الفتنة ماذا أنزل من الخزائن من يوقظ صواحب الحجرات يا رب كاسية في الدنيا عارية في الآخرة
   مسندالحميدي294هند بنت حذيفةسبحان الله ماذا وقع من الفتن؟ وما فتح من الخزائن، فأيقظوا صواحبات الحجر فرب كاسية في الدنيا عارية يوم القيامة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 115  
´ اس بیان میں کہ رات کو تعلیم دینا اور وعظ کرنا جائز ہے `
«. . . عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ: " سُبْحَانَ اللَّهِ، مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتَنِ، وَمَاذَا فُتِحَ مِنَ الْخَزَائِنِ، أَيْقِظُوا صَوَاحِبَاتِ الْحُجَرِ، فَرُبَّ كَاسِيَةٍ فِي الدُّنْيَا عَارِيَةٍ فِي الْآخِرَةِ " . . . .»
. . . ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیدار ہوتے ہی فرمایا کہ سبحان اللہ! آج کی رات کس قدر فتنے اتارے گئے ہیں اور کتنے ہی خزانے بھی کھولے گئے ہیں۔ ان حجرہ والیوں کو جگاؤ۔ کیونکہ بہت سی عورتیں (جو) دنیا میں (باریک) کپڑا پہننے والی ہیں وہ آخرت میں ننگی ہوں گی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ الْعِلْمِ وَالْعِظَةِ بِاللَّيْلِ:: 115]

تشریح:
مطلب یہ ہے کہ نیک بندوں کے لیے اللہ کی رحمتوں کے خزانے نازل ہوئے اور بدکاروں پر اس کا عذاب بھی اترا۔ پس بہت سی عورتیں جو ایسے باریک کپڑے استعمال کرتی ہیں جن سے بدن نظر آئے، آخرت میں انہیں رسوا کیا جائے گا۔ اس حدیث سے رات میں وعظ و نصیحت کرنا ثابت ہوتا ہے، پس مطابقت حدیث کی ترجمہ سے ظاہر ہے۔ [فتح الباری] عورتوں کے لیے حد سے زیادہ باریک کپڑوں کا استعمال جن سے بدن نظر آئے قطعاً حرام ہے۔ مگر آج کل زیادہ تر یہی لباس چل پڑا ہے جو قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 115   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5844  
´اس بیان میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی لباس یا فرش کے پابند نہ تھے جیسا مل جاتا اسی پر قناعت کرتے`
«. . . عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ وَهُوَ يَقُولُ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتْنَةِ، مَاذَا أُنْزِلَ مِنَ الْخَزَائِنِ، مَنْ يُوقِظُ صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ، كَمْ مِنْ كَاسِيَةٍ فِي الدُّنْيَا عَارِيَةٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَكَانَتْ هِنْدٌ لَهَا أَزْرَارٌ فِي كُمَّيْهَا بَيْنَ أَصَابِعِهَا . . .»
. . . ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت بیدار ہوئے اور کہا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، کیسی کیسی بلائیں اس رات میں نازل ہو رہی ہیں اور کیا کیا رحمتیں اس کے خزانوں سے اتر رہی ہیں۔ کوئی ہے جو ان حجرہ والیوں کو بیدار کر دے۔ دیکھو بہت سی دنیا میں پہننے اوڑھنے والیاں آخرت میں ننگی ہوں گی۔ زہری نے بیان کیا کہ ہندہ اپنی آستینوں میں انگلیوں کے درمیان گھنڈیاں لگاتی تھیں، تاکہ صرف انگلیاں کھلیں اس سے آگے نہ کھلے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ: 5844]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5844 کا باب: «بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَجَوَّزُ مِنَ اللِّبَاسِ وَالْبُسْطِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس لباس کے بارے میں ذکر فرمایا جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: اور حقیقتا لباس ہے ہی وہی جو ستر پوشی کا کام کرے۔ تحت الباب جو حدیث سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے اس میں باریک کپڑوں سے ممانعت کی گئی ہے، یعنی وہ باریک کپڑے جن سے جسم جھلکے ایسے لباس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ تھے، چنانچہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و مطابقة حديث أم سلمة هذا للترجمة من جهة انه صلى الله عليه وسلم حزر من لباس الرقيق من الثياب الواصفة لأجسامهن لئلا يعرين فى الآخرة.» (2)
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی ترجمۃ الباب سے مناسبت اس جہت سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باریک لباس زیب تن کرنے سے منع فرمایا اور تحذیر فرمائی اس لباس سے جس سے جسم جھلکتے ہوں تاکہ اس قسم کی خواتین آخرت کی عریانی سے بچ سکیں، امام زہری رحمہ اللہ نے جو ہند سے نقل فرمایا ہے کہ وہ اس کی موید ہے، کہتے ہیں کہ اس میں اشارہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ثیاب شفافہ (باریک لباس) نہ پہنا کرتے تھے، کیوں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کپڑوں سے تحزیر فرمائی ہے تاکہ ظہور عورۃ نہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بصفۃ الکمال دیگر سے اس کے اولی ہیں . . . محتمل ہے کہ دونوں احادیث ترجمۃ الباب کے ایک جزء پر دال ہوں، حدیث عمر بسیط اور حدیث سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا لباس کے ساتھ مطابقت رکھتی ہوں۔
اور مزید حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ:
ہند اس بات سے ڈرتی تھی کہ ان کے جسم کا ذرا سا حصہ بھی ظاہر نہ ہو، ان کی آستینوں کے کشادہ ہونے کی وجہ سے ان میں بٹن لگا لیے، تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول «كاسية عارية» میں شامل نہ ہوں۔
یہ حقیر بندہ کہتا ہے کہ ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ یہ بات واضح کرنا چاہتے ہوں کہ بندہ اپنے ستر ڈھانپے اور با آسانی جو بھی کپڑا میسر آ جائے اسے زیب تن کرے، نہ وہ باریک پہنے اور نہ ہی وہ اچھے اور بڑھیا کپڑوں کے لیے اسراف کرے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں باب میں ذکر فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قناعت پسند تھے، اور تحت الباب عریاں اور باریک کپڑے زیب تن کرنے کی ممانعت پر حدیث پیش کر دی، ممکن ہے کہ کہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
«و مطابقة الحديث للترجمة من حيث إنه حزر من لباس دقيق الثياب الواصفة للجسد.» (1)
یعنی ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت یہ ہے کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے ایسے لباس سے ڈرایا ہے جو باریک ہوں اور جس لباس سے جسم نمایاں ہو، یعنی شریعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
نکتہ:
امام قسطلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب «المواهب اللدنية» میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کے بارے میں اسی حدیث سے افتتاح فرمایا۔(2)
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 169   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2196  
´ان فتنوں کا بیان جو سخت تاریک رات کی طرح ہوں گے۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات بیدار ہوئے اور فرمایا: سبحان اللہ! آج کی رات کتنے فتنے اور کتنے خزانے نازل ہوئے! حجرہ والیوں (امہات المؤمنین) کو کوئی جگانے والا ہے؟ سنو! دنیا میں کپڑا پہننے والی بہت سی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2196]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو بے انتہا باریک لباس پہنتی ہیں،
یا وہ عورتیں مراد ہیں جن کے لباس مال حرام سے بنتے ہیں،
یا وہ عورتیں ہیں جو بطور زینت بہت سے کپڑے استعمال کرتی ہیں،
لیکن عریانیت سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھتیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2196   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:115  
115. حضرت ام سلمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک رات بیدار ہوئے تو فرمایا: سبحان اللہ! آج رات کتنے فتنے نازل کیے گئے اور کتنے خزانے کھولے گئے۔ ان حجروں میں سونے والیوں کو جگاؤ، کیونکہ دنیا میں بہت سی کپڑے پہننے والیاں ایسی ہیں جو آخرت میں برہنہ ہوں گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:115]
حدیث حاشیہ:

قرآن کریم کی صراحت کے مطابق رات کو آرام کے لیے بنایا گیا ہے۔
اس سے شبہ ہوتا ہے کہ رات کے وقت تعلیم اور وعظ ونصیحت جائز نہیں، پھر دن بھرکا تھکا ماندہ انسان رات میں آرام کا خواہش مند ہوتا ہے۔
لہٰذا اس وقت کی تعلیم بےآرامی کے علاوہ وضع لیل کے بھی خلاف ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اگر رات کے وقت وعظ ونصیحت اور تعلیم کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
پیش کردہ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بعض اوقات علمی باتیں سنانے کے لیے سوئے ہوؤں کو بھی بیدار کیا جا سکتا ہے۔
عنوان میں دوقسم کی ضروریات کا ذکر ہے:
ایک تعلیم وتعلم جس کی دلیل:
«مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتَنِ» ہے۔
دوسری ضرورت وعظ ونصیحت ہے جس کی دلیل:
«أيْقِظُوا صَوَاحِب الْحُجَرِ» حجروں میں رہنے والیوں کو جگاؤ ہے۔

حدیث میں دو چیزیں بطور خاص ذکر کی گئی ہیں، یعنی آج رات کتنے فتنے اتارے گئے اور کتنے خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔
پہلی چیز کا تعلق انذار سے ہے اور دوسری چیز کا تعلق تبشیر سے ہے۔
قرآن کریم میں بھی اکثر وبیشتر انذار کے ساتھ تبشیر کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ اگرتم فتنوں میں ثابت قدم رہے تو ہرقسم کی رحمتیں تمہارے لیے ہیں۔
اس صورت میں خزائن سے مراد، خزائن رحمت ہیں، یعنی فتنے بھی اتارے گئے اور رحمت کے دروازے بھی کھول دیے گئے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ خزائن سے مراد دنیوی خزائن ہوں۔
اس صورت میں ما قبل کی تفصیل ہوگی کیونکہ یہ دنیوی خزائن بھی فنتہ ہی ہیں۔
چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور ہی میں دنیا کی دوحکومتیں فارس اور روم مسلمانوں کے زیرنگیں آگئیں، لیکن سیاق وسباق کا تقاضا یہ ہے کہ خزائن اورفتن دونوں الگ الگ ہوں کیونکہ بے شمار لوگ ایسے ہیں جنھیں دنیا کے خزانے توملے لیکن وہ فتنوں سے بالکل محفوظ رہے۔
(فتح الباري: 278/1)

قرآن کریم نے لباس کے دو فائدے بتائے ہیں:
ایک ستر پوشی اوردوسرا زینت۔
اگر کوئی لباس پہننے کے باوجود ننگا رہتا ہے تو قیامت کے دن اس کی سزا بھگتنی ہوگی۔
اس کی دوصورتیں ہیں:
(الف)
۔
لباس اتنا باریک ہو کہ بدن کی جھلک نمایاں نظر آئے۔
(ب)
۔
سلائی اتنی چست ہو کہ جسم کا ابھار واضح معلوم ہو۔
حدیث میں اس حقیقت سے خبردار کیا گیا ہے کہ بہت سی کپڑے پہننے والی ایسی ہیں جو آخرت میں برہنہ ہوں گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 115   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.