الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
22. بَابُ الْكَفَنِ فِي الْقَمِيصِ الَّذِي يُكَفُّ أَوْ لاَ يُكَفُّ، وَمَنْ كُفِّنَ بِغَيْرِ قَمِيصٍ:
22. باب: قمیص میں کفن دینا اور اس کا حاشیہ سلا ہوا ہو یا بغیر سلا ہوا ہو اور بغیر قمیص کے کفن دینا۔
(22) Chapter. To shroud one in a shirt, stitched or unstitched.
حدیث نمبر: 1270
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مالك بن إسماعيل، حدثنا ابن عيينة، عن عمرو، سمع جابرا رضي الله عنه , قال:" اتى النبي صلى الله عليه وسلم عبد الله بن ابي بعد ما دفن، فاخرجه فنفث فيه من ريقه والبسه قميصه".حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ بَعْدَ مَا دُفِنَ، فَأَخْرَجَهُ فَنَفَثَ فِيهِ مِنْ رِيقِهِ وَأَلْبَسَهُ قَمِيصَهُ".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی کو دفن کیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اپنی قمیص پہنائی۔

Narrated Jabir: The Prophet came to (the grave of) `Abdullah bin Ubai after his body was buried. The body was brought out and then the Prophet put his saliva over the body and clothed it in his shirt.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 360

   صحيح البخاري5795جابر بن عبد اللهأتى النبي عبد الله بن أبي بعد ما أدخل قبره فأمر به فأخرج ووضع على ركبتيه نفث عليه من ريقه ألبسه قميصه فالله أعلم
   صحيح البخاري1270جابر بن عبد اللهأتى النبي عبد الله بن أبي بعد ما أدخل حفرته
   صحيح البخاري1350جابر بن عبد اللهأمر به فأخرج فوضعه على ركبتيه نفث عليه من ريقه ألبسه قميصه
   صحيح مسلم7025جابر بن عبد اللهأتى النبي قبر عبد الله بن أبي فأخرجه من قبره فوضعه على ركبتيه نفث عليه من ريقه ألبسه قميصه فالله أعلم
   سنن النسائى الصغرى1902جابر بن عبد اللهأمر به فأخرج له فوضعه على ركبتيه ألبسه قميصه نفث عليه من ريقه
   سنن النسائى الصغرى2022جابر بن عبد اللهأمر بعبد الله بن أبي فأخرجه من قبره فوضع رأسه على ركبتيه تفل فيه من ريقه ألبسه قميصه قال جابر وصلى عليه
   سنن النسائى الصغرى2021جابر بن عبد اللهأمر به فأخرج فوضعه على ركبتيه نفث عليه من ريقه ألبسه قميصه
   سنن ابن ماجه1524جابر بن عبد اللهصلى عليه كفنه في قميصه قام على قبره أنزل الله ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره
   مسندالحميدي1284جابر بن عبد اللهفأمر به، فأخرج، فوضعه على ركبتيه، فألبسه قميصه، ونفث عليه من ريقه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1524  
´اہل قبلہ کی نماز جنازہ ادا کرنا۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ منافقین کا سردار (عبداللہ بن ابی) مدینہ میں مر گیا، اس نے وصیت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھیں، اور اس کو اپنی قمیص میں کفنائیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، اور اسے اپنے کرتے میں کفنایا، اور اس کی قبر پہ کھڑے ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره» منافقوں میں سے جو کوئی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں، اور اس کی قبر پہ مت کھڑے ہوں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1524]
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف اور معناً صحیح قراردیا ہے۔
جبکہ دیگر محققین نے اس کی بابت لکھا ہے کہ اس روایت میں وصیت کا تذکرہ منکر ہے اس کے علاوہ باقی حدیث صحیح ہے جیسا کہ گزشتہ حدیث میں بھی اس کا تذکرہ ہے تفصیل کےلئے دیکھئے: (سنن ابن ماجه للدکتور بشار عواد، حدیث: 1524، وأحکام الجنائز، ص: 160)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1524   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1270  
1270. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ عبداللہ بن ابی منافق کے دفن ہونے کے بعد تشریف لائے، اسے قبر سے باہر نکالا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب ڈالا اور اسے اپنی قمیص پہنائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1270]
حدیث حاشیہ:
عبد اللہ بن ابی مشہور منافق ہے جو جنگ احد کے موقع پر راستے میں سے کتنے ہی سادہ لوح مسلمانوں کو بہکا کر واپس لے آیا تھا اور اسی نے ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ ہم مدنی اور شریف لوگ ہیں اور یہ مہاجر مسلمان ذلیل پردیسی ہیں۔
ہمارا داؤ لگے گا تو ہم ان کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔
اس کا بیٹا عبداللہ سچا مسلمان صحابی رسول تھا۔
آپ ﷺ نے ان کی دل شکنی گوارا نہیں کی اور ازراہ کرم اپنا کرتہ اس کے کفن کے لیے عنایت فرمایا۔
بعضوں نے کہا کہ جنگ بدر میں جب حضرت عباس ؓ قید ہو کر آئے تو وہ ننگے تھے۔
ان کا یہ حال زاردیکھ کر اسی عبداللہ بن ابی نے اپنا کرتا ان کو پہنادیا تھا۔
آنحضرت ﷺ نے اس کا بدلہ ادا کردیا کہ یہ احسان باقی نہ رہے۔
ان منافق لوگوں کے بارے میں پہلی آیت ﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُم﴾ (التوبة: 80)
نازل ہوئی تھی۔
اس آیت سے حضرت عمر ؓ سمجھے کہ ان پر نماز پڑھنا منع ہے۔
آنحضرت ﷺ نے ان کو سمجھایا کہ اس آیت میں مجھ کو اختیار دیا گیا ہے۔
تب حضرت عمر ؓ خاموش رہے۔
بعد میں آیت ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم﴾ (التوبة: 84)
نازل ہوئی۔
جس میں آپ ﷺ کو اللہ نے منافقوں پر نماز جنازہ پڑھنے سے قطعاً روک دیا۔
پہلی اور دوسری روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ پہلے آپ ﷺ نے کرتہ دینے کا وعدہ فرمادیا تھا پھر عبداللہ کے عزیزوں نے آپ ﷺ کو تکلیف دینا مناسب نہ جانا اور عبداللہ کا جنازہ تیار کرکے قبر میں اتاردیا کہ آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے اور آپ ﷺ نے وہ کیا جو روایت میں مذکور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1270   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1270  
1270. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ عبداللہ بن ابی منافق کے دفن ہونے کے بعد تشریف لائے، اسے قبر سے باہر نکالا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب ڈالا اور اسے اپنی قمیص پہنائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1270]
حدیث حاشیہ:

ابن سیرین کا موقف ہے کہ کفن قمیص کی طرح سلا ہوا ہونا چاہیے اور اس کے بٹن وغیرہ لگے ہوئے ہوں۔
امام بخاری ؒ اس موقف کی تردید فرماتے ہیں کہ کفن کے لیے اس قسم کی پابندی ناروا ہے۔
اس کے لیے تین سپاٹ چادریں بھی ہو سکتی ہیں اور دو چادریں بھی ہو سکتی ہیں اور دو چادریں اور ایک قمیص، خواہ سلی ہو یا اَن سلی وہ بھی کافی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی منافق کو سلی ہوئی قمیص پہنائی جو کفن کے طور پر تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو اپنی قمیص کیوں پہنائی؟ علامہ عینی ؒ نے اس کی تین وجوہات لکھی ہیں:
٭ رسول اللہ ﷺ نے رئیس المنافقین کے مومن بیٹے عبداللہ بن عبداللہ ؓ کے اکرام کے پیش نظر اسے اپنی قمیص پہنائی۔
٭ اس کے قبیلے کی دل جوئی مقصود تھی، چنانچہ آپ کے اس خلق کریم کے باعث قبیلہ خزرج کے ایک ہزار اشخاص مسلمان ہو گئے۔
حضرت عباس ؓ جب غزوہ بدر میں قیدی بن کر آئے تو ان کے گلے میں قمیص نہ تھی۔
چونکہ وہ طویل القامت تھے، اس لیے عبداللہ بن ابی نے اپنی قمیص پہنائی کیونکہ وہ طویل القامت تھا۔
اس احسان کا بدلہ چکانے کے لیے آپ نے اسے قمیص پہنائی۔
(عمدة القاري: 75/6)
والله أعلم۔
(2)
سیاق حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے پیش نظر درج ذیل آیت کریمہ تھی:
﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ﴾ آپ ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں (فرق نہیں پڑے گا)
۔
اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی دعائے مغفرت کریں تو بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔
(التوبة: 80/9)
انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع کر دیا ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کے موقف سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں ممانعت کی صراحت نہیں بلکہ جنازہ پڑھنے اور نہ پڑھنے میں اختیار ہے، اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مجھے دو باتوں کا اختیار دیا گیا ہے، اس لیے ستر سے زیادہ مرتبہ دعا کے بعد بخشش کی امید کی جا سکتی ہے۔
اس کے بعد صراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا﴾ ان کے لیے بخشش طلب کرنے سے منع فرما دیا جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔
(فتح الباري: 178/3) (3)
امام بخاری ؒ کی پیش کردہ پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ کو اپنی قمیص عطا فرمائی تاکہ وہ اپنے باپ کو پہنا دے، لیکن حدیث جابر سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے قبر سے نکلوا کر خود قمیص پہنائی۔
ان دونوں احادیث میں کوئی تضاد نہیں۔
جہاں قمیص دینے کا ذکر ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ نبی ﷺ نے عبداللہ بن ابی کے بیٹے سے وعدہ کیا تھا کہ آپ اسے قمیص دیں گے اور اس وعدے پر دینے کا اطلاق مجازی طور پر ہے، کیونکہ آپ نے حتمی طور پر قمیص عطا فرمانی تھی، اس لیے تحقق وقوع کے اعتبار سے "أعطاہ" فرمایا اور عملا خود اسے پہنائی جس کا ذکر حدیث جابر میں ہے۔
(فتح الباري: 178/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1270   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.