الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
The Book of the Merits of the Companions
2. باب مِنْ فَضَائِلِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:
2. باب: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بزرگی کا بیان۔
حدیث نمبر: 6187
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سعيد بن عمرو الاشعثي ، وابو الربيع العتكي ، وابو كريب محمد بن العلاء ، واللفظ لابي كريب، قال ابو الربيع: حدثنا، وقال الآخران: اخبرنا ابن المبارك ، عن عمر بن سعيد بن ابي حسين ، عن ابن ابي مليكة ، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: " وضع عمر بن الخطاب على سريره، فتكنفه الناس يدعون، ويثنون، ويصلون عليه قبل ان يرفع وانا فيهم، قال: فلم يرعني إلا برجل قد اخذ بمنكبي من ورائي، فالتفت إليه، فإذا هو علي فترحم على عمر، وقال: ما خلفت احدا احب إلي ان القى الله بمثل عمله منك، وايم الله إن كنت لاظن ان يجعلك الله مع صاحبيك، وذاك اني كنت اكثر اسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: جئت انا وابو بكر، وعمر، ودخلت انا وابو بكر، وعمر، وخرجت انا وابو بكر، وعمر، فإن كنت لارجو او لاظن ان يجعلك الله معهما ".حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَ أَبُو الرَّبِيعِ: حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: " وُضِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَى سَرِيرِهِ، فَتَكَنَّفَهُ النَّاسُ يَدْعُونَ، وَيُثْنُونَ، وَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ، قَالَ: فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا بِرَجُلٍ قَدْ أَخَذَ بِمَنْكِبِي مِنْ وَرَائِي، فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ، وَقَالَ: مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ، وَذَاكَ أَنِّي كُنْتُ أُكَثِّرُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: جِئْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَإِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَوْ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَهُمَا ".
ابن مبارک نے عمر بن سعید بن ابو حسین سے، انھوں نے ابن ابی ملیکہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہو ئے سنا، جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (کے جسد خاکی) کو چار پائی پر رکھا گیا تو (جنازہ) اٹھا نے سے پہلے لوگوں نے چاروں طرف سے ان کو گھیر لیا۔وہ دعائیں کر رہے تھے تعریف کر رہے تھے دعائے رحمت کر رہے تھے۔میں بھی ان میں شامل تھا تو مجھے اچانک کسی ایسے شخص نے چونکا دیا جس نے پیچھے سے (آکر) میرا کندھا تھا ما۔میں نے مڑ کر دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا: آپ نے کوئی ایسا آدمی پیچھے نہ چھوڑا جو آپ سے بڑھ کر اس بات میں مجھے محبوب ہو کہ میں اللہ سے اس کے جیسے عملوں کے ساتھ ملوں۔اللہ کی قسم!مجھے۔ہمیشہ سے یہ یقین تھا کہ اللہ تعا لیٰ آپ کو اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میں اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناکرتا تھا، آپ فرمایا کرتے تھے، "میں ابو بکر اور عمر آئے۔میں ابو بکر اور عمر اندر گئے، میں ابو بکر اور عمر باہر نکلے۔"مجھے امید تھی بلکہ مجھے ہمیشہ سے یقین رہا کہ اللہ آپ کو ان دونوں کے ساتھ رکھے گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کے جسد خاکی)کو چار پائی پر رکھا گیا تو (جنازہ)اٹھا نے سے پہلے لوگوں نے چاروں طرف سے ان کو گھیر لیا۔وہ دعائیں کر رہے تھے تعریف کر رہے تھے دعائے رحمت کر رہے تھے۔میں بھی ان میں شامل تھا تو مجھے اچانک کسی ایسے شخص نے چونکا دیا جس نے پیچھے سے (آکر) میرا کندھا تھا۔میں نے مڑ کر دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا: آپ نے کو ئی ایسا آدمی پیچھے نہ چھوڑا جو آپ سے بڑھ کر اس بات میں مجھے محبوب ہو کہ میں اللہ سے اس کے جیسے عملوں کے ساتھ ملوں۔اللہ کی قسم!مجھے۔ہمیشہ سے یہ یقین تھا کہ اللہ تعا لیٰ آپ کو اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میں اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناکرتا تھا،آپ فر یا کرتے تھے، "میں ابو بکر اور عمر آئے۔میں ابو بکر اور عمر اندر گئے،میں ابو بکر اور عمر باہر نکلے۔"مجھے امید تھی بلکہ مجھے ہمیشہ سے یقین رہا کہ اللہ آپ کو ان دونوں کے ساتھ رکھے گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2389
   صحيح البخاري3677عبد الله بن عباسكنت وأبو بكر وعمر وفعلت وأبو بكر وعمر وانطلقت وأبو بكر وعمر فإن كنت لأرجو أن يجعلك الله معهما فالتفت فإذا هو علي بن أبي طالب
   صحيح البخاري3685عبد الله بن عباسذهبت أنا وأبو بكر وعمر ودخلت أنا وأبو بكر وعمر وخرجت أنا وأبو بكر وعمر
   صحيح مسلم6187عبد الله بن عباسجئت أنا وأبو بكر وعمر ودخلت أنا وأبو بكر وعمر وخرجت أنا وأبو بكر وعمر
   سنن ابن ماجه98عبد الله بن عباسذهبت أنا وأبو بكر وعمر ودخلت أنا وأبو بكر وعمر وخرجت أنا وأبو بكر وعمر فكنت أظن ليجعلنك الله مع صاحبيك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث98  
´صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو (وفات کے بعد) ان کی چارپائی پہ لٹایا گیا تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا، اور دعا کرنے لگے، یا کہا: تعریف کرنے لگے، اور جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے دعا کرنے لگے، میں بھی انہیں میں تھا، تو مجھے صرف اس شخص نے خوف زدہ کیا جو لوگوں کو دھکا دے کر میرے پاس آیا، اور میرا کندھا پکڑ لیا، میں متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے کہا: اللہ عمر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، پھر بولے: میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 98]
اردو حاشہ:
(1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بہت مقام تھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملے میں ان دونوں حضرات (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما)
کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔

(2)
حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت شیخین رضی اللہ عنہما کو اپنے سے افضل سمجھتے تھے، اس لیے تمنا کرتے تھے کہ کاش ان جیسے اعمال کی توفیق ملے۔

(3)
نیکی کے کاموں میں اپنے سے افضل شخصیت کے اتباع کی کوشش کرنا مستحسن عمل ہے، البتہ دنیا کے مال و دولت میں یا برے کاموں میں اپنے سے آگے بڑھے ہوئے شخص پر رشک کرنا درست نہیں۔

(4)
رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کے شیخین کو اکثر ساتھ رکھنے اور ان کا تذکرہ کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا تمام صحابہ سے بڑھ کر مرتبہ و مقام تھا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 98   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.