الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جنت اس کی نعمتیں اور اہل جنت
The Book of Paradise, its Description, its Bounties and its Inhabitants
17. باب عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَيِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَيْهِ وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ:
17. باب: مردے کو اس کا ٹھکانہ بتلائے جانے اور قبر کے عذاب کا بیان۔
حدیث نمبر: 7221
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا بديل ، عن عبد الله بن شقيق ، عن ابي هريرة ، قال: " إذا خرجت روح المؤمن تلقاها ملكان يصعدانها، قال حماد: فذكر من طيب ريحها، وذكر المسك، قال: ويقول: اهل السماء روح طيبة جاءت من قبل الارض صلى الله عليك وعلى جسد كنت تعمرينه، فينطلق به إلى ربه عز وجل، ثم يقول: انطلقوا به إلى آخر الاجل، قال: وإن الكافر إذا خرجت روحه، قال حماد، وذكر من نتنها، وذكر لعنا، ويقول اهل السماء: روح خبيثة جاءت من قبل الارض، قال: فيقال: انطلقوا به إلى آخر الاجل "، قال ابو هريرة: فرد رسول الله صلى الله عليه وسلم ريطة كانت عليه على انفه هكذا.حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَكَانِ يُصْعِدَانِهَا، قَالَ حَمَّادٌ: فَذَكَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا، وَذَكَرَ الْمِسْكَ، قَالَ: وَيَقُولُ: أَهْلُ السَّمَاءِ رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكِ وَعَلَى جَسَدٍ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يَقُولُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ، قَالَ: وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ، قَالَ حَمَّادٌ، وَذَكَرَ مِنْ نَتْنِهَا، وَذَكَرَ لَعْنًا، وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَاءِ: رُوحٌ خَبِيثَةٌ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ، قَالَ: فَيُقَالُ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى آخِرِ الْأَجَلِ "، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً كَانَتْ عَلَيْهِ عَلَى أَنْفِهِ هَكَذَا.
مجھے عبید اللہ بن عمر قواریری نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں حماد بن زید نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا: ہمیں بدیل نے عبد اللہ بن شقیق سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: "جب مومن کی روح نکل جاتی ہے تو وہ فرشتے اس (روح) کو لیتے ہیں اور اسے اوپر کی طرف لے جاتے ہیں۔"حماد نے کہا: انھوں نے اس کی خوشبو کا ذکر کیا اور کستوری کی بات کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آسمان والے کہتے ہیں۔یہ ایک پاکیزہ روح ہے زمین والوں کی طرف سے آئی ہے (اے روح مومن!) تجھ پر اور اس جسم پر جسے تونے آباد کیے رکھا اللہ کی رحمت ہو۔ چنانچہ اسے اس کے رب عزوجل کے پاس لے جایا جاتا ہے پھر وہ فرماتا ہے۔اسے مقررشدہ آخری مدت تک کے لیے (عالی شان ٹھکانے پر) لے جاؤ۔" فرمایا: "اور کافرجب اس کی روح نکلتی ہے۔ حماد نے کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بدبو اور (اس پر کی جانے والی) لعنتوں کا ذکر کیا۔ اور آسمان والے کہتے ہیں۔گندی روح ہے زمین کی طرف سے آئی ہے فرمایا: تو کہاجاتا ہے اسے مقرر شدہ آخری مدت تک کے لیے (برےٹھکانے) پر لے جاؤ۔"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر جو آپ کے جسم مبارک پر تھی اس طرح موڑ کر اپنی ناک پر رکھی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا:"جب مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اس کو وصول کر کے اسے اوپر لے جاتے ہیں۔"حماد کہتے ہیں،آپ نے روح کی خوشبو اور مشک کا ذکر کیا آپ نے فرمایا:" آسمان والے کہتے ہیں پاکیزہ روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے، اللہ تجھ پر رحمت فرمائے اور اس بدن پر بھی جسے تو آباد کیے ہوئے تھی، پھر اسے اس کے رب عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہےپھر وہ فرماتا ہے اسے وقت مقررہ (برزخ) تک کے لیے لے جاؤ، آپ نے فرمایا:"اور کافر جب اس کی روح نکلتی ہے۔حماد کہتے ہیں، آپ نے اس کی بد بو اور لعنت کا ذکر کیا اور آسمان والے کہتے ہیں پلید روح زمین کی طرف سے آئی ہے سو کہا جاتا ہے اس کو آخر مدت کے لیے(سجین)لے جاؤ۔"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(بدبو کے ذکر پر) اپنی چادر کا پلو اس طرح اپنی ناک پر ڈال لیا۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2872
   سنن النسائى الصغرى1834عبد الرحمن بن صخرإذا حضر المؤمن أتته ملائكة الرحمة بحريرة بيضاء فيقولون اخرجي راضية مرضيا عنك إلى روح الله وريحان ورب غير غضبان فتخرج كأطيب ريح المسك حتى أنه ليناوله بعضهم بعضا حتى يأتون به باب السماء فيقولون ما أطيب هذه الريح التي جاءتكم من الأرض فيأتون به أرواح المؤمن
   صحيح مسلم7221عبد الرحمن بن صخرإذا خرجت روح المؤمن تلقاها ملكان يصعدانها ويقول أهل السماء روح طيبة جاءت من قبل الأرض صلى الله عليك وعلى جسد كنت تعمرينه فينطلق به إلى ربه ثم يقول انطلقوا به إلى آخر الأجل قال وإن الكافر إذا خرجت روحه
   سنن ابن ماجه4262عبد الرحمن بن صخرالميت تحضره الملائكة فإذا كان الرجل صالحا قالوا اخرجي أيتها النفس الطيبة كانت في الجسد الطيب اخرجي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيفتح لها فيقال من هذا فيقولون فلان فيقال مرحبا بالنفس الطيبة
   مشكوة المصابيح139عبد الرحمن بن صخرإن الميت يصير إلى القبر فيجلس الرجل الصالح في قبره غير فزع ولا مشعوف ثم يقال له فيم كنت فيقول كنت في الإسلام
   سنن ابن ماجه4268عبد الرحمن بن صخرالميت يصير إلى القبر فيجلس الرجل الصالح في قبره غير فزع ولا مشعوف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 139  
´قبر کے اندرونی مناظر`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ فَيَجْلِسُ الرَّجُلُ الصَّالح فِي قَبره غير فزع وَلَا مشعوف ثمَّ يُقَال لَهُ فِيمَ كُنْتَ فَيَقُولُ كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ فَيُقَالُ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ فَيُقَالُ لَهُ هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ فَيَقُولُ مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةً قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يُحَطِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ ثمَّ يفرج لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا فَيُقَال لَهُ هَذَا مَقْعَدك وَيُقَال لَهُ عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ وَعَلَيْهِ مِتَّ وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِن شَاءَ الله وَيجْلس الرجل السوء فِي قَبره فَزعًا مشعوفا فَيُقَال لَهُ فِيمَ كُنْتَ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي فَيُقَالُ لَهُ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قولا فقلته فيفرج لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْك ثمَّ يفرج لَهُ فُرْجَةً قِبَلَ النَّارِ فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يُحَطِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيُقَالُ لَهُ هَذَا مَقْعَدُكَ عَلَى الشَّك كنت وَعَلِيهِ مت وَعَلِيهِ تبْعَث إِن شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مردہ قبر میں پہنچ جاتا ہے تو اگر وہ مومن ہے تو قبر میں اطمینان کے ساتھ اٹھ بیٹھتا ہے نہ وہ خوف زدہ ہوتا ہے اور نہ کوئی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ پھر اس سے دریافت کیا جاتا ہے تو کس دین میں تھا؟ تو وہ جواب دیتا ہے میں مذہب اسلام کا پابند تھا۔ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے ان صاحب کے بارے میں تم کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتا ہے وہ محمد جو اللہ کے رسول ہیں اور اللہ کے پاس سے ہمارے پاس کھلی کھلی دلیلیں لے کر آئے ہم نے ان کی تصدیق کی۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کیا تم نے اللہ کو دیکھا ہے؟ وہ کہتا ہے دنیا میں کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ پھر اس کے بعد دوزخ کی طرف کھڑکی کھول دی جاتی ہے وہ اسے دیکھتا ہے کہ آگ کے بعض حصے بعض حصے کو توڑتے ہیں۔ یعنی آگ کے شعلوں کو اس طرح بڑھکتا ہوا دیکھتا ہے کہ ایک کی لپٹ دوسرے کو کھا رہی ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے اس دوزخ کی آگ کو دیکھو اللہ تعالیٰ نے تم کو اس سے بچا لیا ہے (اب دوزخ میں تم نہیں داخل ہو گے)۔ پھر جنت کی طرف ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے وہ جنت کی چیزوں اور اس کی تروتازگی و خوبصورتی و رونق کو دیکھتا ہے اس سے کہا جاتا ہے یہی تیرا ٹھکانہ ہے۔ اسی وجہ سے کہ تو یقینی ایمان پر تھا اور اسی پر مرا ہے اور اسی پر اگر اللہ نے چاہا تو اٹھایا جائے گا۔ اور برا آدمی قبر میں گھبرایا ہوا، پر یشان، خوف زدہ ہو کر اٹھ بیٹھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے تو کس دین میں تھا؟ یعنی تیرا کیا دین تھا؟ وہ جواب دیتا ہے میں نہیں جانتا، پھر اس سے کہا جاتا ہے ان کے بارے میں تم کیا کہتے تھے جو تمہارے پاس بھیجے گئے تھے؟ وہ جواب دیتا ہے جو لوگوں کو کہتے ہوئے سنتا تھا وہی میں کہتا تھا۔ تو اس کے لیے جنت کی طرف کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور اس کی چیزوں اور اسی کی تروتازگی و خوبصورتی کو دیکھتا ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے اس جنت کو دیکھو جس سے اللہ نے تم کو پھیر لیا ہے اب تم جنت میں نہیں داخل ہو سکتے۔ پھر اس کے لیے دوزخ کی طرف کھڑکی کھول دی جاتی ہے تو وہ جہنم کو دیکھتا ہے کہ اس سے بعض شعلے بعض کو کھائے جا رہے ہیں۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے یہی دوزخ تیرا ٹھکانا ہے تو دنیا میں شک ہی پر تھا اور اسی شک پر تو مرا ہے اور اللہ نے چاہا تو قیامت کے دن اسی شک پر اٹھایا جائے گا۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 139]

تحقیق الحدیث:
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
اسے محدث بوصیری نے بھی صحیح کہا ہے۔

فقہ الحدیث:
➊ قبر میں برزخی اعادۂ روح برحق ہے۔
➋ دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو حالت بیداری میں نہیں دیکھ سکتا۔
➌ تقلید جائز نہیں ہے۔
➍ خبیث روح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے۔
➎ عذاب قبر برحق ہے اس کے لئے جو عذاب کا مستحق ہے اور اہلِ ایمان کے لئے اللہ کے فضل و کرم سے ثواب قبر (قبر کی نعمتیں) برحق ہے۔
➏ اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ «كما يليق بجلاله و شانه»
➐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واضح نشانیاں لے کر آئے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 139   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4262  
´موت کی یاد اور اس کی تیاری کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں، اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتے ہیں: نکل اے پاک جان! جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، نکل، تو لائق تعریف ہے، اور خوش ہو جا، اللہ کی رحمت و ریحان (خوشبو) سے اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناراض نہیں ہے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل پڑتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کر لے جایا جاتا ہے، اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے: خوش آمدید! پاک جان جو کہ ایک پاک ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4262]
اردو حاشہ:
فوائدو مسائل:

(1)
فرشتے اللہ کی مقدس مخلوق ہیں۔
جو اللہ کے حکم سے مختلف فرائض انجام دیتے ہیں۔

(2)
انسانوں کی روح قبض کرنے کےلئے بھی فرشتے مقرر ہیں۔
جن کا سردار وہ ہے جس حدیث میں ملک الموت (موت کافرشتہ)
کہا گیا ہے۔
اور عوام میں اس کا نام عزرائیل مشہور ہے۔

(3)
فرشتے قریب الوفات آدمی کے پاس آکر اسے مخاطب کرتے ہیں۔
اس وقت وہ انھیں دیکھتا اور ان کی باتیں سنتا ہے۔
لیکن دوسرے انسان انھیں نہیں دیکھ سکتے۔
اور نہ ہی ان کی بات ہی سن سکتے ہیں۔

(3)
روح ایک غیر مادی وجود ہے۔
جس کی موجودگی میں جسم زندہ کہلاتا ہے۔
لیکن فرشتے اسے نکالتے، پکڑتے، اس سے بات کرتے اور بُرے انسان کی روح کو سزا بھی دیتے ہیں۔

(4)
آسمان ایک ٹھوس وجودہے۔
جس کے دروازے ہیں جو بند ہوتے ہیں اور کھلتے ہیں۔
اور فرشتے ان سے آتے جاتے ہیں۔

(5)
نیک روح کو آسمان پر لے جایاجاتا ہے۔
اوراس کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔
جب کہ بری روح کو آسمان تک لے جایا جاتا ہے۔
لیکن اسے اوپر جانے کی اجازت نہیں ملتی۔

(6)
قبر کا عذاب بھی ان غیبی معاملات میں شامل ہے۔
جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
اگرچہ موجودہ جسمانی حواس کے ساخت اس کا ادراک ممکن نہیں مومن کے لئے راحت بھی اسی قبیل سے ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4262   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7221  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ہر انسان کی دو اجلیں ہیں،
ایک دنیا میں،
اجل موت،
دوسری موت کے بعد،
برزخی،
اجل،
جس کے بعد حساب کتاب کے لیے اٹھایا جائے گا،
اس کے نتیجہ میں انسان جنت یا دوزخ میں داخل ہو گا۔
اس حدیث میں مومن اور کافر انسان کی روح کی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے اور ان کے ٹھکانے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 7221   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.