الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طہارت کے مسائل
Purification (Kitab Al-Taharah)
37. باب الْوُضُوءِ بِسُؤْرِ الْكَلْبِ
37. باب: کتے کے جھوٹے سے وضو کے حکم کا بیان۔
Chapter: Wudu’ From The Water Left (In A Container) After A Dog Has Drunk From It.
حدیث نمبر: 72
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا مسدد، حدثنا المعتمر يعني ابن سليمان. ح وحدثنا محمد بن عبيد، حدثنا حماد بن زيد، جميعا عن ايوب، عن محمد، عن ابي هريرة، بمعناه ولم يرفعاه، وزاد: وإذا ولغ الهر غسل مرة.
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، جَمِيعًا عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، بِمَعْنَاهُ وَلَمْ يَرْفَعَاهُ، وَزَادَ: وَإِذَا وَلَغَ الْهِرُّ غُسِلَ مَرَّةً.
محمد (ابن سیرین) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں، لیکن ان دونوں (حماد بن زید اور معتمر) نے اس حدیث کو مرفوعاً نقل نہیں کیا ہے، اور اس میں اتنا اضافہ ہے کہ: جب بلی کسی برتن میں منہ ڈال دے تو ایک بار دھویا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏حدیث محمد بن عبید تفرد بہ أبو داود، تحفة الأشراف (14426)، وحدیث مسدد أخرجہ: سنن الترمذی/الطہارة 68 (91)، تحفة الأشراف(14426،14451)، وقد أخرجہ:حم (2/489) (صحیح)» ‏‏‏‏

A similar tradition has been transmitted by Abu Hurairah through a different chain of narrators. But this version has been narrated as a statement of Abu Hurairah himself and not attributed to the Prophet ﷺ. The version has the addition of the words: "If the cat licks (a utensil), it should be washed once. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 72


قال الشيخ الألباني: صحيح موقوف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
   صحيح البخاري172عبد الرحمن بن صخرإذا شرب الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبعا
   صحيح مسلم652عبد الرحمن بن صخرطهور إناء أحدكم إذا ولغ الكلب فيه أن يغسله سبع مرات
   صحيح مسلم648عبد الرحمن بن صخرولغ الكلب في إناء أحدكم فليرقه ثم ليغسله سبع مرار
   صحيح مسلم651عبد الرحمن بن صخرطهور إناء أحدكم إذا ولغ فيه الكلب أن يغسله سبع مرات أولاهن بالتراب
   صحيح مسلم650عبد الرحمن بن صخرشرب الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبع مرات
   جامع الترمذي91عبد الرحمن بن صخريغسل الإناء إذا ولغ فيه الكلب سبع مرات أولاهن أو أخراهن بالتراب وإذا ولغت فيه الهرة غسل مرة
   سنن أبي داود73عبد الرحمن بن صخرإذا ولغ الكلب في الإناء فاغسلوه سبع مرات السابعة بالتراب
   سنن أبي داود71عبد الرحمن بن صخرطهور إناء أحدكم إذا ولغ فيه الكلب أن يغسل سبع مرار أولاهن بتراب
   سنن النسائى الصغرى340عبد الرحمن بن صخرإذا ولغ الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبع مرات أولاهن بالتراب
   سنن النسائى الصغرى336عبد الرحمن بن صخرإذا ولغ الكلب في إناء أحدكم فليرقه ثم ليغسله سبع مرات
   سنن النسائى الصغرى63عبد الرحمن بن صخرإذا شرب الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبع مرات
   سنن النسائى الصغرى339عبد الرحمن بن صخرإذا ولغ الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبع مرات أولاهن بالتراب
   سنن النسائى الصغرى66عبد الرحمن بن صخرإذا ولغ الكلب في إناء أحدكم فليرقه ثم ليغسله سبع مرات
   سنن النسائى الصغرى64عبد الرحمن بن صخرإذا ولغ الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبع مرات
   سنن ابن ماجه364عبد الرحمن بن صخرإذا شرب الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبع مرات
   سنن ابن ماجه363عبد الرحمن بن صخرإذا ولغ الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبع مرات
   بلوغ المرام8عبد الرحمن بن صخرطهور إناء احدكم إذا ولغ فيه الكلب ان يغسله سبع مرات،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اولاهن بالتراب
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم31عبد الرحمن بن صخرإذا شرب الكلب فى إناء احدكم فليغسله سبع مرات
   سنن أبي داود72عبد الرحمن بن صخروإذا ولغ الهر غسل مرة
   المعجم الصغير للطبراني104عبد الرحمن بن صخر إذا ولغ الكلب فى إناء أحدكم ، فليغسله بالماء سبع مرات
   المعجم الصغير للطبراني138عبد الرحمن بن صخر طهور إناء أحدكم إذا ولغ فيه الكلب أن يغسله سبع مرات
   مسندالحميدي997عبد الرحمن بن صخرإذا ولغ الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبع مرات

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 72  
´بلی کے منہ مارنے سے ایک بار دھونا`
«. . . وإذا ولغ الهر غسل مرة . . .»
. . . جب بلی کسی برتن میں منہ ڈال دے تو ایک بار دھویا جائے گا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 72]
فوائد و مسائل:
برتن میں منہ مارنے سے مراد یہ ہے کہ کتا زبان سے کچھ پئیے یا چاٹے۔
➋ کتے کے لعاب کے نجس ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور اس سے امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے یہ استنباط کیا ہے کہ اس کے جوٹھے سے وضو نہیں ہو سکتا۔
➌ معلومہ ہوا کہ تھوڑا پانی «ماء قليل» نجس ہو جاتا ہے خواہ ظاہر میں اس کی کوئی صفت تبدیل ہوئی ہو یا نہ ہو۔
بلی کے منہ مارنے سے ایک بار دھونے کا جملہ اس روایت میں مدرج ہے اور صحیح یہ ہے کہ اس کا جوٹھا پاک ہے جیسے کہ اگلے باب میں ذکر آ رہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 72   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 172  
«ولعاب كلب»
اور کتے کا لعاب (نجس ہے)۔
➊ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إذا ولغ الكلب فى إناء أحدكم فليرقه ثم ليغسله سبع مرات أولاهن بالتراب»
جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال جائے تو اسے (یعنی پانی کو) بہا دینا چاہیے اور برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیے البتہ پہلی مرتبہ مٹی کے ساتھ دھویا جائے۔ [بخاري 172]
اور جامع ترمذی میں یہ لفظ ہیں «وأخراهن أو أولاهنه» آخری مرتبہ یا پہلی مرتبہ (مٹی کے ساتھ دھویا جائے)۔ [ترمذي 91] ۱؎

کتا بذات خود اور اس کا لعاب نجس ہے یا نہیں اس میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(شافعیہ، حنابلہ) کتا اور اس سے خارج ہونے والی ہر چیز مثلاًً اس کا لعاب اور پسینہ وغیرہ سب نجس ہے (ان کی دلیل گزشتہ حدیث ہے)۔ [المغني 52/1] ۲؎
(مالکیہ) نہ تو کتا بذات خود نجس ہے اور نہ ہی اس کا لعاب۔ اور جس برتن میں کتا منہ ڈال جائے اسے دھونے کا حکم تعبدی ہے نہ کہ نجاست کی وجہ ہے۔ [المغني 52/1] ۳؎
(احناف) صرف کتے کا منہ، اس کا لعاب اور اس کا پاخانہ وغیرہ نجس ہے، کتا بذات خود نجس نہیں کیونکہ اس سے پہرے اور شکار کا کام لیا جاتا ہے۔ [بدائع الصنائع 63/1] ۴؎
(جمہور فقہاء) کتے کا لعاب گزشتہ حدیث کی بنا پر نجس ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اس کا منہ بھی نجس ہے کیونکہ لعاب منہ کا ایک جز ہے اور جب جسم کا سب سے اشرف جز (منہ) نجس ہے تو بقیہ جسم کا نجس ہونا تو بالاولیٰ ضروری ہے۔ [المحموع للنووي 567/2] ۵؎
(ابن تیمیہ اللہ رحمہ اللہ) کتے کا لعاب نص کی وجہ سے نجس ہے اور اس کے بقیہ تمام اجزا قیاس کی وجہ سے نجس ہیں البتہ اس کے بال پاک ہیں۔ [مجموع الفتاوي 216/21 -220]
(شوکانی رحمہ اللہ) حدیث کی وجہ سے صرف کتے کا لعاب نجس ہے۔ علاوہ ازیں اس کی بقیہ مکمل ذات (یعنی گوشت، ہڈیاں، خون، بال اور پسینہ وغیرہ) پاک ہے کیونکہ اصل طہارت ہے اور اس کی ذات کی نجاست کے متعلق کوئی دلیل موجود نہیں۔ [السيل الحرار 37/1] ۶؎
(راجح) امام شوکانی رحمہ اللہ کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)

جس برتن میں کتا منہ ڈال جائے اسے سات مرتبہ دھونا
جس برتن میں کتا منہ ڈال جائے اسے سات مرتبہ دھونا واجب ہے جیسا کہ گزشتہ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم موجود ہے۔ [بخاري 172]
(احمد رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ، ما لک رحمہ اللہ) اسی کے قائل ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت عروہ رضی اللہ عنہ، امام ابن سیرین، امام طاوس، امام عمرو بن دینار، امام اوزاعی، امام اسحاق، امام ابوثور، امام ابوعبید، امام داود وغیرہ رحمہم اللہ اجمعین سب کا اسی طرف میلان و رجحان ہے۔
(احناف) سات مرتبہ دھونا مستحب ہے اور اگر تین مرتبہ ہی دھو لیا جائے تو کافی ہے۔ [الدر المختار 303/1] ۷؎
➊ ان کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے:
«ثم اغسله ثلاث مرات»
پھر برتن کو تین مرتبہ دھو لو۔ [دارقطني 83/1، كتاب الطهارة: بأب و لوغ الكلب فى الإناء]
یعنی راوی حدیث کا عمل اپنی ہی روایت کردہ مرفوع حدیث کے مخالف ہے لہٰذا اس پر عمل کرنا واجب نہیں۔
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی بات قبول نہیں کی جائے گی، نیز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سات مرتبہ دھونے کا فتوی بھی منقول ہے۔ [نيل الأوطار 76/1] ۸؎
➋ احناف کا مستدل یہ بھی ہے کہ پاخانہ کتے کے جوٹھے سے زیادہ نجس ہے لیکن جب اسے سات مرتبہ دھونے کی قید نہیں لگائی گئی تو اس میں بالاولیٰ ضروری نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قیاس صریح نص کے مقابلے میں ہے لہٰذا اس کا اعتبار فاسد ہے۔ [تحفة الأحوذي 317/1] ۹؎
(علامیہ عینی رحمہ اللہ) انہوں نے بھی اس قیاس کو فاسد قرار دیا ہے۔ [عمدة القاري 340/2] ۹؎
خلاصہ کلام یہ ہے کہ برتن کو سات مرتبہ دھونا ہی واجب ہے جیسا کہ ابتدا میں حدیث بیان کر دی گئی ہے۔
------------------
۱؎ [بخاري 172، كتاب الوضوء: باب الماء الذى يغسل به شعر الإنسان . . .، مسلم 279، نسائي 63، شرح السنة 378/1، أحمد 427/2، أبو داود 71، ترمذي 91، شرح معاني الآثار 21/1، دارقطني 64/1، بيهقي 240/1، عبدالرزاق 330، ابن أبى شيبة 173/1، ابن خزيمة 90، ابن حبان 1297، مؤطا 34/1]
۲؎ [المغني 52/1، مغني المحتاج 78/1، كشاف القناع 208/1]
۳؎ [المنتقى للباحي 73/1، الشرح الصغير 43/1، الترح الكبير 83/1]
۴؎ [فتح القدير 64/1، رد المحتار لابن عابدين 192/1، بدائع الصنائع 63/1]
۵؎ [المحموع للنووي 567/2، الروض النضير 244/1]
۶؎ [المنتقى للباجي 73/1، السيل الحرار 37/1]
۷؎ [المغني 52/1، كشاف القناع 208/1، المجموع 188/1، بداية المجتهد 83/1، بدائع الصنائع 87/1، الدر المختار 303/1]
۸؎ [نيل الأوطار 76/1، سبل السلام 28/1]
۹؎ [فتح الباري 371/1، تحفة الأحوذي 317/1]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 146   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث363  
´جس برتن میں کتا منہ ڈال دے اس کے دھونے کا بیان۔`
ابورزین کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی پیشانی پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا: اے عراق والو! تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہوں تاکہ تم فائدے میں رہو اور میرے اوپر گناہ ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناً میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھوئے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 363]
اردو حاشہ:
(1)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کتے کا منہ اور اس کا لعاب ناپاک ہے جس سے پانی بھی ناپاک ہوجاتا ہے اوربرتن بھی، اس لیے حکم ہے کہ جس پانی میں کتا منہ ڈالے اسے گرا دیا جائے۔ دیکھیے: (صحيح مسلم، الطهارة، باب حكم ولوغ الكلب، حديث: 279)

(2)
جس برتن میں کتا منه ڈالے اسے سات بار دھونا ضروری ہے
(3)
اس کےعلاوہ اس برتن کو ایک مرتبہ مٹی سے مانجھنا بھی ضروری ہے۔
جیسے کہ صحیح حدیث کے مذکورہ بالا باب میں مذکور احادیث میں صراحت ہے۔
مٹی کا استعمال شروع میں بھی ہوسکتا ہے اور آخر میں بھی کونکہ ایک روایت میں ہے کہ (اُوْلَاهُنَّ بِالتُّرَابِ)
پہلی بار مٹی سے مل کر دھوؤ۔
اور ایک روایت میں ہے:
(عَفِّرُوْهُ الثَّامِنَةَ بِالتُّرَابِ)
اس کو آٹھویں بار مٹی سے مل کر دھوؤ۔
سات بار پانی سے دھونے کے ساتھ جب ایک بار مٹی استعمال کی جائے گی تو یہ مٹی کا استعمال گویا آٹھویں بار دھونا ہے۔

(4)
کتے کے لعاب میں باؤلا پن کے جراثیم ہوتے ہیں جو ایک بار دھونے سے ختم نہیں ہوتے۔
اس کے علاوہ مٹی میں جراثیم کش خاصیت پائی جاتی ہے، اس لیے شریعت نے کتے کے جوٹھے کے بارے میں خاص طور پر یہ حکم دیا ہے دوسرے جانوروں کے بارے میں نہیں دیا۔

(5)
حضرت ابو ہریرہ کا پیشانی میں ہاتھ مارنا افسوس اور تعجب کے لیے ہے کہ تم لوگوں کو میری بات پر یقین کیوں نہیں آتا؟ معلوم ہوتا ہے کہ اہل عراق میں شروع سے قابل احترام ہستیوں کا احترام کم تھا، اس لیے وہ مدینہ سے مقرر ہو کر جانے والے گورنروں پر بھی بے جا تنقید کرتے رہتے تھےاور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کو دارالحکومت بنایا تو انھیں بھی پریشان کرتے رہے۔
عراق ہی سے خوارج کا فتنہ شروع ہوا اور یہیں معتزلہ فرقہ پیدا ہوا۔

(6)
یہ روایت ہمارے محقق کے نزدیک سنداً ضعیف ہے جبکہ دیگر بہت سے محققین کے نزدیک صحیح ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 363   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 91  
´کتے کے جھوٹے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: برتن میں جب کتا منہ ڈال دے تو اسے سات بار دھویا جائے، پہلی بار یا آخری بار اسے مٹی سے دھویا جائے ۱؎، اور جب بلی منہ ڈالے تو اسے ایک بار دھویا جائے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 91]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا اور ایک بار مٹی سے دھونا واجب ہے یہی جمہور کا مسلک ہے،
احناف تین بار دھونے سے برتن کے پاک ہو نے کے قائل ہیں،
ان کی دلیل دارقطنی اور طحاوی میں منقول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے تین مرتبہ دھونا چاہئے،
حالانکہ ابوہریرہ سے سات بار دھونے کا بھی فتویٰ منقول ہے اور سند کے اعتبار سے یہ پہلے فتوے سے زیادہ صحیح ہے،
نیز یہ فتویٰ روایت کے موافق بھی ہے،
اس لیے یہ بات درست نہیں ہے کہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں ان کے مرجوح فتوے اور رائے کو ترجیح دی جائے،
رہے وہ اعتراضات جو باب کی اس حدیث پر احناف کی طرف سے وارد کئے گئے ہیں تو ان سب کے تشفی بخش جوابات دیئے جا چکے ہیں،
تفصیل کے لیے دیکھئے (تحفۃ الاحوذی،
ج1ص93)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 91   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.