الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
33. بَابُ الْعَرْضِ فِي الزَّكَاةِ:
33. باب: زکوٰۃ میں (چاندی سونے کے سوا اور) اسباب کا لینا۔
(33) Chapter. Zakat may be paid in kind (and not in cash).
حدیث نمبر: Q1448
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال طاوس , قال معاذ رضي الله عنه لاهل اليمن: ائتوني بعرض ثياب خميص او لبيس في الصدقة مكان الشعير , والذرة اهون عليكم وخير لاصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة وقال النبي صلى الله عليه وسلم: واما خالد فقد احتبس ادراعه واعتده في سبيل الله, وقال النبي صلى الله عليه وسلم: تصدقن ولو من حليكن فلم يستثن صدقة الفرض من غيرها فجعلت المراة تلقي خرصها وسخابها ولم يخص الذهب والفضة من العروض.وَقَالَ طَاوُسٌ , قَالَ مُعَاذٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِأَهْلِ الْيَمَنِ: ائْتُونِي بِعَرْضٍ ثِيَابٍ خَمِيصٍ أَوْ لَبِيسٍ فِي الصَّدَقَةِ مَكَانَ الشَّعِيرِ , وَالذُّرَةِ أَهْوَنُ عَلَيْكُمْ وَخَيْرٌ لِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأَمَّا خَالِدٌ فَقَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ, وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ فَلَمْ يَسْتَثْنِ صَدَقَةَ الْفَرْضِ مِنْ غَيْرِهَا فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي خُرْصَهَا وَسِخَابَهَا وَلَمْ يَخُصَّ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ مِنَ الْعُرُوضِ.
اور طاؤس نے بیان کیا کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے یمن والوں سے کہا تھا کہ مجھے تم صدقہ میں جو اور جوار کی جگہ سامان و اسباب یعنی خمیصہ (دھاری دار چادریں) یا دوسرے لباس دے سکتے ہو جس میں تمہارے لیے بھی آسانی ہو گی اور مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے لیے بھی بہتری ہو گی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خالد نے تو اپنی زرہیں اور ہتھیار اور گھوڑے سب اللہ کے راستے میں وقف کر دئیے ہیں۔ (اس لیے ان کے پاس کوئی ایسی چیز ہی نہیں جس پر زکوٰۃ واجب ہوتی۔ یہ حدیث کا ٹکڑا ہے وہ آئندہ تفصیل سے آئے گی) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عید کے دن عورتوں سے) فرمایا کہ صدقہ کرو خواہ تمہیں اپنے زیور ہی کیوں نہ دینے پڑ جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اسباب کا صدقہ درست نہیں۔ چنانچہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر) عورتیں اپنی بالیاں اور ہار ڈالنے لگیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (زکوٰۃ کے لیے) سونے چاندی کی بھی کوئی تخصیص نہیں فرمائی۔

حدیث نمبر: 1448
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن عبد الله , قال: حدثني ابي , قال: حدثني ثمامة، ان انسا رضي الله عنه حدثه، ان ابا بكر رضي الله عنه كتب له التي" امر الله رسوله صلى الله عليه وسلم، ومن بلغت صدقته بنت مخاض وليست عنده وعنده بنت لبون، فإنها تقبل منه ويعطيه المصدق عشرين درهما او شاتين، فإن لم يكن عنده بنت مخاض على وجهها وعنده ابن لبون فإنه يقبل منه، وليس معه شيء".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ، أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ الَّتِي" أَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ بَلَغَتْ صَدَقَتُهُ بِنْتَ مَخَاضٍ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ وَعِنْدَهُ بِنْتُ لَبُونٍ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ بِنْتُ مَخَاضٍ عَلَى وَجْهِهَا وَعِنْدَهُ ابْنُ لَبُونٍ فَإِنَّهُ يُقْبَلُ مِنْهُ، وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْءٌ".
ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے میرے والد عبداللہ بن مثنی نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے ثمامہ بن عبداللہ نے بیان کیا۔ ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں (اپنے دور خلافت میں فرض زکوٰۃ سے متعلق ہدایت دیتے ہوئے) اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق یہ فرمان لکھا کہ جس کا صدقہ بنت مخاض تک پہنچ گیا ہو اور اس کے پاس بنت مخاض نہیں بلکہ بنت لبون ہے۔ تو اس سے وہی لے لیا جائے گا اور اس کے بدلہ میں صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں زائد دیدے گا اور اگر اس کے پاس بنت مخاض نہیں ہے بلکہ ابن لبون ہے تو یہ ابن لبون ہی لے لیا جائے گا اور اس صورت میں کچھ نہیں دیا جائے گا ‘ وہ مادہ یا نر اونٹ جو تیسرے سال میں لگا ہو۔

Narrated Anas: Abu Bakr wrote to me what Allah had instructed His Apostle (p.b.u.h) to do regarding the one who had to pay one Bint Makhad (i.e. one year-old she-camel) as Zakat, and he did not have it but had got Bint Labun (two year old she-camel). (He wrote that) it could be accepted from him as Zakat, and the collector of Zakat would return him 20 Dirhams or two sheep; and if the Zakat payer had not a Bint Makhad, but he had Ibn Labun (a two year old he-camel) then it could be accepted as his Zakat, but he would not be paid anything .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 528

   صحيح البخاري1453أنس بن مالكمن بلغت عنده من الإبل صدقة الجذعة وليست عنده جذعة وعنده حقة فإنها تقبل منه الحقة ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له أو عشرين درهما ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليست عنده الحقة وعنده الجذعة فإنها تقبل منه الجذعة ويعطيه المصدق عشرين درهما أو شاتين ومن بلغت عنده ص
   صحيح البخاري1454أنس بن مالكهذه فريضة الصدقة التي فرض رسول الله على المسلمين والتي أمر الله بها رسوله فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعطها ومن سئل فوقها فلا يعط في أربع وعشرين من الإبل فما دونها من الغنم من كل خمس شاة إذا بلغت خمسا وعشرين إلى خمس وثلاثين ففيها
   صحيح البخاري1448أنس بن مالكمن بلغت صدقته بنت مخاض وليست عنده وعنده بنت لبون فإنها تقبل منه ويعطيه المصدق عشرين درهما أو شاتين فإن لم يكن عنده بنت مخاض على وجهها وعنده ابن لبون فإنه يقبل منه وليس معه شيء
   سنن أبي داود1567أنس بن مالكفيما دون خمس وعشرين من الإبل الغنم في كل خمس ذود شاة فإذا بلغت خمسا وعشرين
   سنن النسائى الصغرى2449أنس بن مالكهذه فرائض الصدقة التي فرض رسول الله على المسلمين التي أمر الله بها رسوله فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعط ومن سئل فوق ذلك فلا يعط فيما دون خمس وعشرين من الإبل في كل خمس ذود شاة فإذا بلغت خمسا وعشرين ففي
   سنن النسائى الصغرى2457أنس بن مالكهذه فرائض الصدقة التي فرض رسول الله على المسلمين التي أمر الله بها رسوله فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعطها ومن سئل فوقها فلا يعطه فيما دون خمس وعشرين من الإبل في خمس ذود شاة فإذا بلغت خمسا وعشرين ففيها بنت مخاض
   بلوغ المرام484أنس بن مالكهذه فريضة الصدقة التي فرضها رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم على المسلمين والتي امر الله بها رسوله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 484  
´مال مویشی اور چاندی کی زکاۃ کا نصاب`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو فریضہ زکٰوۃ کے سلسلہ میں یہ تحریر لکھ کر دی تھی۔ . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 484]
لغوی تشریح:
«كَتَبَ لَهُ» حضرت انس رضی اللہ عنہ کو اس وقت یہ تحریر کر کے دیا جب انہیں بحرین کی طرف زکاۃ کی وصولی پر عامل بنا کر بھیجا۔
«هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدقَةِ» یہ فرضیت زکاۃ کا نوشہ ہے۔ اس تحریری مکتوب کا آغاز انھی مذکورہ الفاظ سے ہوتا ہے۔ صحیح بخاری میں مکتوب کے شروع میں «بِسم اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم» ہے۔ دیکھیے تخریج حدیث ہذا۔
«فَمَا دُونَهَا» اس کا مطلب ہے چوبیس سے کم۔
«اَلْغَنَم» بکری اور بھیڑ دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں «الغنم» مبتدا موخر ہے اس کی خبر «في كُلِّ اْرَبَعِ وَّ عِشْرِينَ فَمَا دُونَهَا» ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس تعداد و مقدار میں بکری یا بھیڑ زکاۃ میں نکالنا واجب ہے۔
«في كُلِّ خَمُسٍ» ہر پانچ کی تعداد سے مراد اونٹ ہیں۔ جب پانچ اونٹ ہوں گے تو زکاۃ کا نصاب شروع ہو گا اور اس تعداد پر «شَاةٌ» ایک بکری یا بھیڑ دینا ہو گی۔
«بِنْتُ مَخَاضِ» اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں قدم رکھ چکی ہے۔ «مخاص» اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو اس عمر کو پہنچ جائے کہ وہ حاملہ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو، خواہ ابھی تک وہ حاملہ نہ ہوئی ہو۔ اسے (بنت مخاض) مخاض کی بیٹی اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی ماں کا شمار ان میں سے ہے جو حاملہ ہوتی ہیں اور مونث کی قید تاکید کے لیے ہے اور اس پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ نر اونٹ وہ کام نہیں دے سکتا جو مادہ دے سکتی ہے۔
«اِبْنُ لَبُونٟ» «‏‏‏‏لبون» کے لام پر فتحہ ہے۔ اس سے مراد وہ اونٹ ہے جو دو سال مکمل کر کے تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔
«بِنْتُ لَبُونٟ» یہ عمر میں «ابن لبون» کے برابر ہوتی ہے، یعنی وہ اونٹنی جو دو سال مکمل کر کے تیسرے سال میں قدم رکھ چکی ہو۔
«حقَّةٌ» حا کے نیچے کسرہ اور قاف پر تشدید ہے۔ اس سے مراد وہ مادہ اونٹنی ہے جو تین سال کی عمر پوری کر کے چوتھے سال میں قدم رکھ چکی ہو۔ اس کی جمع «حقاف» آتی ہے اور اس کا مذکر «حِقَّ» حا کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ اسے «حقه» اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں، حقدار اور قابل ہونے والی، چونکہ یہ اس قابل ہو چکی ہوتی ہے کہ اس پر سواری کی جا سکے اور بار برداری کے بھی قابل ہو جاتی ہے اور اسی طرح نَر کی جفتی کے بھی قابل ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے «طَرُرقهُ الْحَمَل» بھی کہا گیا ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ یہ اس قابل ہو جاتی ہے کہ نر اگر اس سے جفتی کرے تو کر سکتا، خواہ اسے سے وطی نہ بھی کی گئی ہو لیکن اس کے قابل ضرور ہو چکی ہوتی ہے۔
«جَذَعةٌ» جیم اور ذال دونوں پر فتحہ ہے جو پورے چار سال کو پہنچ چکی ہو اور پانچویں میں قدم رکھ چکی ہو۔
«فَاِذَازَادَتْ» جب اونٹوں کی تعداد اس سے زیادہ ہو جائے۔
«عَلٰي عِشْرِينَ وَمائَةٟ» ایک سو بیس سے خواہ ایک ہی کا اضافہ ہو۔
«فَفِي كُلِّ اَرْبَعِينَ . . .» تو انہیں چالیس اور پچاس کے دو گروپوں اور حصوں میں تقسیم کر لیں گے، مثلاً مذکورہ تعداد میں ایک کا اضافہ ہو جانے کی صورت میں ہم اس تعداد کو چند حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ایک سو اکیس میں چالیس چالیس کے تین گروپ بنیں گے، چنانچہ اس صورت میں تین بنت لبون وصول کی جائیں گی اور جو ایک زائد بچے گا اس پر کوئی زکوۃ نہیں۔ اور جب یہ ایک سو تیس ہو جائیں گے تو ایک گروپ پچاس کا اور دو چالیس چالیس کے بنیں گے اور اس صورت میں پچاس پر حقہ اور چالیس چالیس پر دو بنت لبون ادا کی جائیں گی۔ بس اسی طرح دس کے اضافے کی صورت میں تبدیلی اور تغیر واقع ہوتا چلا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مکتوب گرامی اسی پر دلالت کرتا ہے کہ جب انٹوں کی تعداد ایک سو اکیس ہو جائے تو ان میں تین بنت لبون زکاۃ ہو گی یہاں تک کہ یہ تعداد ایک سو انتیس تک پہنچ جائے۔ مدعا و مقتضا کلام یہ ہے کہ کسروں کا شمار نہیں کیا جاتا اور دہائیوں کے مکمل ہونے پر زکاۃ ہے، مثلاً: دس، بیس، تیس۔ علی ھذٰا القیاس۔ [ عون المعبود اور سبل السلام]
«إلَّا اَنْ يَّشاء رَبُّهَا» الا یہ کہ اونٹوں کا مالک رضا کارانہ طور پر اپنی طرف سے نفلی طور پر زکاۃ نکالنا چاہے تو نکال سکتا ہے، اس پر واجب نہیں ہے۔
«في سائمنها» یہ فی «صَدَقْةِ الْغَنَم» سے بدل ہے۔ بکریوں میں سے سائمہ وہ ہے جس کی زندگی کا انحصار جنگلوں میں چرنے پر ہو اور گھر پر چارہ بہت کم کھاتی ہو۔ جمہور کے نزدیک جنگل میں چرنے کی قید لازمی ہے۔ ان کے نزدیک زکاۃ واجب ہونے کے لیے جنگلوں وغیرہ کے چارے پر انحصار کی شرط ہے۔
«إلٰي عِشَرِينَ وَمِائَةِ شَاةٟ شَاةٌ» ایک سو بیس تک کی تعداد میں صرف ایک بکری ہے۔ پہلا «شَاةٟ» ‏‏‏‏ کا لفظ «مائة» کی تمیز ہونے کی وجہ سے مجرور ہے اور دوسرا «شاةٌ» مبتدا موخر ہونے کی بنا پر مرفوع ہے اور اس کی خبر پہلا جملہ «فِي صَدَفةِ الْغَنَم» ہے اور «شاة» کے لفظ میں نر و مادہ، بھیڑ اور بکری دونوں شامل ہیں اور «غنم» کا لفظ «شاة» کا مترادف ہے، یعنی «شاة» اور «غنم» دونوں ہم معنی ہیں۔
«فَاِذَا زَادَتْ عَلٰي عِشْرِينَ وَمِائَةٟ» جب ایک سو بیس پر اضافہ ہو جائے، خواہ ایک ہی عدد کا کیوں نہ ہو، اس میں دو بکریوں ہیں۔ اور جب دو سو سے زیادہ ہو کر تین سو ہو جائیں تو تین بکریاں۔
«فَاِذَا زَادَتْ عَلٰي ثَلٰثِ مِائَةٟ كُلِّ مِائَةٟ شَاةٌ» اور جب تین سو سے تعداد میں اضافہ ہو جائے تو ہر سو میں ایک بکری زکاۃ میں وصول کی جائے گی۔ بظاہر تو اس سے یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ چوتھی بکری اس وقت دینا ضروری ہوتا ہے جب تعداد چار سو تک پہنچ جائے، جمہور کا یہی قول ہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ جب تین سو پر ایک کا بھی اضافہ ہو جائے گا تو اس تعداد میں چار بکریاں دینا ہوں گی، پہلی بات قابل ترجیح ہے اور اس کی تائید وہ روایت بھی کررہی ہے جسے ترمذی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے مرفوعاً نقل کیا ہے: جب تین سو بکریوں میں ایک کا مزید اضافہ ہو جائے تو پھر ہر ایک سو بکریوں پر ایک بکری ہے۔ جب تک تعداد میں پورے سو کا اضافہ نہیں ہو جاتا اس میں کوئی زکاۃ نہیں۔ [جامع الترمذي، الزكاة حديث: 621]
«فَاِذَا كَانَتْ سَائِمَةُ الرَّجُل» جب آدمی کی بکریاں جنگل میں چرنے چگنے والی چالیس سے کم ہوں تو ان پر ایک بکری بھی زکاۃ نہیں پڑتی۔
«نَاقِصَةٌ» منصوب ہے۔ «كانت» کی خبر واقع ہو رہا ہے۔
«مِنْ اَّرْبَعينَ شَاةً شَاةَ وَاحِدَةٌ» دونوں شاۃ منصوب ہیں۔ پہلا لفظ عدد سے تمیز واقع ہورہا ہے اور دوسرا، حرف جر محذوف ہونے کی وجہ سے خصی حالت میں ہے جسے منصوب بنزع الخافض کہتے ہیں، یعنی اصل میں تھا «بشاة واحدة» ۔ یا پھر یہ «ناقصة» کا مفعول ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جب کسی آدمی کے پاس باہر چرنے چگنے والی بکریوں کی تعداد چالیس سے ایک بھی کم ہو تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے اور جب تعداد میں ایک سے زیادہ بکریوں کی کمی واقع ہو جائے پھر تو کسی صورت میں زکاۃ نہیں۔
«وَلَا يُجْمَعُ» صیغہ مجہول۔ نہ جمع کیا جائے گا، نہ اکٹھا کیا جائے گا۔
«وَلَا يُفَرَّقُ» را پر تشدید کے ساتھ صیغہ مجہول ہے۔
«خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ» مفعول لہ واقع ہو رہا ہے، اس لیے منصوب ہے، یعنی زکاۃ زیادہ یا کم دینے کے خوف و اندیشے کے پیش نظر جمع یا الگ نہ کرے۔ زیادہ زکاۃ پڑنے کا اندیشہ مال کے مالک کو ہو گا اور کم زکاۃ پڑنے کا خوف زکاۃ وصول کرنے والے عامل کو ہو گا۔ اور نہی دونوں فریقین کے لیے یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ الگ الگ کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے، مثلاً: تین آدمی ہیں ہر ایک کی چالیس چالیس بکریاں ہیں۔ الگ الگ ہونے کی صورت میں ہر ایک پر ایک بکری زکاۃ ہے، اس طرح مجموعی طور پر انہیں تین بکریاں زکاۃ ادا کرنی پڑے گی۔ جب زکاۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچتا ہے تو وہ بکریاں جمع کر لیں اور تعداد ایک سو بیس بن گئی۔ اس طرح انہیں صرف ایک بکری دینا پڑتی ہے۔ اور جمع شدہ بکریوں کو الگ الگ کرنے کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی اکٹھے ہیں، دو سو ایک بکریاں ان کی ملکیت میں ہیں۔ اس طرح دونوں پر تین بکریاں زکاۃ دینا لازمی ہے کیونکہ دو سو سے ایک بکری زائد ہے۔ مگر جب زکاۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچا تو دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ کر لیں کہ اس طرح ان میں سے ہر ایک کے ذمے ایک ایک بکری ہی آئے گی۔ اس حدیث میں مال کے مالکوں کو اس طرح کے طریقوں کے ساتھ حیلہ سازی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو منع کرنے کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی ہیں جو باہم شریک ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنا مال ملایا ہوا نہیں ہے، ان دونوں میں سے ہر ایک کے پاس اپنی اپنی ایک سو بیس یا اس سے کچھ کم بکریاں ہیں تو اس صورت میں ہر ایک پر ایک بکری زکاۃ واجب ہے، مگر زکاۃ وصول کرنے والا ان دونوں کی بکریاں ازخود جمع کرتا ہے جس سے ان کی مجموعی تعداد دو سو سے زائد ہو جاتی ہے اور اس طرح وہ اسن سے تین بکریاں وصول کر لیتا ہے۔ اور الگ الگ کرنے کی صورت یہ ہے، مثلاً ایک سو بیس بکریاں تین آدمیوں کی ملکیت میں ہیں جو کہ آپس شریک ہیں، ان پر صرف ایک ہی بکری زکاۃ واجب ہے مگر زکاۃ وصول کرنے والا اسے تین حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے اور اس طرح تین بکریاں وصول کر لیتا ہے، بایں طور کہ ہر چالیس پر ایک بکری کے حساب سے وصول کرتا ہے۔ اس تفصیل سے ظاہر کہ خشیۃ الصدقۃ کے معنی دو طرح ہو سکتے ہیں، یعنی کثرت ک خوف و اندیشہ کے پیش نظر یا قلت کے نقطہ نظر سے، دونوں معنوں کا احتمال ہے، کسی کو کسی پر ترجیح، دونوں معنی اکٹھے بھی ہو سکتے ہیں۔
«وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ» «خليطين» کے معنی: «شيكين» ہیں اور اس میں «مِن» بیانیہ ہے جو اسم موصول کے بیان کے لیے ہے۔
«اَلْخُلْطَةُ» یعنی شرکت یہ ہے کہ چروایا، چراگاہ، نر(سانڈ) اور پانی پلانے کی جگہ ایک ہو۔
«فَاِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ» «سوية» میں یا پر تشدید ہے، اس کے معنی مساوات اور برابری کے ہیں، اور تراجع کا مطلب یہ ہے کہ جب زکاۃ وصول کرنے والا دونوں کے مجموعی مال پر واجب زکاۃ ایک بکری کی صورت میں وصول کر لیتا ہے (حالانکہ اس کے ذمے تو آدھی بکری آتی ہے اور باقی نصف اس کے دوسرے ساتھی پر) تو اب زکاۃ دینے والا اپنے دوسرے ساتھی سے نصف بکری کی قیمت وصول کر لے گا۔ اس طرح دونوں کی طرف سے ان پر واجب الادا زکاۃ ادا ہو جائے گی۔ کمی و بیشی کا شکوہ کسی کو نہیں رہے گا۔ «بِالسْوِيْهِ» سے یہی برابری مراد ہے، مثلاً: دو شریکوں کا کل مال چالیس بکریاں ہیں۔ دونوں کی بیس بیس ہیں، اب ان میں سے ایک شریک اپنے حصے کی بکری زکاۃ میں ادا کر دے اور آدھی قیمت اپنے ساتھی سے وصول کر لے۔
«لَايُخْرُجُ» صیغہ مجہول ہے، نہیں نکالا جائے گا۔
«هَرِمَةٌ» ہا اور را کے نیچے کسرہ ہے۔ بوڑھی اور اتنی عمر رسیدہ جس کے دانت گر چکے ہوں۔
«وَلَاذَاتُ عَوَارِ» «عوار» کے عین پر فتحہ اور ضمہ دونوں جائز ہیں۔ عیب کے معنی میں ہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ عوار کے عین پر فتحہ کی صورت میں اس کا معنی عیب کے ہوں گے اور ضمہ کی صورت میں کانا کہ۔ اور بہتر یہی ہے کہ اسے فتحہ سے پڑھا جائے تاکہ تمام عیوب و نقائص اس میں شامل ہو جائیں۔
«وَلَا تَيْسٌ» تا پر فتحہ اور یا ساکن ہے۔ سانڈ بکرا جو بکریوں پر جفتی کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔
«الَّا اَنْ يَّشَاءَ الْمُصَدَّقُ» «مصدق» کے صاد پر تشدید اور تخفیف دونوں طرح ہے۔ تشدید کے ساتھ اس کی اصل متصدق ہے اور یہ باب تفعل ہے، یعنی زکاۃ و صدقہ دینے والا ہے۔ (مال کا مالک) اس صورت میں «استثنا» فقط لفظ تیس کی طرف راجع ہے، یعنی بوڑھی کھوسٹ، عیب والی اور سانڈ بکرے تمام کے ساتھ کے ساتھ استثنا کا تعلق ہے، یعنی ایسے جانور زکاۃ میں نہ دیے جائیں الا یہ کہ زکاۃ لینے والا ان کے لینے میں زیادہ مصلحت محسوس کرے اور مساکین کے لیے زیادہ اچھا سمجھے۔
«وَفِي الرَّقَةِ» «رقة» میں را کے نیچے کسرہ اور قاف مخفف ہے، یہ اصل میں «وَرِق» تھا۔ «ورق» واو پر فتحہ اور را کے نیچے کسرہ کے ساتھ ہے، چاندی کو کہتے ہیں۔
«رُبْعُ الْعُشْرِ» «ربع» کے را اور «عشر» کے عین پر ضمہ ہے اور ہا اور شین ساکن ہیں۔ یا دونوں پر ضمہ بھی آ سکتا ہے۔ ربع کسی چیز کا چوتھا حصہ، عشر دسواں حصہ اور «ربع العشر» چالیسواں حصہ ہوا۔ دو سو درہم باون تولے اور چھ ماشے چاندی کے برابر ہوتے ہیں جس کا وزن آج کل کے حساب سے تقریباً 618 گرام اور 182 ملی گرام بنتا ہے۔
«فَاِنْ لَّمْ تَكُنْ» اور اگر چاندی نہ ہو۔
«اِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةِ» مگر ایک سو نوے درہم ہوں، یعی جب دو سو درہم پورے نہ ہوں تو ان پر زکاۃ نہیں۔ نوے کا ذکر محض اس لیے کیا ہے کہ سو پورا ہونے سے پہلے آخری دہائی نوے ہی ہے۔ اور حساب کا معاملہ یہ ہے کہ جب گنتی اکائیوں سے تجاوز کر جائے تو «عقود» سے گنتی کی جاتی ہے۔ اور «عقود» کہتے ہیں دہائیوں سینکڑوں اور ہزاروں کو۔
«فَاِنَّهَا تُقْبُلُ مِنْهُ الَحِقَّةُ» جذعہ کی جگہ حقہ قبول کر لیا جائے گا۔
«وَيَجْعَلُ» مالک شامل کرے گا۔
«مَعَهَا شَاتَيْ» نِ اس کے ساتھ دو بکریاں، نقصان و کمی کی تلافی کرنے کے لیے کیونکہ حقہ جذعہ سے چھوٹا ہوتا ہے۔
«اِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ» بایں صورت کہ دو بکریاں اس کے مویشیوں میں موجود ہوں۔
«اَوْ عِشْرِينَ دِرٰهمًا» بیس درہم۔ «اَوْ» یہاں تخبیر کے لیے ہے، یعنی اختیار حاصل ہے کہ چاہے یہ دے، چاہے وہ دے دے۔
«وَيُعٰطِيبه الْمُصَدَّقُ» صاد پر تخفیف اور دال پر تشدید ہے۔ زکاۃ و صدقہ وصول کرنے والا، سرکاری کارندہ اور نمائندہ۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں مال مویشی اور چاندی کی زکاۃ کا نصاب مذکور ہے، نیز اس میں زکاۃ وصول کرنے کا طریق کار، زکاۃ میں وصول کیے جانے والے جانوروں کی عمروں کا بیان اور زکاۃ کی وصولی کا اہتمام مذکور ہے۔
➋ اس حدیث میں یہ بھی حکم ہوا ہے کہ نہ تو مالک کو دھوکا دینے کی کوشش کی جائے اور نہ سرکاری اہل کار ہی کو دھوکے میں رکھنے کی کوشش کی جائے۔
➌ ہر قسم کے مویشیوں پر زکاۃ نہیں بلکہ جنگل میں چرنے چگنے والوں پر ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 484   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1567  
´چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔`
حماد کہتے ہیں میں نے ثمامہ بن عبداللہ بن انس سے ایک کتاب لی، وہ کہتے تھے: یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انس رضی اللہ عنہ کے لیے لکھی تھی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر لگی ہوئی تھی، جب آپ نے انہیں صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا تو یہ کتاب انہیں لکھ کر دی تھی، اس میں یہ عبارت لکھی تھی: یہ فرض زکاۃ کا بیان ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر مقرر فرمائی ہے اور جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا ہے، لہٰذا جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے، وہ اسے ادا کرے اور جس سے اس سے زائد طلب کی جائے، وہ نہ دے: پچیس (۲۵) سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری ہے، جب پچیس اونٹ پورے ہو جائیں تو پینتیس (۳۵) تک میں ایک بنت مخاض ۱؎ ہے، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون دیدے، اور جب چھتیس (۳۶) اونٹ ہو جائیں تو پینتالیس (۴۵) تک میں ایک بنت لبون ہے، جب چھیالیس (۴۶) اونٹ پورے ہو جائیں تو ساٹھ (۶۰) تک میں ایک حقہ واجب ہے، اور جب اکسٹھ (۶۱) اونٹ ہو جائیں تو پچہتر (۷۵) تک میں ایک جذعہ واجب ہو گی، جب چھہتر (۷۶) اونٹ ہو جائیں تو نو ے (۹۰) تک میں دو بنت لبون دینا ہوں گی، جب اکیانوے (۹۱) ہو جائیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو حقہ اور جب ایک سو بیس (۱۲۰) سے زائد ہوں تو ہر چالیس (۴۰) میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس (۵۰) میں ایک حقہ دینا ہو گا۔ اگر وہ اونٹ جو زکاۃ میں ادا کرنے کے لیے مطلوب ہے، نہ ہو، مثلاً کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ اسے جذعہ دینا ہو لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو حقہ ہی لے لی جائے گی، اور ساتھ ساتھ دو بکریاں، یا بیس درہم بھی دیدے۔ یا اسی طرح کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی قبول کر لی جائے گی، البتہ اب اسے عامل (زکاۃ وصول کرنے والا) بیس درہم یا دو بکریاں لوٹائے گا، اسی طرح سے کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ کے بجائے بنت لبون ہوں تو بنت لبون ہی اس سے قبول کر لی جائے گی۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: میں موسیٰ سے حسب منشاء اس عبارت سے «ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له، أو عشرين درهمًا» سے لے کر «ومن بلغت عنده صدقة بنت لبون وليس عنده إلا حقة فإنها تقبل منه» تک اچھی ضبط نہ کر سکا، پھر آگے مجھے اچھی طرح یاد ہے: یعنی اگر اسے میسر ہو تو اس سے دو بکریاں یا بیس درہم واپس لے لیں گے، اگر کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں، جن میں بنت لبون واجب ہوتا ہو اور بنت لبون کے بجائے اس کے پاس حقہ ہو تو حقہ ہی اس سے قبول کر لیا جائے گا اور زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے گا، جس کے پاس اتنے اونٹ ہوں جن میں بنت لبون واجب ہوتی ہو اور اس کے پاس بنت مخاض کے علاوہ کچھ نہ ہو تو اس سے بنت مخاض لے لی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم اور لیے جائیں گے، جس کے اوپر بنت مخاض واجب ہوتا ہو اور بنت مخاض کے بجائے اس کے پاس ابن لبون مذکر ہو تو وہی اس سے قبول کر لیا جائے گا اور اس کے ساتھ کوئی چیز واپس نہیں کرنی پڑے گی، اگر کسی کے پاس صرف چار ہی اونٹ ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دیدے۔ اگر چالیس (۴۰) بکریاں چرنے والی ہوں تو ان میں ایک سو بیس (۱۲۰) تک ایک بکری دینی ہو گی، جب ایک سو اکیس (۱۲۱) ہو جائیں تو دو سو تک دو بکریاں دینی ہوں گی، جب دو سو سے زیادہ ہو جائیں تو تین سو (۳۰۰) تک تین بکریاں دینی ہوں گی، جب تین سو سے زیادہ ہوں تو پھر ہر سینکڑے پر ایک بکری دینی ہو گی، زکاۃ میں بوڑھی عیب دار بکری اور نر بکرا نہیں لیا جائے گا سوائے اس کے کہ مصلحتاً زکاۃ وصول کرنے والے کو نر بکرا لینا منظور ہو۔ اسی طرح زکاۃ کے خوف سے متفرق مال جمع نہیں کیا جائے گا اور نہ جمع مال متفرق کیا جائے گا اور جو نصاب دو آدمیوں میں مشترک ہو تو وہ ایک دوسرے پر برابر کا حصہ لگا کر لیں گے ۲؎۔ اگر چرنے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ مالک چا ہے تو اپنی مرضی سے کچھ دیدے، اور چاندی میں چالیسواں حصہ دیا جائے گا البتہ اگر وہ صرف ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کچھ بھی واجب نہیں سوائے اس کے کہ مالک کچھ دینا چاہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1567]
1567. اردو حاشیہ:
➊ فریضہ زکوۃ کی اس تفصیل سے مقام رسالت کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿بِالبَيِّنـٰتِ وَالزُّبُرِ‌ ۗ وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّر‌ونَ﴾ (النحل:44) یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں۔
➋ احادیث نبویہ کا ایک معقول حصہ دور رسالت میں آپ کے حین حیات ضبط تحریر میں لایا گیا تھا، ان میں سے مذکورہ بالا تفصیلات زکوۃ بھی ہیں لہذا منکرین حجت حدیث کو غور کرنا چاہیے۔
➌ شرعی حقوق مالیہ طلب کرنے پر ادا کرنے واجب ہیں۔ اگر حکومت اس فریضے سے غافل ہو تو مسلمانوں کو از خودان کا ادا کرنا فرض ہے۔
➍ مقررہ مقدار زکوۃ سے زیادہ کا مطالبہ ہو تو جرات سے انکار کرنا چاہیے۔ الا یہ کہ حالات دگرگوں ہوں۔
➎ مقررہ نصاب سے کم میں زکوۃ واجب نہیں۔ مالک خوشی سے پیش کرے تو قبول کر لی جائے جو اس کے لیے باعث اجر و ثواب ہے۔ ٹیکس اور زکوۃ و صدقات میں یہی بنیادی فرق ہے کہ مسلمان شرعی واجبات تنگی ترشی میں بخوشی ادا کرتا ہے بخلاف ٹیکسوں کے۔
➏ اونٹوں کی مذکورہ بالا زکوۃ کے جانوروں کی عمریں بالکل پوری ہونی چاہییں۔ مثلاً بنت مخاض وہ اونٹنی ہے جو ایک سال کی ہو کر دوسرے سال میں داخل ہو چکی ہو۔ بنت لبون وہ اونٹنی ہے جو دو سال کی ہو کر تیسرے میں لگ چکی ہو، اسی طرح باقی بھی۔
➐ لاگو ہونے والی زکوۃ میں حسب مصلحت جانوروں کو بدلنا یا ان کی قیمت لینا دینا بھی جائز ہے۔
➑ اکٹھے ریوڑوں کو علیحدہ کرنا یوں ہے کہ .....مثلاً ایک ریوڑ میں دو مالکوں کی کل پچاس بکریاں ہوں توان میں ایک بکری زکوۃ آتی ہے مگر تحصیلدار زکوۃ کی آمد کےموقع پر یہ دونوں اپنے اپنے جانور علیحدہ کر لیں تو پچیس پچیس بکریاں میں کوئی زکوۃ نہ آئے گی۔ یہ حیلہ ناجائز اور حرام ہے۔ اسی طرح علیحدہ علیحدہ ریوڑوں کو اکٹھے دکھانا بھی ناجائز اور حرام ہے۔ مثلاً ساٹھ ساٹھ بکریوں کے دو ریوڑوں پر دو بکریاں زکوۃ لاگو ہوگی لیکن اگر ان کو ایک ہی ریوڑ شمار کیا کرایا جائے تو ایک سو بیس میں صرف ایک بکری آئے گی۔ اسی طرح ایک بکری بچا لینا حرام ہوگا۔
➒ لاگو شدہ زکوۃ کے جانوروں میں مادہ جانور لینا دینا اس لیے تاکیدی ہے کہ ان کی افزائش ہوتی رہتی ہے جبکہ نر صرف جفتی کا فائدہ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اونٹوں میں اگر بنت مخاض (ایک سالہ مادہ) لازم آئی ہو مگر موجود نہ ہو تو ابن لبون (دو سالہ نر) لیا جائے اور کچھ واپس نہ کیا جائے۔
➓ زکوۃ میں اللہ تعالیٰ ہی کو راضی کرنا مطلوب ہے اس لیے اسے اخلاص سےعمدہ مال پیش کیا جائے۔ ضعیف، بیمار یا عیب دار جانور پیش کرنا یا قبول کرنا ناجائز ہے۔ (11) ایسے جانور جوگھروں میں پالے جاتے ہیں، جنگل میں چرنے نہیں جاتے ان پر اس انداز سے زکوۃ نہیں بلکہ اگر وہ تجارت کےلیے ہیں تو ان کی مجموعی قیمت پر زکوۃ آئے گی یا ان سے حاصل آمدنی پر زکوۃ ہو گی۔ واللہ اعلم۔ (12) جن دو مشترک مالکوں کا مال اکٹھا ہی لی گی ہوتو وہ آپس میں برابر لین دین کر لیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ دو شرکاء تھے۔ ساٹھ ساٹھ بکریاں ہر ایک کی تھیں۔ مجموعی طور سے ایک بکری زکوۃ لی گئی۔ ظاہر ہے آدھی آدھی بکری دونوں پر لازم آئی تو اب جس کے مال سے ایک بکری لی گئی ہے وہ اپنے دوسرے ساتھی سے آدھی بکری کے دام لے لے گا اور وہ دوسرا اسے آدھی بکری کے دام دے گا۔ اس طرح دونوں پر زکوۃ برابر برابر ہو جائے گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1567   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1448  
1448. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے انھیں زکوٰۃ کے وہ احکام لکھ کر دیے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر نازل فرمائے تھے (ان میں یہ بھی تھا) کہجس کسی پر صدقے میں ایک برس کی اونٹنی فرض ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہوتو اس میں وہی قبول کرلی جائے اور صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں اسے واپس دے۔ اور اگر ایک سالہ اونٹنی زکوٰۃ میں مطلوب ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہوبلکہ اس کے پاس دو سال کا نر اونٹ ہوتو وہی قبول کرلیاجائے مگر اس صورت میں اسے کوئی چیز واپس نہ کی جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1448]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے نزدیک سونے چاندی کے بجائے دیگر مال و اسباب کا بطور زکاۃ لینا دینا جائز ہے۔
اسے بایں طور ثابت کیا ہے کہ مذکورہ حدیث میں ایک جانور کے بدلے دوسرا جانور زکاۃ میں دینا ثابت ہے اور زکاۃ وصول کرنے والے کی طرف سے زیادہ نفیس اونٹنی زکاۃ کے طور پر لینا ثابت ہے جو واجب سے زیادہ ہے اور اس کے بدلے درہم اور بکریاں واپس کرنا بھی ثابت ہے تو سامان وغیرہ لینے میں کیا حرج ہے؟ لیکن امام بخاری ؒ کی اس دلیل میں اتنا وزن نہیں ہے، کیونکہ اگر زکاۃ میں قیمت وغیرہ کا لحاظ ہوتا تو مختلف جانوروں کی عمروں کا تعین بے سود ٹھہرتا ہے۔
جب شارع ؑ نے جانوروں کی عمریں متعین کر دی ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ انہی کا ادا کرنا ضروری ہے، ان کے بجائے قیمت ادا کرنا صحیح نہیں۔
مذکورہ حدیث میں ایک استثنائی صورت بوقت مجبوری اختیار کی گئی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1448   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.