الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
Zakat (Kitab Al-Zakat)
23. باب فِي الزَّكَاةِ هَلْ تُحْمَلُ مِنْ بَلَدٍ إِلَى بَلَدٍ
23. باب: زکاۃ ایک شہر سے دوسرے شہر میں لے جانا کیسا ہے؟
Chapter: Transfer Of Zakat Of One City To Another City.
حدیث نمبر: 1625
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا نصر بن علي، اخبرنا ابي، اخبرنا إبراهيم بن عطاء مولى عمران بن حصين، عن ابيه،" ان زيادا او بعض الامراء بعث عمران بن حصين على الصدقة، فلما رجع، قال لعمران: اين المال؟ قال: وللمال ارسلتني اخذناها من حيث كنا ناخذها على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضعناها حيث كنا نضعها على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم".
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا أَبِي، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَطَاءٍ مَوْلَى عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ،" أَنَّ زِيَادًا أَوْ بَعْضَ الْأُمَرَاءِ بَعَثَ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا رَجَعَ، قَالَ لِعِمْرَانَ: أَيْنَ الْمَالُ؟ قَالَ: وَلِلْمَالِ أَرْسَلْتَنِي أَخَذْنَاهَا مِنْ حَيْثُ كُنَّا نَأْخُذُهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَضَعْنَاهَا حَيْثُ كُنَّا نَضَعُهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عطا کہتے ہیں زیاد یا کسی اور امیر نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کو زکاۃ کی وصولی کے لیے بھیجا، جب وہ لوٹ کر آئے تو اس نے عمران سے پوچھا: مال کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: کیا آپ نے مجھے مال لانے بھیجا تھا؟ ہم نے اسے لیا جس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لیتے تھے، اور اس کو صرف کر دیا جہاں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں صرف کرتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الزکاة 14 (1811)، (تحفة الأشراف:10834) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شہر کے لوگوں سے زکاۃ وصولی جائے اسی شہر کے فقراء اور محتاجوں میں وہ تقسیم ہو، اگر وہاں کے لوگوں کو ضرورت نہ ہو تو دوسرے شہر کے ضرورتمندوں کی طرف اسے منتقل کیا جائے۔

Ibrahim ibn Ata, the client of Imran ibn Husayn, reported on the authority of his father: Ziyad, or some other governor, sent Imran ibn Husayn to collect sadaqah (i. e. zakat). When he returned, he asked Imran: Where is the property? He replied: Did you send me to bring the property? We collected it from where we used to collect in the lifetime of the Messenger of Allah ﷺ, and we spent it where we used to spend during the time of the Messenger of Allah ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1621


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
أخرجه ابن ماجه (1811 وسنده حسن)
   سنن أبي داود1625عمران بن الحصينبعث عمران بن حصين على الصدقة فلما رجع قال لعمران أين المال قال وللمال أرسلتني أخذناها من حيث كنا نأخذها على عهد رسول الله ووضعناها حيث كنا نضعها على عهد رسول الله
   سنن ابن ماجه1811عمران بن الحصيناستعمل على الصدقة فلما رجع قيل له أين المال قال وللمال أرسلتني أخذناه من حيث كنا نأخذه على عهد رسول الله ووضعناه حيث كنا نضعه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1811  
´زکاۃ کی وصولی کرنے والوں کا بیان۔`
عمران رضی اللہ عنہ کے غلام عطا بیان کرتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما زکاۃ پہ عامل بنائے گئے، جب لوٹ کر آئے تو ان سے پوچھا گیا: مال کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: آپ نے مجھے مال لانے کے لیے بھیجا تھا؟ ہم نے زکاۃ ان لوگوں سے لی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لیا کرتے تھے، اور پھر اس کو ان مقامات میں خرچ ڈالا جہاں ہم خرچ کیا کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1811]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت عمران بن حصین مشہور صحابی ہیں جو غزوہ خیبر کے سال اسلام لائے۔
حضرت عمر نے انہیں بصرہ بھیج دیا تھا تاکہ لوگوں کو دین کی تعلیم دیں۔
حضرت عمران بن حصین کی یہ بات چیت حضرت عمر سے ہوئی، وہ انہی کے حکم سے بصرہ گئے تھے۔
زکاۃ کے زیادہ مستحق اس علاقے کے غریب لوگ ہیں جہاں سے زکاۃ وصول کی گئی۔
صحابہ کرام نبی اکرم ﷺ کی حدیث اور سنت پر سختی سے عمل کرتے تھے۔
حضرت عمران کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ خدمت رسول اللہ کی حیات مبارکہ میں بھی انجام دی تھی۔
حضرت عمران نے یہ خدمت زمانہ نبوی سے زمانہ فاروقی تک مسلسل انجام دی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص صحیح طور پر فرائض انجام دے رہا ہو تو بلاوجہ اس کا تبادلہ نہیں کرنا چاہیے البتہ کوئی معقول وجہ موجود ہو تو تبادلہ کرنے میں حرج بھی نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1811   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1625  
´زکاۃ ایک شہر سے دوسرے شہر میں لے جانا کیسا ہے؟`
عطا کہتے ہیں زیاد یا کسی اور امیر نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کو زکاۃ کی وصولی کے لیے بھیجا، جب وہ لوٹ کر آئے تو اس نے عمران سے پوچھا: مال کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: کیا آپ نے مجھے مال لانے بھیجا تھا؟ ہم نے اسے لیا جس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لیتے تھے، اور اس کو صرف کر دیا جہاں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں صرف کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1625]
1625. اردو حاشیہ: اصل بنیادی قاعدہ زکواۃ کے بارے میں یہی ہے کہ جس شہر سے لی جائے وہیں کے حاجت مندوں میں تقسیم کردی جائے۔ہاں دوسرے شہر میں اگر زیادہ ضرورت مند ہوں تو اسے منتقل کرنا جائز ہے۔جیسے کے دور نبوت میں اطراف واکناف سے زکواۃ جمع ہوتی اور مرکز مدینہ میں لائی جاتی۔اور اہل مدینہ کو بھی دی جاتی تھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1625   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.