الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
Divorce (Kitab Al-Talaq)
16. باب فِي الرَّجُلِ يَقُولُ لاِمْرَأَتِهِ يَا أُخْتِي
16. باب: آدمی اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکارے تو کیسا ہے؟
Chapter: Regarding A Man Calling His Wife: "My Sister".
حدیث نمبر: 2212
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا هشام، عن محمد، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم،" ان إبراهيم صلى الله عليه وسلم لم يكذب قط إلا ثلاثا: ثنتان في ذات الله تعالى، قوله: إني سقيم سورة الصافات آية 89، وقوله: بل فعله كبيرهم هذا سورة الانبياء آية 63، وبينما هو يسير في ارض جبار من الجبابرة، إذ نزل منزلا فاتي الجبار، فقيل له: إنه نزل هاهنا رجل معه امراة هي احسن الناس، قال: فارسل إليه، فساله عنها، فقال: إنها اختي، فلما رجع إليها، قال: إن هذا سالني عنك فانباته انك اختي، وإنه ليس اليوم مسلم غيري وغيرك، وإنك اختي في كتاب الله فلا تكذبيني عنده" وساق الحديث. قال ابو داود: روى هذا الخبر شعيب بن ابي حمزة، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكْذِبْ قَطُّ إِلَّا ثَلَاثًا: ثِنْتَانِ فِي ذَاتِ اللَّهِ تَعَالَى، قَوْلُهُ: إِنِّي سَقِيمٌ سورة الصافات آية 89، وَقَوْلُهُ: بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا سورة الأنبياء آية 63، وَبَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ فِي أَرْضِ جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ، إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا فَأُتِيَ الْجَبَّارُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ نَزَلَ هَاهُنَا رَجُلٌ مَعَهُ امْرَأَةٌ هِيَ أَحْسَنُ النَّاسِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَسَأَلَهُ عَنْهَا، فَقَالَ: إِنَّهَا أُخْتِي، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَيْهَا، قَالَ: إِنَّ هَذَا سَأَلَنِي عَنْكِ فَأَنْبَأْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، وَإِنَّهُ لَيْسَ الْيَوْمَ مُسْلِمٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ، وَإِنَّكِ أُخْتِي فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَا تُكَذِّبِينِي عِنْدَهُ" وَسَاقَ الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْخَبَرَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے ۱؎ جن میں سے دو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے تھے، پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمار ہوں ۲؎، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پر انہوں نے قیام فرمایا تو اس سرکش تک یہ بات پہنچی، اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کو بلوایا اور عورت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: یہ تو میری بہن ہے، جب وہ لوٹ کر بیوی کے پاس آئے تو انہوں نے بتایا کہ اس نے مجھ سے تمہارے بارے میں دریافت کیا تو میں نے اسے یہ بتایا ہے کہ تم میری بہن ہو کیونکہ آج میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہیں ہے لہٰذا تم میری دینی بہن ہو، تو تم اس کے پاس جا کر مجھے جھٹلا نہ دینا، اور پھر پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: شعیب بن ابی حمزہ نے ابوالزناد سے ابوالزناد نے اعرج سے، اعرج نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14539)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 8 (3357)، والنکاح 12(5012)، صحیح مسلم/الفضائل 41 (2371)، سنن الترمذی/تفسیر سورة الأنبیاء (3165)، مسند احمد (2/403) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: انہیں جھوٹ اس لئے کہا گیا ہے کہ ظاہر میں تینوں باتیں جھوٹ تھیں، لیکن حقیقت میں ابراہیم علیہ السلام نے یہ تینوں باتیں بطور تعریض و توریہ کہی تھیں، توریہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذومعنی گفتگو کرے، جس کا ایک ظاہری مفہوم ہو اور ایک باطنی، وہ اپنی گفتگو سے صحیح مقصود کی نیت کرے اور اس کی طرف نسبت کرنے میں جھوٹا نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ میں اور اس کی چیز کی طرف نسبت کرنے میں جسے مخاطب سمجھ رہا ہو جھوٹا ہو۔
۲؎: یہ بات ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہی تھی جب ان کے شہر کے لوگ باہر میلے کے لئے جارہے تھے، ان سے بھی لوگوں نے چلنے کے لئے کہا، تو انہوں نے بہانہ کیا کہ میں بیمار ہوں، یہ بہانہ بتوں کو توڑنے کے لئے کیا تھا، پھر جب لوگ میلہ سے واپس آئے تو پوچھا بتوں کو کس نے توڑا؟ ابراہیم وضاحت نے جواب دیا: بڑے بت نے توڑا ، اگرچہ یہ دونوں قول خلاف واقعہ تھے لیکن حکمت سے خالی نہ تھے، اللہ کی رضامندی کے واسطے تھے۔

Abu Hurairah reported the Prophet ﷺ as saying Abraham ﷺ never told a lie except on three occasions twice for the sake of Allaah. Allaah quoted his words (in the Quran) “I am indeed sick” and “Nay, this was done by - this is their biggest one”. Once he was passing through the land of a tyrant (king). He stayed there in a place. People went to the tyrant and informed him saying “A man has come down here; he has a most beautiful woman with him. ” So he sent for him (Abraham) and asked about her. He said she is my sister. When he returned to her, he said “he asked me about you and I informed him that you were my sister. Today there is no believer except me and you. You are my sister in the Book of Allaah (i. e., sister in faith). So do not belie me before him. The narrator then narrated the rest of the tradition. Abu Dawud said “A similar tradition has also been narrated by Shuaib bin Abi Hamza from Abi Al Zinad from Al A’raj on the authority of Abu Hurairah from the Prophet ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2206


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
رواه البخاري (5084، 2217) ومسلم (2371)
   صحيح البخاري3358عبد الرحمن بن صخرلم يكذب إبراهيم إلا ثلاثا
   صحيح مسلم6145عبد الرحمن بن صخرلم يكذب إبراهيم النبي قط إلا ثلاث كذبات ثنتين في ذات الله قوله إني سقيم
   جامع الترمذي3166عبد الرحمن بن صخرلم يكذب إبراهيم في شيء قط إلا في ثلاث قوله إني سقيم ولم يكن سقيما قوله لسارة أختي قوله بل فعله كبيرهم هذا
   سنن أبي داود2212عبد الرحمن بن صخرإبراهيم لم يكذب قط إلا ثلاثا ثنتان في ذات الله قوله إني سقيم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3166  
´سورۃ انبیاء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے تین معاملات کے سوا کسی بھی معاملے میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا، ایک تو یہ ہے کہ آپ نے کہا: میں بیمار ہوں، حالانکہ آپ بیمار نہیں تھے، (دوسرا) آپ نے سارہ کو اپنی بہن کہا: (جب کہ وہ آپ کی بیوی تھیں) (تیسرا، آپ نے بت توڑا) اور پوچھنے والوں سے آپ نے کہا: بڑے (بت) ان کے اس بڑے نے توڑے ہیں، (ان سے پوچھ لیں) ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3166]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مولف یہ حدیث ارشاد باری:
﴿قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا﴾  (الأنبیاء: 64) کی تفسیرمیں لائے ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3166   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2212  
´آدمی اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکارے تو کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے ۱؎ جن میں سے دو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے تھے، پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمار ہوں ۲؎، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پر انہوں نے قیام فرمایا تو اس سرکش تک یہ بات پہنچی، اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس نے ابراہیم علیہ ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2212]
فوائد ومسائل:
بیوی کو عادتا یا محبت واکرام میں بہن کہنا کسی ظرح روا نہیں لیکن کہیں کسی واقعی شرعی ضرورت سے توریہ کے طور پر کہے تو مباح ہے۔
جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معروف قصے میں وارد ہوا ہے۔


حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اس حدیث کو بعض متجدد ناقابل تسلیم کہتے ہیں۔
بلکہ تمام ذخیرہ احادیث کو مشکوک عجمی سازش اور نہ معلوم کس کس لقب سے یاد کرتے ہیں ان کا انداز تحریر وگفتگو کچھ یوں ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے مقابلے میں احادیث کے راویوں کو یوں جھٹلا دینا اور ضعیف کہنا زیادہ بہتر اور آسان ہے کجا یہ کہ قرآن مجید کی تغلیط کی جائے۔
قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بصراحت کہا ہےکہ (إِنَّه كانَ صدِّيقًا نَبِيًّا) (مريم:٤١) بلاشبہ وہ انتہائی سچے نبی تھے اس فکر کے حامل لوگوں کو ذرا غور کرنا چاہیے کہ قرآن مجید بھی تو ہمارے پاس ان راویوں کے ذریعے سے پہنچا ہے جن کے ذریعے سے احادیث پہنچی ہیں۔
حق وصداقت اور دیانت کے اعلٰی ترین معیار کے عدیم المثال اصول قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی نقل وروایت کے سلسلے میں ایک ہی ہیں۔
جہاں جو فرق ہے وہ بصیرت اہل علم سے مخفی نہیں اور اس وجہ سے احادیث کو کئی درجات میں تقسیم کرکے ان کے حکم بھی الگ الگ بتائے گئے ہیں۔
اس حدیث کو قرآن مجید کے واقعتا خلاف کہنا دیانت علمی کے خلاف ہے۔
تفسیر احسن البیان (از حافظ صلاح الدین یوسف ؒ) میں سے درج ذیل اقتباس پیش کر دینا مناسب ہے۔
حافظ صاحب موصوف سورۃالانبیاء کی آیت 63 (قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ) کے ذیل میں لکھتے ہیں (حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان اقوال کو) یقینا حقیقت کے اعتبار سے جھوٹ نہیں کہا جا سکتا۔
گویا کذب اللہ کے ہاں قابل مواخذہ نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کے لیے بولے گئے ہیں۔
درآں حالیکہ کوئی گناہ کا کام نہیں ہوسکتا۔
اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر کذب ہونے کے باوجود وہ حقیقتا کذب نہ ہو۔
لیکن (چونکہ ان کا صدر وابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسے جلیل القدر جلیل القدر اور عظیم انسان سے ہوا لہذا) انہیں کذب سے تعبیر کردیا گیا ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے لیے عصي اور غوي کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
حالانکہ خود قرآن ہی میں ان کے فعل اکل شجر کو نسیان اور ارادے کی کمزوری کا نتیجہ بھی بتلایا گیا ہے۔
جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے دو پہلو بھی ہوسکتے ہیں۔
من وجہ اس میں استحسان اور من وجہ ٰظاہری قباحت کا پہلو ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول اس پہلو سے ظاہری طور پر کذب ہی ہے کہ واقعے کے خلاف تھا۔
بتوں کو انہوں نے خود توڑا تھا۔
لیکن ان کا انتساب بڑے بت کی طرف کیا۔
مگر چونکہ مقصد ان کا تعریفیں اور اثبات توحید تھا اس لیے حقیقت کے اعتبار سے ہم اسے جھوٹ کے بجائے اتمام حجت کا ایک طریق اور مشرکین کی بے عقلی کے اثبات واظہار کا ایک انداز کہیں گے۔
علاوہ ازیں حدیث میں ان کذبات کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہے اور وہ میدان حشر میں اللہ کے روبرو جا کر سفارش کرنے سے اس لیے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے۔
درآں حالیکہ وہ لغزشیں نہیں ہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار سے وہ جھوٹ نہیں ہے۔
مگر وہ اللہ کی عظمت وجلال کی وجہ سے اتنے خوف زدہ ہونگے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ ظاہری مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی۔
گویا حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو قیامت والے دن خشیت الہی کی وجہ سے ان پر طاری ہوگی۔
پھر لطف یہ ہے کہ ان تینوں باتوں میں سے دو تو خود قرآن میں مذکور ہیں حدیث میں تو صرف ان کا حوالہ ہے۔
تیسری بات البتہ صرف حدیث میں مذکور ہے مگر جن حالات میں وہ بات کہی گئی ہےان حالات میں خود قرآن نے اظہار کفر تک اجازت دی ہے۔
پس اگر حدیث پر اعتاب اتارنا ہے تو پہلے یہ حضرات قرآن پر اعتاب اتاریں۔
اور اس سے اپنی براءت کا اظہار کریں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2212   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.