الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
79. بَابُ وُجُوبِ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَجُعِلَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ:
79. باب: صفا اور مروہ کی سعی واجب ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔
(79) Chapter. The Tawaf (Sa’y) between As-Safa and Al-Marwa is compulsory and is one of the Symbols of Allah.
حدیث نمبر: 1643
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال عروة:" سالت عائشة رضي الله عنها، فقلت لها: ارايت قول الله تعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما سورة البقرة آية 158 فوالله ما على احد جناح ان لا يطوف بالصفا والمروة، قالت: بئس ما قلت يا ابن اختي، إن هذه لو كانت كما اولتها عليه كانت لا جناح عليه ان لا يتطوف بهما، ولكنها انزلت في الانصار، كانوا قبل ان يسلموا يهلون لمناة الطاغية التي كانوا يعبدونها عند المشلل، فكان من اهل يتحرج ان يطوف بالصفا والمروة، فلما اسلموا سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، قالوا: يا رسول الله، إنا كنا نتحرج ان نطوف بين الصفا والمروة؟ فانزل الله تعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158، قالت عائشة رضي الله عنها: وقد سن رسول الله صلى الله عليه وسلم الطواف بينهما، فليس لاحد ان يترك الطواف بينهما، ثم اخبرت ابا بكر بن عبد الرحمن، فقال: إن هذا لعلم ما كنت سمعته، ولقد سمعت رجالا من اهل العلم يذكرون ان الناس إلا من ذكرت عائشة ممن كان يهل بمناة كانوا يطوفون كلهم بالصفا والمروة، فلما ذكر الله تعالى الطواف بالبيت ولم يذكر الصفا والمروة في القرآن، قالوا: يا رسول الله، كنا نطوف بالصفا والمروة وإن الله انزل الطواف بالبيت، فلم يذكر الصفا، فهل علينا من حرج ان نطوف بالصفا والمروة؟ فانزل الله تعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158، قال ابو بكر: فاسمع هذه الآية نزلت في الفريقين كليهما في الذين كانوا يتحرجون ان يطوفوا بالجاهلية بالصفا والمروة والذين يطوفون، ثم تحرجوا ان يطوفوا بهما في الإسلام من اجل ان الله تعالى امر بالطواف بالبيت ولم يذكر الصفا، حتى ذكر ذلك بعد ما ذكر الطواف بالبيت".حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قال عُرْوَةُ:" سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقُلْتُ لَهَا: أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 فَوَاللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ جُنَاحٌ أَنْ لَا يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، قَالَتْ: بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي، إِنَّ هَذِهِ لَوْ كَانَتْ كَمَا أَوَّلْتَهَا عَلَيْهِ كَانَتْ لَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَتَطَوَّفَ بِهِمَا، وَلَكِنَّهَا أُنْزِلَتْ فِي الْأَنْصَارِ، كَانُوا قَبْلَ أَنْ يُسْلِمُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي كَانُوا يَعْبُدُونَهَا عِنْدَ الْمُشَلَّلِ، فَكَانَ مَنْ أَهَلَّ يَتَحَرَّجُ أَنْ يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا أَسْلَمُوا سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَتَحَرَّجُ أَنْ نَطُوفَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَقَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتْرُكَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ أَخْبَرْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا لَعِلْمٌ مَا كُنْتُ سَمِعْتُهُ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَذْكُرُونَ أَنَّ النَّاسَ إِلَّا مَنْ ذَكَرَتْ عَائِشَةُ مِمَّنْ كَانَ يُهِلُّ بِمَنَاةَ كَانُوا يَطُوفُونَ كُلُّهُمْ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا ذَكَرَ اللَّهُ تَعَالَى الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ وَلَمْ يَذْكُرْ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ فِي الْقُرْآنِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنَّا نَطُوفُ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَإِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، فَلَمْ يَذْكُرْ الصَّفَا، فَهَلْ عَلَيْنَا مِنْ حَرَجٍ أَنْ نَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَأَسْمَعُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي الْفَرِيقَيْنِ كِلَيْهِمَا فِي الَّذِينَ كَانُوا يَتَحَرَّجُونَ أَنْ يَطُوفُوا بِالْجَاهِلِيَّةِ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَالَّذِينَ يَطُوفُونَ، ثُمَّ تَحَرَّجُوا أَنْ يَطُوفُوا بِهِمَا فِي الْإِسْلَامِ مِنْ أَجْلِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَمَرَ بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ وَلَمْ يَذْكُرْ الصَّفَا، حَتَّى ذَكَرَ ذَلِكَ بَعْدَ مَا ذَكَرَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی کہ عروہ نے بیان کیا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے (جو سورۃ البقرہ میں ہے کہ) صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس لے جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے ان کا طواف کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ قسم اللہ کی پھر تو کوئی حرج نہ ہونا چاہئیے اگر کوئی صفا اور مروہ کی سعی نہ کرنی چاہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا بھتیجے! تم نے یہ بری بات کہی۔ اللہ کا مطلب یہ ہوتا تو قرآن میں یوں اترتا ان کے طواف نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں بات یہ ہے کہ یہ آیت تو انصار کے لیے اتری تھی جو اسلام سے پہلے منات بت کے نام پر جو مشلل میں رکھا ہوا تھا اور جس کی یہ پوجا کیا کرتے تھے۔، احرام باندھتے تھے۔ یہ لوگ جب (زمانہ جاہلیت میں) احرام باندھتے تو صفا مروہ کی سعی کو اچھا نہیں خیال کرتے تھے۔ اب جب اسلام لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا اور کہا کہ یا رسول اللہ! ہم صفا اور مروہ کی سعی اچھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں آخر آیت تک۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو پہاڑوں کے درمیان سعی کی سنت جاری کی ہے۔ اس لیے کسی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اسے ترک کر دے۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں نے اس کا ذکر ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو یہ علمی بات اب تک نہیں سنی تھی، بلکہ میں نے بہت سے اصحاب علم سے تو یہ سنا ہے کہ وہ یوں کہتے تھے کہ عرب کے لوگ ان لوگوں کے سوا جن کا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا جو مناۃ کے لیے احرام باندھتے تھے سب صفا مروہ کا پھیرا کیا کرتے تھے۔ اور جب اللہ نے قرآن شریف میں بیت اللہ کے طواف کا ذکر فرمایا اور صفا مروہ کا ذکر نہیں کیا تو وہ لوگ کہنے لگے یا رسول اللہ! ہم تو جاہلیت کے زمانہ میں صفا اور مروہ کا پھیرا کیا کرتے تھے اور اب اللہ نے بیت اللہ کے طواف کا ذکر تو فرمایا لیکن صفا مروہ کا ذکر نہیں کیا تو کیا صفا مروہ کی سعی کرنے میں ہم پر کچھ گناہ ہو گا؟ تب اللہ نے یہ آیت اتاری۔ صفا مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں آخر آیت تک۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں سنتا ہوں کہ یہ آیت دونوں فرقوں کے باب میں اتری ہے یعنی اس فرقے کے باب میں جو جاہلیت کے زمانے میں صفا مروہ کا طواف برا جانتا تھا اور اس کے باب میں جو جاہلیت کے زمانے میں صفا مروہ کا طواف کیا کرتے تھے۔ پھر مسلمان ہونے کے بعد اس کا کرنا اس وجہ سے کہ اللہ نے بیت اللہ کے طواف کا ذکر کیا اور صفا و مروہ کا نہیں کیا، برا سمجھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے بیت اللہ کے طواف کے بعد ان کے طواف کا بھی ذکر فرما دیا۔

Narrated `Urwa: I asked `Aisha : "How do you interpret the statement of Allah,. : Verily! (the mountains) As-Safa and Al-Marwa are among the symbols of Allah, and whoever performs the Hajj to the Ka`ba or performs `Umra, it is not harmful for him to perform Tawaf between them (Safa and Marwa.) (2.158). By Allah! (it is evident from this revelation) there is no harm if one does not perform Tawaf between Safa and Marwa." `Aisha said, "O, my nephew! Your interpretation is not true. Had this interpretation of yours been correct, the statement of Allah should have been, 'It is not harmful for him if he does not perform Tawaf between them.' But in fact, this divine inspiration was revealed concerning the Ansar who used to assume lhram for worship ping an idol called "Manat" which they used to worship at a place called Al-Mushallal before they embraced Islam, and whoever assumed Ihram (for the idol), would consider it not right to perform Tawaf between Safa and Marwa. When they embraced Islam, they asked Allah's Apostle (p.b.u.h) regarding it, saying, "O Allah's Apostle! We used to refrain from Tawaf between Safa and Marwa." So Allah revealed: 'Verily; (the mountains) As-Safa and Al-Marwa are among the symbols of Allah.' " Aisha added, "Surely, Allah's Apostle set the tradition of Tawaf between Safa and Marwa, so nobody is allowed to omit the Tawaf between them." Later on I (`Urwa) told Abu Bakr bin `Abdur-Rahman (of `Aisha's narration) and he said, 'I have not heard of such information, but I heard learned men saying that all the people, except those whom `Aisha mentioned and who used to assume lhram for the sake of Manat, used to perform Tawaf between Safa and Marwa. When Allah referred to the Tawaf of the Ka`ba and did not mention Safa and Marwa in the Qur'an, the people asked, 'O Allah's Apostle! We used to perform Tawaf between Safa and Marwa and Allah has revealed (the verses concerning) Tawaf of the Ka`ba and has not mentioned Safa and Marwa. Is there any harm if we perform Tawaf between Safa and Marwa?' So Allah revealed: "Verily As-Safa and Al- Marwa are among the symbols of Allah." Abu Bakr said, "It seems that this verse was revealed concerning the two groups, those who used to refrain from Tawaf between Safa and Marwa in the Pre- Islamic Period of ignorance and those who used to perform the Tawaf then, and after embracing Islam they refrained from the Tawaf between them as Allah had enjoined Tawaf of the Ka`ba and did not mention Tawaf (of Safa and Marwa) till later after mentioning the Tawaf of the Ka`ba.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 706

   صحيح البخاري1762عائشة بنت عبد اللهطاف بالبيت وبين الصفا والمروة لم يحل وكان معه الهدي فطاف من كان معه من نسائه وأصحابه وحل منهم من لم يكن معه الهدي حاضت هي فنسكنا مناسكنا من حجنا لما كان ليلة الحصبة ليلة النفر قالت يا رسول الله كل أصحابك يرجع بحج وعمرة
   صحيح البخاري1643عائشة بنت عبد اللهأرأيت قول الله إن الصفا والمروة من شعائر الله من حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما فوالله ما على أحد جناح أن لا يطوف بالصفا والمروة
   صحيح مسلم3081عائشة بنت عبد اللهطاف رسول الله وطاف المسلمون فكانت سنة وإنما كان من أهل لمناة الطاغية التي بالمشلل لا يطوفون بين الصفا والمروة فلما كان الإسلام سألنا النبي عن ذلك فأنزل الله إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر
   صحيح مسلم3076عائشة بنت عبد اللهطاف النبي في حجة الوداع حول الكعبة على بعيره يستلم الركن كراهية أن يضرب عنه الناس
   جامع الترمذي2965عائشة بنت عبد اللهطاف رسول الله وطاف المسلمون إنما كان من أهل لمناة الطاغية التي بالمشلل لا يطوفون بين الصفا والمروة فأنزل الله تبارك و فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما
   سنن النسائى الصغرى2931عائشة بنت عبد اللهطاف في حجة الوداع حول الكعبة على بعير يستلم الركن بمحجنه
   سنن النسائى الصغرى2970عائشة بنت عبد اللهطاف رسول الله وطفنا معه فكانت سنة
   مسندالحميدي221عائشة بنت عبد اللهفطاف رسول الله صلى الله عليه وسلم وطاف المسلمون

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2965  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عروہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرے، اور میں خود اپنے لیے ان کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں پاتا۔ تو عائشہ نے کہا: اے میرے بھانجے! تم نے بری بات کہہ دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی کیا ہے۔ ہاں ایسا زمانہ جاہلیت میں تھا کہ جو لوگ مناۃ (بت) کے نام پر جو مشلل ۱؎ میں تھا احرام باندھتے تھے وہ صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت: «فمن حج البيت أو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2965]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشلل مدینہ سے کچھ دوری پر ایک مقام کا نام ہے جو قُدید کے پاس ہے۔

2؎: (صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں) اس لیے بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں (البقرہ: 158)

3؎:
خلاصہ یہ ہے کہ آیت کے سیاق کا یہ انداز انصار کی ایک غلط فہمی کا ازالہ ہے جو اسلام لانے کے بعد حج و عمرہ میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کو معیوب سمجھتے تھے کیونکہ صفا پر ایک بت اِساف نام کا تھا،
اور مروہ پر نائلہ نام کا،
اس پر اللہ نے فرمایا:
ارے اب اسلام میں ان دونوں کو توڑ دیا گیا ہے،
اب ان کے درمیان سعی کرنے میں شرک کا شائبہ نہیں رہ گیا،
بلکہ اب تو یہ سعی فرض ہے،
ارشاد نبوی ہے (اسعَوا فَإِنَّ اللہَ کَتَبَ عَلَیْکُمُ السَّعْی) (احمد والحاکم بسند حسن) (یعنی:
سعی کرو،
کیونکہ اللہ نے اس کو تم پر فرض کر دیا ہے)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2965   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1643  
1643. حضرت عروہ بن زبیر ؒ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ آپ اس آیت کریمہ کی وضاحت کریں: بلاشبہ صفا اور مردہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ جو شخص کعبہ کاحج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ صفا ومروہ کی سعی کرے۔ واللہ!اس سے تو یہ معلوم ہوتاہے کہ اگر صفا ومروہ کی سعی نہ کریں تو کسی پر کچھ بھی گناہ نہیں ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اے میرے بھانجے! تو نے غلط بات کہی۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ مطلب ہوتا تو آیت کریمہ یوں ہوتی: ان کے طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ مذکورہ آیت کریمہ انصار کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ اسلام لانے سے پہلے منات کے لیے احرام باندھاکرتے تھے جس کی وہ مقام مشلل کے قریب عبادت کرتے تھے، اس لیے ان میں سے جو شخص احرام باندھتا تو وہ صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنا گناہ خیال کرتا تھا۔ جب یہ لوگ مسلمان ہوئے تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1643]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ ؓ اور ابوبکر بن عبدالرحمٰن ؓ کے کلام میں کچھ فرق ہے۔
حضرت عائشہ ؓ اس آیت کا نزول انصار کے ایک مخصوص گروہ کے متعلق فرماتی ہیں جبکہ ابوبکر بن عبدالرحمٰن اس سے عموم مراد لیتے ہیں۔
شاید حضرت عائشہ ؓ نے دونوں کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ جب ایک کے ذکر سے مقصود حاصل ہو گیا تو دوسرے فریق کا ذکر انہوں نے مناسب نہ سمجھا۔
(2)
خلاصہ یہ ہے کہ انصار، منات سے احرام باندھ کر صفا اور مروہ کا طواف نہیں کرتے تھے اور دوسرے اہل عرب صفا اور مروہ کا طواف کرتے تھے، اب جب اسلام آیا تو فریقین نے اس رسم جاہلیت اور عادت مشرکین کو گناہ خیال کیا تو ان سے کہا گیا کہ طواف کرنے میں گناہ نہیں۔
اس میں وجوب و اباحت سے بحث نہیں ہے کیونکہ وجوب تو پہلے ثابت ہو چکا ہے۔
بہرحال صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا واجب ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا ارشاد گرامی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے دونوں کے درمیان سعی کو مشروع قرار دیا ہے، اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ اسے چھوڑ دے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ صفا اور مروہ کی سعی کا وجوب حضرت عائشہ ؓ کے ان الفاظ سے ہے جو صحیح مسلم میں ہیں کہ اللہ کی قسم! اس شخص کا حج اور عمرہ نامکمل ہے جو صفا اور مروہ کی سعی نہیں کرتا۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3079 (1277)
اس کے واجب ہونے پر زیادہ قوی دلیل رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ آپ نے فرمایا:
مجھ سے حج کا طریقہ سیکھو۔
اور آپ نے صفا اور مروہ کی سعی کی ہے جو اس امر کے تحت ہے، اس لیے اس امر کے تحت جملہ افعال و اعمال واجب ہوں گے۔
(فتح الباري: 629/3)
واللہ أعلم۔
بہرحال جمہور اہل علم کے نزدیک صفا اور مروہ کی سعی حج کے ارکان سے ہے، اس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1643   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.