الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: قسم کھانے اور نذر کے احکام و مسائل
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
28. باب فِي النَّذْرِ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ
28. باب: جس بات کا آدمی کو اختیار نہیں اس کی نذر کا بیان۔
Chapter: A Vow Concerning What One Does Not Possess.
حدیث نمبر: 3316
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا سليمان بن حرب، ومحمد بن عيسى، قالا: حدثنا حماد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي المهلب، عن عمران بن حصين، قال: كانت العضباء لرجل من بني عقيل، وكانت من سوابق الحاج، قال: فاسر، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم وهو في وثاق، والنبي صلى الله عليه وسلم على حمار عليه قطيفة، فقال: يا محمد، علام تاخذني وتاخذ سابقة الحاج؟، قال: ناخذك بجريرة حلفائك ثقيف، قال: وكان ثقيف قد اسروا رجلين من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: وقد قال فيما قال: وانا مسلم، او قال: وقد اسلمت، فلما مضى النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابو داود: فهمت هذا من محمد بن عيسى، ناداه: يا محمد، يا محمد، قال: وكان النبي صلى الله عليه وسلم رحيما، رفيقا، فرجع إليه، فقال: ما شانك؟ قال: إني مسلم، قال: لو قلتها وانت تملك امرك، افلحت كل الفلاح، قال ابو داود: ثم رجعت إلى حديث سليمان، قال: يا محمد، إني جائع فاطعمني، إني ظمآن فاسقني، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هذه حاجتك، او قال: هذه حاجته، قال: ففودي الرجل بعد بالرجلين، قال: وحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم العضباء لرحله، قال: فاغار المشركون على سرح المدينة، فذهبوا بالعضباء، قال: فلما ذهبوا بها، واسروا امراة من المسلمين، قال: فكانوا إذا كان الليل يريحون إبلهم في افنيتهم، قال: فنوموا ليلة، وقامت المراة، فجعلت لا تضع يدها على بعير إلا رغا، حتى اتت على العضباء، قال: فاتت على ناقة ذلول مجرسة، قال: فركبتها، ثم جعلت لله عليها إن نجاها الله لتنحرنها، قال: فلما قدمت المدينة عرفت الناقة ناقة النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، فارسل إليها، فجيء بها، واخبر بنذرها، فقال: بئس ما جزيتيها او جزتها، إن الله انجاها عليها لتنحرنها، لا وفاء لنذر في معصية الله، ولا فيما لا يملك ابن آدم"، قال ابو داود: والمراة هذه امراة ابي ذر.
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كَانَتِ الْعَضْبَاءُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَكَانَتْ مِنْ سَوَابِقِ الْحَاجِّ، قَالَ: فَأُسِرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي وَثَاقٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، عَلَامَ تَأْخُذُنِي وَتَأْخُذُ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟، قَالَ: نَأْخُذُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ، قَالَ: وَكَانَ ثَقِيفُ قَدْ أَسَرُوا رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَقَدْ قَالَ فِيمَا قَالَ: وَأَنَا مُسْلِمٌ، أَوْ قَالَ: وَقَدْ أَسْلَمْتُ، فَلَمَّا مَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: فَهِمْتُ هَذَا مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى، نَادَاهُ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا، رَفِيقًا، فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، قَالَ: لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ، أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى حَدِيثِ سُلَيْمَانَ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، إِنِّي ظَمْآنٌ فَاسْقِنِي، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذِهِ حَاجَتُكَ، أَوْ قَالَ: هَذِهِ حَاجَتُهُ، قَالَ: فَفُودِيَ الرَّجُلُ بَعْدُ بِالرَّجُلَيْنِ، قَالَ: وَحَبَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَضْبَاءَ لِرَحْلِهِ، قَالَ: فَأَغَارَ الْمُشْرِكُونَ عَلَى سَرْحِ الْمَدِينَةِ، فَذَهَبُوا بِالْعَضْبَاءِ، قَالَ: فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهَا، وَأَسَرُوا امْرَأَةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: فَكَانُوا إِذَا كَانَ اللَّيْلُ يُرِيحُونَ إِبِلَهُمْ فِي أَفْنِيَتِهِمْ، قَالَ: فَنُوِّمُوا لَيْلَةً، وَقَامَتِ الْمَرْأَةُ، فَجَعَلَتْ لَا تَضَعُ يَدَهَا عَلَى بَعِيرٍ إِلَّا رَغَا، حَتَّى أَتَتْ عَلَى الْعَضْبَاءِ، قَالَ: فَأَتَتْ عَلَى نَاقَةٍ ذَلُولٍ مُجَرَّسَةٍ، قَالَ: فَرَكِبَتْهَا، ثُمَّ جَعَلَتْ لِلَّهِ عَلَيْهَا إِنْ نَجَّاهَا اللَّهُ لَتَنْحَرَنَّهَا، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِينَةَ عُرِفَتِ النَّاقَةُ نَاقَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، فَجِيءَ بِهَا، وَأُخْبِرَ بِنَذْرِهَا، فَقَالَ: بِئْسَ مَا جَزَيْتِيهَا أَوْ جَزَتْهَا، إِنِ اللَّهُ أَنْجَاهَا عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَالْمَرْأَةُ هَذِهِ امْرَأَةُ أَبِي ذَرٍّ.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عضباء ۱؎ بنو عقیل کے ایک شخص کی تھی، حاجیوں کی سواریوں میں آگے چلنے والی تھی، وہ شخص گرفتار کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بندھا ہوا لایا گیا، اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور آپ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے، اس نے کہا: محمد! آپ نے مجھے اور حاجیوں کی سواریوں میں آگے جانے والی میری اونٹنی (عضباء) کو کس بنا پر پکڑ رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے تمہارے حلیف ثقیف کے گناہ کے جرم میں پکڑ رکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں: ثقیف نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو شخصوں کو قید کر لیا تھا۔ اس نے جو بات کہی اس میں یہ بات بھی کہی کہ میں مسلمان ہوں، یا یہ کہا کہ میں اسلام لے آیا ہوں، تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے (آپ نے کوئی جواب نہیں دیا) تو اس نے پکارا: اے محمد! اے محمد! عمران کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رحم دل اور نرم مزاج تھے، اس کے پاس لوٹ آئے، اور پوچھا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: میں مسلمان ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم یہ پہلے کہتے جب تم اپنے معاملے کے مختار تھے تو تم بالکل بچ جاتے اس نے کہا: اے محمد! میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلاؤ، میں پیاسا ہوں مجھے پانی پلاؤ۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: یہی تمہارا مقصد ہے یا: یہی اس کا مقصد ہے۔ راوی کہتے ہیں: پھر وہ دو آدمیوں کے بدلے فدیہ میں دے دیا گیا ۲؎ اور عضباء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کے لیے روک لیا (یعنی واپس نہیں کیا)۔ پھر مشرکین نے مدینہ کے جانوروں پر حملہ کیا اور عضباء کو پکڑ لے گئے، تو جب اسے لے گئے اور ایک مسلمان عورت کو بھی پکڑ لے گئے، جب رات ہوتی تو وہ لوگ اپنے اونٹوں کو اپنے کھلے میدانوں میں سستانے کے لیے چھوڑ دیتے، ایک رات وہ سب سو گئے، تو عورت (نکل بھاگنے کے ارادہ) سے اٹھی تو وہ جس اونٹ پر بھی ہاتھ رکھتی وہ بلبلانے لگتا یہاں تک کہ وہ عضباء کے پاس آئی، وہ ایک سیدھی سادی سواری میں مشاق اونٹنی کے پاس آئی اور اس پر سوار ہو گئی اس نے نذر مان لی کہ اگر اللہ نے اسے بچا دیا تو وہ اسے ضرور قربان کر دے گی۔ جب وہ مدینہ پہنچی تو اونٹنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی حیثیت سے پہچان لی گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی، آپ نے اسے بلوایا، چنانچہ اسے بلا کر لایا گیا، اس نے اپنی نذر کے متعلق بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتنا برا ہے جو تم نے اسے بدلہ دینا چاہا، اللہ نے اسے اس کی وجہ سے نجات دی ہے تو وہ اسے نحر کر دے، اللہ کی معصیت میں نذر کا پورا کرنا نہیں اور نہ ہی نذر اس مال میں ہے جس کا آدمی مالک نہ ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ عورت ابوذر کی بیوی تھیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/النذر 3 (1641)، سنن النسائی/الأیمان 31 (3821)، 41 (3860)، (تحفة الأشراف: 10884)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/ السیر (1568)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 16 (2124)، مسند احمد (4/426، 430، 432، 433)، دی/ النذور 3 (2382) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: ایک اونٹنی کا نام ہے۔
۲؎: یعنی ثقیف نے اسے لے لیا اور اس کے بدلہ میں ان دونوں مسلمانوں کو چھوڑ دیا جنہیں انہوں نے پکڑ رکھا تھا۔

Imran bin Husain said: Adba belonged to a man of Banu Aqil. It used to go ahead of pligrims. The man was then captivated. He was brought in chains to the Prophet ﷺ. The Prophet ﷺ was riding on a donkey with a blanket on him. He said: Muhammad, why do you arrest me and capture the one (i. e. the she-camel) which goes ahead of the pilgrims. He replied: We are arresting you on account of the crime committed by your allies Thaqid. Thaqif captivated two persons from among the Companions of the Prophet ﷺ. He said (whatever he said) I am a Muslim, or he said: I have embraced Islam. When the Prophet ﷺ went ahead, he called him: O Muhammed, O Muhammed. Abu Dawud said: I learnt it from the version of the narrator Muhammad bin 'Isa. The Prophet ﷺ was compassionate and kind hearted. So he returned to him, and asked: What is the matter with you ? He replied: I am a Muslim. He said: Had you said it when the matter was in your hand, you would have succeeded completely. Abu Dawud said: I then returned to the version of the narrator Sulaiman (b. Harb). He said: Muhammad, I am hungry, so feed me. I am thirsty, so give me water. The Prophet ﷺ said: This is your need, or he said: This is his need (the narrator is doubtful). Later on the man was taken back (by Thaqif) as a ransom for the two men (of the Companions of the Prophet). The Prophet ﷺ retained Adba for his journey. The narrator said: The polytheists raided the pasturing animals of Madina and they took away Adba. When they took away Adba, they also captivated a Muslim woman. They used to leave their camels in the fields for rest at night. One night they slept and the (Muslim) woman stood up. Any camel on which she put her hand brayed until she came to Adba. She came to a she-camel which was docile and experienced. She then rode on her and vowed to Allah that if He saved her, she would sacrifice it. When she came to Madina, the people recognized the she-camel of the Prophet ﷺ. The Prophet ﷺ was then informed about it and he sent for her. She was brought to him and she informed him about her vow. He said: It is a bad return that you have given it. Allah has not saved you, on its (back) that you now sacrifice it. A vow to do an act of disobedience must not be fulfilled, or to do something over which one has no control. Abu Dawud said: This woman was the wife of Abu Dharr.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3310


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1641)
   صحيح مسلم4245عمران بن الحصينأخذتك بجريرة حلفائك ثقيف ثم انصرف عنه فناداه فقال يا محمد يا محمد وكان رسول الله رحيما رقيقا فرجع إليه فقال ما شأنك قال إني مسلم قال لو قلتها وأنت تملك أمرك أفلحت كل ا
   جامع الترمذي1568عمران بن الحصينفدى رجلين من المسلمين برجل من المشركين
   سنن أبي داود3316عمران بن الحصينبجريرة حلفائك ثقيف قال وكان ثقيف قد أسروا رجلين من أصحاب النبي قال وقد قال فيما قال وأنا مسلم أو قال وقد أسلمت فلما مضى النبي ناداه يا محمد قال وكان النبي رحيما رفيقا فرجع إليه فقال ما شأنك قال إني مسلم قال لو قلتها وأنت تملك أمرك أفلحت كل الفلاح قال يا م
   بلوغ المرام1105عمران بن الحصينفدى رجلين من المسلمين برجل من المشركين
   مسندالحميدي851عمران بن الحصينلو قلتها وأنت تملك أمرك، كنت قد أفلحت كل الفلاح

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1105  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا عمران حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ایک قیدی مرد کے بدلہ میں دو مسلمان مردوں کو چھڑوایا۔ اس کی تخریج ترمذی نے کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1105»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، السير، باب ما جاء في قتل الأساري والفداء، حديث:1568، ومسلم، النذر، حديث:1641.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اسیران جنگ کا تبادلہ درست ہے۔
جمہور علماء کی رائے بھی یہی ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تبادلہ درست نہیں۔
ان کی رائے میں قیدی کو مار ڈالنا یا غلام بنا لینا چاہیے حالانکہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو گرفتار کیا تو بنو ثقیف نے دو صحابہ رضی اللہ عنہما کو گرفتار کر لیا۔
بنو ثقیف‘ بنو عقیل کے حلیف تھے۔
مشرکین نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو رہا کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشرک کو چھوڑ دیا۔
یہ جمہور کی واضح دلیل ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1105   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1568  
´قیدیوں کے قتل کرنے اور فدیہ لے کر انہیں چھوڑنے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ایک قیدی مرد کے بدلہ میں دو مسلمان مردوں کو چھڑوایا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1568]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جنگی قیدیوں کا تبادلہ درست ہے،
جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1568   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3316  
´جس بات کا آدمی کو اختیار نہیں اس کی نذر کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عضباء ۱؎ بنو عقیل کے ایک شخص کی تھی، حاجیوں کی سواریوں میں آگے چلنے والی تھی، وہ شخص گرفتار کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بندھا ہوا لایا گیا، اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور آپ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے، اس نے کہا: محمد! آپ نے مجھے اور حاجیوں کی سواریوں میں آگے جانے والی میری اونٹنی (عضباء) کو کس بنا پر پکڑ رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے تمہارے حلیف ثقیف کے گناہ کے جرم میں پکڑ رکھا ہے۔‏‏‏‏ راوی کہتے ہیں: ثقیف نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے د۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3316]
فوائد ومسائل:
اس واقعہ میں چونکہ یہ خاتون اس اونٹنی کی مالک نہ تھی۔
اس لئے اس کی نذر لغو قرار دی گئی۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اضطراری صورت میں عورت اکیلے سفر کر سکتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3316   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.