الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
Wages (Kitab Al-Ijarah)
54. باب فِي تَضْمِينِ الْعَارِيَةِ
54. باب: مانگی ہوئی چیز ضائع اور برباد ہو جائے تو ضامن کون ہو گا؟
Chapter: Regarding Liability For Something Borrowed.
حدیث نمبر: 3562
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا الحسن بن محمد، وسلمة بن شبيب، قالا: حدثنا يزيد بن هارون، حدثنا شريك، عن عبد العزيز بن رفيع، عن امية بن صفوان بن امية، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" استعار منه ادراعا يوم حنين، فقال: اغصب يا محمد، فقال: لا، بل عارية مضمونة"، قال ابو داود: وهذه رواية يزيد، ببغداد، وفي روايته بواسط تغير على غير هذا.
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيب، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" اسْتَعَارَ مِنْهُ أَدْرَاعًا يَوْمَ حُنَيْنٍ، فَقَالَ: أَغَصْبٌ يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ: لَا، بَلْ عَارِيَةٌ مَضْمُونَةٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذِهِ رِوَايَةُ يَزِيدَ، بِبَغْدَادَ، وَفِي رِوَايَتِهِ بِوَاسِطٍ تَغَيُّرٌ عَلَى غَيْرِ هَذَا.
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی لڑائی کے دن ان سے کچھ زرہیں عاریۃً لیں تو وہ کہنے لگے: اے محمد! کیا آپ زبردستی لے رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں عاریت کے طور پر لے رہا ہوں، جس کی واپسی کی ذمہ داری میرے اوپر ہو گی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ یزید کی بغداد کی روایت ہے اور واسط ۱؎ میں ان کی جو روایت ہے وہ اس سے مختلف ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4945)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/401، 6/465) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: واسط عراق کا ایک مشہور شہر ہے۔

Narrated Safwan ibn Umayyah: The Messenger of Allah ﷺ borrowed coats of mail from him on the day of (the battle of) Hunayn. He asked: Are you taking them by force. Muhammad? He replied: No, it is a loan with a guarantee of their return. Abu Dawud said: This tradition narrated by Yazid (b. Harun) at Baghdad. There is some change in the tradition narrated by him at Wasit, which is something different.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3555


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
نسائي في الكبريٰ (5779)
شريك مدلس وعنعن
وللحديث شواھد ضعيفة
وحديث الحاكم (2/ 47) يخالفه وسنده حسن،انظر بلوغ المرام بتحقيقي (754)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 126
   سنن أبي داود3562صفوان بن أميةعارية مضمونة
   بلوغ المرام754صفوان بن أمية بل عارية مضمونة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 754  
´ادھار لی ہوئی چیز کا بیان`
سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقع پر اس (صفوان) سے کچھ زرہیں عاریتاً لیں۔ اس نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا آپ زبردستی غصب کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! بلکہ ضمانت کے ساتھ عاریتاً لے رہا ہوں۔ اسے ابوداؤد، نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ایک ضعیف روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بھی بطور شہادت ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 754»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب في تضمين العارية، حديث:3562، والحاكم:2 /47 وصححه، ووافقه الذهبي. وحديث ابن عباس أخرجه الحاكم وصححه علي شرط مسلم، ووافقه الذهبي وإسناده حسن، إسحاق بن عبدالواحد وثقه الجمهور فحديثه لا ينزل عن درجة الحسن. «وفيه قال صفوان: يا رسول الله» ‏‏‏‏»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر سیرحاصل بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۴ /۱۳- ۱۵‘ والصحیحۃ للألباني‘ رقم:۶۳۲) 2. نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت صفوان رضی اللہ عنہ سے جنگ حنین کے موقع پر زرہیں عاریتاً لی تھیں اس وقت وہ غیر مسلم تھے‘ لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم سے بھی عاریتاً کوئی چیز لینی جائز ہے۔
3. ضمانت پر مستعار لی ہوئی چیز کو واپس کرنا بھی ضروری ہے۔
اگر کسی وجہ سے ضائع ہو جائے تو اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔
4. عاریتاً چیز لینے والا اگر عمداً اسے تلف و ضائع کر دے تو اس صورت میں سب کے نزدیک اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
راویٔ حدیث:
«حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ اس سے صفوان بن اُمَیّہ بن خلف بن وھب قرشي جمحي مراد ہیں جو مکہ کے باشندے تھے۔
مؤلفۃ القلوب صحابہ میں سے تھے اور اشراف قریش میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
فتح مکہ کے روز فرار ہوگئے تھے۔
ان کے لیے امان طلب کی گئی تو واپس لوٹ آئے اور بعد میں حنین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے لیکن اس وقت یہ حالت کفر میں تھے۔
بعد میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور بہترین اسلام کا ثبوت دیا۔
جن دنوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوائیوں نے شہید کیا انھیں ایام میں یہ فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 754   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.