الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
31. بَابُ التَّيَمُّنِ فِي الْوُضُوءِ وَالْغُسْلِ:
31. باب: وضو اور غسل میں داہنی جانب سے ابتداء کرنا ضروری ہے۔
(31) Chapter. While performing ablution or taking a bath one should start from the right side of the body.
حدیث نمبر: 168
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا حفص بن عمر، قال: حدثنا شعبة، قال: اخبرني اشعث بن سليم، قال: سمعت ابي، عن مسروق، عن عائشة، قالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يعجبه التيمن في تنعله وترجله وطهوره وفي شانه كله".حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَشْعَثُ بْنُ سُلَيْمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ التَّيَمُّنُ فِي تَنَعُّلِهِ وَتَرَجُّلِهِ وَطُهُورِهِ وَفِي شَأْنِهِ كُلِّهِ".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں اشعث بن سلیم نے خبر دی، ان کے باپ نے مسروق سے سنا، وہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے، کنگھی کرنے، وضو کرنے اور اپنے ہر کام میں داہنی طرف سے کام کی ابتداء کرنے کو پسند فرمایا کرتے تھے۔

Narrated `Aisha: The Prophet used to like to start from the right side on wearing shoes, combing his hair and cleaning or washing himself and on doing anything else.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 169

   صحيح البخاري5926عائشة بنت عبد اللهيعجبه التيمن ما استطاع في ترجله ووضوئه
   صحيح البخاري5854عائشة بنت عبد اللهيحب التيمن في طهوره وترجله وتنعله
   صحيح البخاري426عائشة بنت عبد اللهيحب التيمن ما استطاع في شأنه كله في طهوره وترجله وتنعله
   صحيح البخاري5380عائشة بنت عبد اللهيحب التيمن ما استطاع في طهوره وتنعله وترجله وكان قال بواسط قبل هذا في شأنه كله
   صحيح البخاري168عائشة بنت عبد اللهيعجبه التيمن في تنعله وترجله وطهوره وفي شأنه كله
   صحيح مسلم616عائشة بنت عبد اللهليحب التيمن في طهوره إذا تطهر وفي ترجله إذا ترجل وفي انتعاله إذا انتعل
   صحيح مسلم617عائشة بنت عبد اللهيحب التيمن في شأنه كله في نعليه وترجله وطهوره
   جامع الترمذي608عائشة بنت عبد اللهيحب التيمن في طهوره إذا تطهر وفي ترجله إذا ترجل وفي انتعاله إذا انتعل
   سنن أبي داود4140عائشة بنت عبد اللهيحب التيمن ما استطاع في شأنه كله في طهوره وترجله ونعله
   سنن النسائى الصغرى421عائشة بنت عبد اللهيحب التيمن ما استطاع في طهوره وتنعله وترجله وقال بواسط في شأنه كله
   سنن النسائى الصغرى112عائشة بنت عبد اللهيحب التيامن ما استطاع في طهوره ونعله وترجله
   سنن النسائى الصغرى5062عائشة بنت عبد اللهيحب التيامن يأخذ بيمينه ويعطي بيمينه ويحب التيمن في جميع أموره
   سنن النسائى الصغرى5242عائشة بنت عبد اللهيحب التيامن ما استطاع في طهوره وتنعله وترجله
   سنن ابن ماجه401عائشة بنت عبد اللهيحب التيمن في الطهور إذا تطهر وفي ترجله إذا ترجل وفي انتعاله إذا انتعل
   بلوغ المرام41عائشة بنت عبد اللهيعجبه التيمن في تنعله وترجله وطهوره،‏‏‏‏ وفي شانه كله
   سنن أبي داود33عائشة بنت عبد اللهيد رسول الله اليمنى لطهوره وطعامه وكانت يده اليسرى لخلائه وما كان من أذى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 41  
´ ہر اچھے کام میں دائیں جانب سے ابتداء`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يعجبه التيمن في تنعله وترجله وطهوره،‏‏‏‏ وفي شانه كله . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے، بالوں میں کنگھی کرنے اور وضو کرنے بلکہ ہر کام کیلئے دائیں جانب کو پسند فرماتے تھے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 41]

لغوی تشریح:
«يُعْجِبُهُ التَّيَمُّنُ» یعنی آپ کو دائیں جانب کو مقدم کرنا محبوب و پسندیدہ تھا۔
«فِيْ تَنَعُّلِهِ» جوتا پہننے میں۔‏‏‏‏
«وَتَرَجُّلِهِ» اور بالوں میں کنگھی کرنے میں۔‏‏‏‏

فوائد و مسائل:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر اچھے کام میں دائیں جانب کو پسند فرماتے، مثلاً مسجد میں داخل ہونے، نماز سے فارغ ہونے کے وقت سلام پھیرنے، اعضائے وضو کو دھونے، کھانے پینے، مصافحہ کرنے، دودھ دوہنے، لباس پہننے، سرمہ لگانے اور مسواک وغیرہ کرنے میں۔
➋ دور جدید کا مسلمان ان گراں مایہ چیزوں کو فراموش کر بیٹھا ہے اور غیروں کی نقالی میں دائیں کی بجائے بائیں جانب کو پسند کرنے لگا ہے۔ یہ بڑی قابل افسوس بات ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 41   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 168  
´ ہر کام میں داہنی طرف سے کام کی ابتداء کرنا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ التَّيَمُّنُ فِي تَنَعُّلِهِ وَتَرَجُّلِهِ وَطُهُورِهِ وَفِي شَأْنِهِ كُلِّهِ . . .»
. . . ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے، کنگھی کرنے، وضو کرنے اور اپنے ہر کام میں داہنی طرف سے کام کی ابتداء کرنے کو پسند فرمایا کرتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ التَّيَمُّنِ فِي الْوُضُوءِ وَالْغُسْلِ: 168]

تخريج الحديث:
[152۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 21 باب التيمن فى الوضوء والغسل 168، مسلم 268، ترمذي 608]
لغوی توضیح:
«التَّيَمُّن» تمام کاموں میں دائیں ہاتھ، دائیں پاؤں اور دائیں جانب سے ابتدا کرنا۔
«تَنَعُّلِه» جوتی پہننا۔
«تَرَجُّلِه» سر یا داڑھی میں کنگھی کرنا۔
«طُهُوْرِه» وضو کرنا۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 152   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 112  
´کس پاؤں کو پہلے دھوئے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ذکر کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وضو کرنے میں، جوتا پہننے میں، اور کنگھی کرنے میں طاقت بھر داہنی جانب کو پسند کرتے تھے۔ شعبہ کہتے ہیں: پھر میں نے اشعث سے مقام واسط میں سنا وہ کہہ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام امور کو داہنے سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے، پھر میں نے کوفہ میں انہیں کہتے ہوئے سنا کہ آپ حتیٰ المقدور داہنے سے شروع کرنے کو پسند کرتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 112]
112۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا کہ حدیث میں دونوں لفظ ہیں۔ ایک کا ذکر ایک موقع پر ہو گیا اور دوسرے کا دوسرے موقع پر، یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے خلاف نہیں، بلکہ مآل ایک ہی ہے۔
➋ دیگر پسندیدہ کاموں کی طرح وضو میں بھی دھوئے جانے والے اعضاء میں دائیں جانب سے ابتدا کرنا مستحب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نیک اور جنتی لوگوں کے لیے ﴿اصحاب الیمین﴾ [الواقعة: 27: 56]
دائیں طرف والے کا لقب پسند فرمایا ہے۔ قدرتی طور پر عموماً دائیں جانب میں بائیں سے زیادہ قوت ہوتی ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شریعت کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ پسندیدہ اور تزیین والے کاموں میں دائیں جانب سے ابتدا کرنا مستحب ہے، مثلاً: لباس پہننا، مسجد میں داخل ہونا، کنگھی کرنا اور نماز میں سلام پھیرنا وغیرہ اور جو کام اس کے برعکس ہیں، انہیں بائیں جانب سے شروع کرنا مستحب ہے، مثلاً: بیت الخلا میں جانا، مسجد سے نکلنا اور لباس اتارنا وغیرہ۔ دیکھیے: [شرح مسلم للنوي: 205/3، تحت حدیث: 268]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 112   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 421  
´طہارت میں داہنے سے شروع کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طہارت میں، جوتا پہننے میں، اور کنگھا کرنے میں جہاں تک ہو سکتا تھا داہنے کو پسند فرماتے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 421]
421۔ اردو حاشیہ: جوتا پہننا اور کنگھی کرنا اگرچہ عبادات میں داخل نہیں مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں بھی دائیں جانب کو اختیار کرنا پسند فرمایا۔ بعض لوگ عادات اور عبادات میں فرق کرتے ہیں اور عادات میں اتباع رسول کو صرف مستحسن قرار دیتے ہیں، ضروری نہیں سمجھتے، لیکن محدثین دونوں ہی میں اتباع کو ضروری سمجھتے ہیں، الا یہ کہ وہ عادات صرف خصوصی ماحول کا نتیجہ یا آپ کے خاص مزاج و طبیعت کا حصہ ہوں۔ مزید دیکھیے حدیث 112 اور اس کے فوائد۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 421   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 33  
´داہنا ہاتھ وضو اور کھانے کے لیے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيُمْنَى لِطُهُورِهِ وَطَعَامِهِ، وَكَانَتْ يَدُهُ الْيُسْرَى لِخَلَائِهِ، وَمَا كَانَ مِنْ أَذًى. . .»
. . . ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا داہنا ہاتھ وضو اور کھانے کے لیے، اور بایاں ہاتھ پاخانہ اور ان چیزوں کے لیے ہوتا تھا جن میں گندگی ہوتی ہے [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 33]
فوائد و مسائل:
سنن ابي داود حدیث [33، 34] ضعیف ہیں۔
تاہم سنن ابي داود حدیث [32] صحیح ہے اور اس سے یہ مسئلہ ثابت ہے جیسا کہ اس کے فوائد کی تفصیل گزری۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 33   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث401  
´دائیں طرف سے وضو شروع کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب طہارت (وضو و غسل) کرتے اور جب کنگھا کرتے، اور جب جوتے پہنتے تو دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 401]
اردو حاشہ:
(1)
طهور سے مراد ہروہ عمل ہےجس کا تعلق صفائی اور پاکیزگی سے ہو۔
یہاں اس سے مراد وضو اور غسل ہے۔

(2)
ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
(وَفِي شَاْنِه كُلِّه)
اور اپنے ہر کام میں یعنی دوسرے کا موں میں بھی دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے۔ (صحيح البخاري، الوضوء، باب التيمن في الوضوء والغسل، حديث: 168 وصحيح مسلم، الطهارة، باب التيمن في الطهور وغيره، حديث: 268)
لیکن اس سے بعض چیزیں مستثنی ہیں مثلاً استنجاء کرنا، مسجد سے باہر نکلنا، جوتا اتارنا، ناک صاف کرنا، اور اس قسم کے دوسرے کام جن میں طبعی کراہت پائی جاتی ہے۔

(3)
جو کام صرف ایک ہاتھ سے کیے جاتے ہیں۔
ان میں (تيمن)
سے مراد دائیں ہاتھ سے کام کرنا ہوگا، مثلاً:
مصافحہ کرنا، کوئی چیز لینا یا دینا، لکھنا وغیرہ۔
بعض علماء نے اس حدیث کی روشنی میں کہا ہے کہ گھڑی بھی دائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 401   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:168  
168. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ نے جوتا پہننا ہوتا، کنگھی کرنی یا پاکی حاصل کرنی ہوتی، الغرض آپ کو ہر ذی شان کام میں دائیں جانب سے آغاز کرنا اچھا لگتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:168]
حدیث حاشیہ:

عربی زبان میں تیمُّن کے کئی معنی ہیں۔
مثلاً دائیں جانب سے ابتدا کرنا، دائیں ہاتھ سے کوئی چیز لینا، تبرک حاصل کرنا اور قسم کھانا، وغیرہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مذکورہ حدیث تیمُّن کا معنی متعین فرمایا کہ اس سے مراد دائیں جانب سے آغاز کرنا ہے۔
یہ لفظ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر کام میں تیمُّن پسند تھا۔
(فتح الباري: 358/1)
امام بخاری کی عنوان بندی کے متعلق معروف عادت ہے کہ جب انھیں کسی زیر بحث مسئلے کے استدلال میں تنگی نظر آتی ہے تو عنوان کو وسعت دینے کے لیے اس کے ساتھ اسی طرح کی کوئی اور چیز شامل کر دیتے ہیں جس سے مطلب حاصل کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے یہاں بھی وضو میں دائیں جانب سے آغاز کے متعلق جب احادیث میں تنگی نظر آئی تو آپ نے وضو کے ساتھ غسل کا مسئلہ شامل کردیا تاکہ غسل کے متعلق مسئلہ تیمُّن سے وضو میں دائیں جانب سے آغاز کرنے کا مسئلہ واضح ہو جائے کیونکہ اس مسئلے میں غسل اور وضو کا حکم یکساں ہے چنانچہ جب غسل میت کے وضو میں دائیں جانب سے شروع کرنا مطلوب ہے تو پھر نماز کے وضو میں رعایت بدرجہ اولیٰ ملحوظ رہنی چاہیے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو غسل دینے کے متعلق جو ہدایات دی تھیں، ان میں دو باتیں ہیں۔
(1)
۔
دائیں جانب سے شروع کرنا۔
(2)
۔
مقامات وضو سے شروع کرنا ان دونوں باتوں پر بیک وقت عمل کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ غسل کا آغاز اعضائے وضو سے اسی طرح کیا جائے کہ پہلے میت کا دایاں ہاتھ دھویا جائے پھر بایاں ہاتھ اسی طرح جب پاؤں دھونے کی نوبت آئے تو پہلے دایاں پاؤں پھر بایاں پاؤں دھویا جائے۔
اس کے بعد تمام جسم کو غسل دیا جائے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دوسرے نمبر پر بیان کیا ہے حالانکہ اس میں لفظ طہور موجود ہےجو وضو کرتے وقت دائیں جانب سے شروع کرنے کے متعلق بڑی وزنی دلیل ہے لیکن آپ نے اپنے عنوان کے لیے اس حدیث کو بنیاد نہیں بنایا کیونکہ اس حدیث میں تیمُّن اور طہور کے الفاظ اشتراک واجمال کی وجہ سے مقصد کے لیے نص نہیں ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ لفظ تیمُّن دائیں جانب سے شروع کرنے، قسم کھانے، تبرک حاصل کرنے اور دائیں ہاتھ سے لینے کے معانی میں مشترک ہے اسی طرح لفظ طہور میں اجمال ہے کہ اس سے مراد بدن کی طہارت ہے یا کپڑے کی پھر اس سے مراد غسل ہے یا وضو انہی وجوہات کی بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دوسرا درجہ دیا اور حدیث اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پہلا درجہ دے کر اس سےمسئلہ زیر بحث ثابت فرمایا۔

دائیں جانب اختیار کرنے کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ جن امور کا تعلق تکریم و تعظیم اور تزئین و تحسین سے ہے وہ دائیں جانب سے شروع کیے جائیں، مثلاً لباس زیب تن کرنا، موزے پہننا، مسجد میں داخل ہونا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا، ناخن کاٹنا، مونچھیں مونڈنا، بالوں میں کنگھی کرنا، بغلوں کے بال اکھاڑنا، سر منڈوانا، نماز میں سلام پھیرنا، اعضائے طہارت دھونا، بیت الخلاء سے نکلنا، کھانا، پینا، مصافحہ کرنا، حجر اسود کو بوسہ دینا وغیرہ اور جو امور ان کے برعکس ہیں ان میں بائیں جانب اختیار کی جائے، مثلاً:
بیت الخلاء میں داخل ہونا، مسجد سے نکلنا، استنجا کرنا، ناک صاف کرنا، کپڑے یا موزے یا جرابیں اتارنا وغیرہ نیز بعض اعضائے وضو ایسے بھی ہیں۔
جن میں دائیں یا بائیں کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا بلکہ انہیں یکبار ہی دھونا پڑتا ہے مثلاً ہاتھ کان رخسار وغیرہ۔
(عمدة القاري: 472/2)

بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی المقدور دائیں جانب اہتمام کرتے۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 426)
اس کا مطلب یہ ہے کہ دائیں جانب اختیار کرنے میں اگر کوئی رکاوٹ آجائے تو پھر بائیں جانب اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباري: 354/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 168   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.