الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
Chapters: The Book of the Sunnah
45. بَابُ : الاِنْتِفَاعِ بِالْعِلْمِ وَالْعَمَلِ بِهِ
45. باب: علم سے نفع اٹھانے اور اس پر عمل کرنے کا بیان۔
Chapter: Gaining benefit from knowledge and acting in accordance with it
حدیث نمبر: 253
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا حماد بن عبد الرحمن ، حدثنا ابو كرب الازدي ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من طلب العلم ليماري به السفهاء، او ليباهي به العلماء، او ليصرف وجوه الناس إليه، فهو في النار".
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا أَبُو كَرِبٍ الْأَزْدِيُّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ، أَوْ لِيُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ لِيَصْرِفَ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ، فَهُوَ فِي النَّارِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے علم سیکھا تاکہ بے وقوفوں سے بحث و مباحثہ کرے، یا علماء پر فخر کرے، یا لوگوں کو اپنی جانب مائل کرے، تو وہ جہنم میں ہو گا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8544، ومصباح الزجاجة: 101) (حسن)» ‏‏‏‏ (تراجع الألبانی رقم: 389، سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے، اس کی سند میں ”حماد بن عبد الرحمن“ اور ”ابوکرب ازدی“ دونوں مجہول راوی ہیں)

It was narrated from Ibn 'Umar that: The Messenger of Allah said: "Whoever seeks knowledge in order to argue with the foolish, or to show off before the scholars, or to attract people's attention, will be in Hell."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
حماد بن عبد الرحمٰن الكلبي: ضعيف وأبو كرب الأزدي مجھول (تقريب:1502،8326)
وللحديث شواھد ضعيفة عند الترمذي (2654) وغيره
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 384
   جامع الترمذي2655عبد الله بن عمرمن تعلم علما لغير الله أو أراد به غير الله فليتبوأ مقعده من النار
   سنن ابن ماجه258عبد الله بن عمرمن طلب العلم لغير الله أو أراد به غير الله فليتبوأ مقعده من النار
   سنن ابن ماجه253عبد الله بن عمرمن طلب العلم ليماري به السفهاء أو ليباهي به العلماء أو ليصرف وجوه الناس إليه فهو في النار

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 225  
´ریاکار عالم دین کا انجام`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ أَوْ يصرف بِهِ وُجُوه النَّاس إِلَيْهِ أَدخل الله النَّار» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ . . .»
. . . سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس غرض سے علم حاصل کرتا ہے کہ وہ علماء پر فخر کرے یا نادانوں سے جھگڑا کرے یا لوگوں کا چہرہ اپنی طرف پھیرے۔ یعنی اپنی طرف متوجہ کر لے یعنی دینی کی اشاعت کے واسطے علم حاصل نہیں کیا بلکہ دنیا طلبی یا عزت یابی یا لوگوں پر شیخی بگھاڑنے اور لوگوں کو مسخر کرنے کے لئے حاصل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم میں ڈال دے گا۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 225]

تحقیق الحدیث:
یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے۔
◄ سنن ترمذی والی روایت میں اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ بن عبیداللہ القرشی التیمی ضعیف ہے۔ ديكهئے: [تقريب التهذيب: 39۔]
◄ امام ترمذی نے اسی مقام پر فرمایا:
یہ حدیث غریب ہے۔۔۔ اور اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ ان (محدثین) کے نزدیک القوی نہیں ہے، اس کے حافظے کے بارے میں کلام کیا گیا ہے۔ [جامع ترمذي ص598 بتحقيق الالباني]
اُس پر امام احمد بن حنبل وغیرہ نے شدید جرح کی ہے۔
◄ سنن ابن ماجہ [253] والی روایت میں حماد بن عبدالرحمٰن ضعیف [تقريب التهذيب: 1502] اور ابوکرب الازدی مجہول ہے۔ [تقريب التهذيب: 8326]
◄ سنن ابن ماجہ [254] وغیرہ میں «ابن جريح عن ابي الزبير عن جابر بن عبدالله رضي الله عنه» کی سند سے آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تعملوا العلم لتباهوا به العلماء ولا لتماروا به السفهاء ولا تخيروا به المجالس فمن فعل ذلك فالنار النار.»
اس کی سند ابن جریح اور ابوالزبیر دو مدلسوں کے عن عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔
◄ سنن ابن ماجہ میں ہی سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا تعلموا العلم لتباهوا به العلماء أو لتماروا به السفهاء أو لتصرفوا وجوه الناس إليكم فمن فعل ذلك فهو فى النار.» [ح259]
اس روایت کی سند میں بشیر بن میمون: متروك متهم [تقريب التهذيب: 259]
اور اشعث بن سوار ضعيف هے۔ ديكهئے: [تقريب التهذيب: 524]
◄ سنن ابن ماجہ کی ایک اور روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من تعلم العلم ليباهي به العلماء ويجاري به السفهاء ويصرف به وجوه الناس إليه أدخله الله جهنم.» [ح260]
اس کی سند میں عبداللہ بن سعید بن ابی سعید المقبری: متروک ہے۔ [تقريب التهذيب: 3356]
↰ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف روایات کو جمع کر کے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے، حالانکہ یہ حسن نہیں بنتی بلکہ ضعیف ہی ہے۔

فائدہ:
آنے والی حدیث [اضواء المصابيح: 227، ابوداود: 3664، ابن ماجه: 252] اس ضعیف روایت سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ «والحمد لله»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 225   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث253  
´علم سے نفع اٹھانے اور اس پر عمل کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے علم سیکھا تاکہ بے وقوفوں سے بحث و مباحثہ کرے، یا علماء پر فخر کرے، یا لوگوں کو اپنی جانب مائل کرے، تو وہ جہنم میں ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 253]
اردو حاشہ:
(1)
جو شخص بغیر اخلاص کے علم حاصل کرتا ہے اس کا مقصد عام طور پر یہی باتیں ہوتی ہیں جو حدیث میں مذکورہ ہوئیں۔
ایسا شخص نیت کی خرابی کے جرم میں جہنم کی سزا کا مستحق ہو گا۔

(2)
بے عمل علماء عام طور پر نئے نئے مسئلے نکالتے رہتے ہیں تاکہ عوام انہیں عالم سمجھیں۔
خصوصا ایسے اجتہادی مسائل جن میں سلف کے درمیان اختلاف رہا ہے یا ایک عمل دو طریقوں سے جائز ہے اور ان میں سے ایک طریقہ رائج ہو گیا ہے، ان میں نئے سرے سے اختلاف پیدا کرنا مستحسن نہیں، البتہ اگر کوئی مسنون عمل معاشرہ میں متروک ہو گیا ہے یا کوئی بدعت رائج ہو گئی ہے تو اس سنت کا احیاء اور بدعت کی تردید ضروری ہے۔

(3)
اگر کسی مقام پر اختلافی مسئلہ بیان کرنے کی ضرورت ہو تو اسے اس انداز سے بیان کرنا چاہیے جس سے دوسرا موقف رکھنے والے علماء کی تحقیر اور توہیں نہ ہو۔
اور اگر کسی عالم سے بحث و مباحثہ کی نوبت آ جائے تو مخاطب کا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے ادب کے دائرے میں بات چیت ہونی چاہیے، گالی گلوچ علماء کی شان کے لائق نہیں بلکہ ایسی حرکتیں عدم خلوص کی علامت ہیں۔

(4)
بعض لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ عوام میں ان کا نام زیادہ مشہور ہو اور ان کے نام کے ساتھ لمبے چوڑے القاب لکھے اور بولے جائیں یا کسی مذہبی اور سیاسی تنظیم میں ان کو اونچا عہدہ اور منصب ملے، اس مقصد کے لیے وہ اپنی تشہیر اور دوسرے علماء کی تحقیر کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔
یہ سب کام خلوص سے محرومی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
علماء کو چاہیے کہ اپنی ذات کا کڑا احتساب کرتے رہیں تاکہ شیطان کے داؤ سے محفوظ رہ سکیں۔
اس سلسلہ میں تلبیس ابلیس (مصنفه علامہ ابن الجوزی رحمة اللہ علیه)
امام ابن القیم کی الداءوالدواء اور اس قسم کی دوسری کتابوں کا مطالعہ مفید ہے۔

(5)
بعض محققین نے شواہد کی بنا پر اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (المشکاة للألبانی، حدیث: 226، 225)
علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی تحقیق میں اس کے شواہد کا تذکرہ کیا ہے لیکن ان کی صحت و ضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا۔
بہرحال روایت شواہد کی وجہ سے قابل حجت ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 253   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2655  
´علم (دین) سے دنیا حاصل کرنے والے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے علم کو غیر اللہ کے لیے سیکھا یا وہ اس علم کے ذریعہ اللہ کی رضا کے بجائے کچھ اور حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسا شخص اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2655]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
علم دین اس لیے سیکھا جاتا ہے ہے کہ اس سے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کی جائے،
لیکن اگر اس علم سے اللہ کی رضا و خوشنودی مقصود نہیں بلکہ اس سے جاہ ومنصب یا حصول دنیا مقصود ہے تو ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہے۔

نوٹ:
(سند میں خالد اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان انقطاع ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2655   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.