الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
Chapters: The Book of the Sunnah
46. بَابُ : مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ
46. باب: علم چھپانے پر وارد وعید کا بیان۔
Chapter: One who is asked about knowledge but conceals it
حدیث نمبر: 264
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن الازهر ، حدثنا الهيثم بن جميل ، حدثني عمر بن سليم ، حدثنا يوسف بن إبراهيم ، قال: سمعت انس بن مالك ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من سئل عن علم فكتمه، الجم يوم القيامة بلجام من نار".
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ ، حَدَّثَنِي عُمَرَ بْنُ سُلَيْمٍ ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ، أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص سے دین کے کسی مسئلہ کے متعلق پوچھا گیا، اور باوجود علم کے اس نے اسے چھپایا، تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1707، ومصباح الزجاجة: 109) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں یوسف بن ابراہیم ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة: 223، 224)

Yusuf bin Ibrahim said: 'I heard Anas bin Malik say: "I heard the Messenger of Allah say: "Whoever is asked about knowledge and conceals it, it will be bridled on the Day of Resurrection with reins of fire.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
   سنن ابن ماجه264أنس بن مالكمن سئل عن علم فكتمه ألجم يوم القيامة بلجام من نار
   مشكوة المصابيح224أنس بن مالكورواه ابن ماجه عن انس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 224  
´دین کی بات چھپانے والے کے لئے وعید`
«. . . ‏‏‏‏وَرَوَاهُ ابْن مَاجَه عَن أنس . . .»
. . . اور ابن ماجہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ/0: 224]

تحقیق الحدیث:
یہ حدیث حسن ہے۔
اسے ترمذی نے حسن، ابن حبان [الاحسان: 95]، [حاكم 1؍1۔ 1 ح344] اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے۔
◄ عطاء بن ابی رباح کی اس روایت میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کے سماع میں کلام ہے، اگرچہ مستدرک الحاکم میں قاسم بن محمد بن حماد کی روایت میں ان کے سماع کی تصریح موجود ہے۔
◄ قاسم بن محمد الدلال پر تین محدثین نے جرح اور تین نے توثیق کی ہے۔! صحیح ابن حبان [الاحسان: 96] اور المستدرک للحاکم [1؍1۔ 2 ح346 وصححه] وغیرہما میں اس کا حسن لذاتہ شاہد: «من كتم علما ألجمه الله يوم القيامة بلجام من نار.» موجود ہے، جس کے ساتھ یہ حسن ہے۔ «والحمد لله»

فقہ الحدیث:
➊ حق چھپانا حرام ہے۔
➋ دوسرے دلائل سے ثابت ہے کہ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو علم کی بعض باتیں عام لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کرنا بھی جائز ہے۔ مثلاً:
① نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ایک بات بتائی پھر اسے لوگوں کو بتانے سے منع کر دیا تھا تاکہ کہیں لوگ اسی پر بھروسا نہ کر بیٹھیں۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 128 - 129] اور [صحيح مسلم 32]
② سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کو ایک خواب کی تعبیر میں کچھ غلطی لگی تھی، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أصبت بعضا وأخطأت بعضا.»
تمہاری بعض باتیں صحیح ہیں اور بعض میں غلطی لگی ہے۔ ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! آپ مجھے ضرور بتائیں کہ مجھے کیا غلطی لگی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم نہ کھاؤ۔ [صحيح بخاري: 7046،صحيح مسلم: 2269]
یعنی آپ نے وہ غلطی انہیں نہیں بتائی تھی، لہٰذا اگر کوئی عذر ہو یا فساد وغیرہ کا ڈر ہو تو بعض باتیں نہ بتانا بھی جائز ہے لیکن اہم موقع اور ضروری بیان کے وقت علم کی بات چھپانا جائز نہیں بلکہ کتمانِ حق ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔
③ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک علم (جس کا تعلق سیاسی اُمور سے تھا) بتایا تھا، جسے انہوں نے لوگوں کے سامنے بیان نہیں کیا۔ ديكهئے: [صحيح بخاري: 120]
➌ سنن ابن ماجہ [264] والی روایت کی سند یوسف بن ابراہیم کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن صحیح ابن حبان [96] والے مذکورہ حسن شاہد کی وجہ سے یہ روایت بھی حسن ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 224   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث264  
´علم چھپانے پر وارد وعید کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص سے دین کے کسی مسئلہ کے متعلق پوچھا گیا، اور باوجود علم کے اس نے اسے چھپایا، تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 264]
اردو حاشہ:
(1)
چھپانے کا مطلب ہے کہ اسے صحیح مسئلہ معلوم تھا، پھر بھی اس نے کسی معقول عذر کے بغیر اسے ظاہر نہ کیا۔

(2)
لِجَام عربی زبان میں لگام کے اس حصے کو کہتے ہیں جو گھوڑے وغیرہ کے منہ میں ہوتا ہے اور لوہے کا بنا ہوا ہوتا ہے۔
لگام کا جو حصہ سوار کے ہاتھ میں ہوتا ہے اسے زَمَام کہتے ہیں۔

(3)
اس سے علم چھپانے کی سخت سزا ثابت ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 264   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.