الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
The Book of Purification and its Sunnah
84. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ
84. باب: موزوں پر مسح کا بیان۔
حدیث نمبر: 546
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عمران بن موسى الليثي ، حدثنا محمد بن سواء ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، انه راى سعد بن مالك ، وهو يمسح على الخفين، فقال: إنكم لتفعلون ذلك، فاجتمعنا عند عمر، فقال سعد لعمر: افت ابن اخي في المسح على الخفين، فقال عمر :" كنا ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم نمسح على خفافنا لم نر بذلك باسا"، فقال ابن عمر: وإن جاء من الغائط؟ قال: نعم.
حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى اللَّيْثِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَاءٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ رَأَى سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ ، وَهُوَ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَتَفْعَلُونَ ذَلِكَ، فَاجْتَمَعْنَا عِنْدَ عُمَرَ، فَقَالَ سَعْدٌ لِعُمَرَ: أَفْتِ ابْنَ أَخِي فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَ عُمَرُ :" كُنَّا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَمْسَحُ عَلَى خِفَافِنَا لَمْ نَرَ بِذَلِكَ بَأْسًا"، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَإِنْ جَاءَ مِنَ الْغَائِطِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے سعد بن مالک (سعد بن مالک ابن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا تو کہا: کیا آپ لوگ بھی ایسا کرتے ہیں؟ وہ دونوں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اکٹھا ہوئے اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: میرے بھتیجے کو موزوں پر مسح کا مسئلہ بتائیے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہوتے تھے، اور اپنے موزوں پر مسح کرتے تھے، اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: خواہ کوئی بیت الخلاء سے آئے؟ فرمایا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10570، ومصباح الزجاجة: 225)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 49 (202)، موطا امام مالک/الطہارة 8 (42)، مسند احمد (1/35) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس سند میں سعید بن أبی عروبہ مدلس صاحب اختلاط راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن بقول بوصیری محمد بن سواء نے ان سے اختلاط سے پہلے روایت کی ہے، نیز دوسرے طرق ہیں اس لئے یہ حدیث صحیح ہے)

It was narrated from Ibn 'Umar that: He saw Sa'd bin Malik wiping over his leather socks and said: "Is it you doing this?" They both went to 'Umar and Sa'd said to 'Umar: "Give my brother's son a verdict regarding wiping over leather socks." 'Umar said: "We used to wipe over our leather socks when we were with the Messenger of Allah and we do not see anything wrong with that." Ibn 'Umar said: "Even if that is after one has defecated?" He said: "Yes."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
   صحيح البخاري202مسح على الخفين
   سنن ابن ماجه546نمسح على خفافنا
   المعجم الصغير للطبراني122يمسح على الخفين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث546  
´موزوں پر مسح کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے سعد بن مالک (سعد بن مالک ابن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا تو کہا: کیا آپ لوگ بھی ایسا کرتے ہیں؟ وہ دونوں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اکٹھا ہوئے اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: میرے بھتیجے کو موزوں پر مسح کا مسئلہ بتائیے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہوتے تھے، اور اپنے موزوں پر مسح کرتے تھے، اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: خواہ کوئی بیت الخلاء سے آئے؟ فرمایا: ہاں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 546]
اردو حاشہ:
(1)
ایک عالم شخص بھی بعض اوقات کسی مسئلہ سے ناواقف ہوسکتا ہے اس سے اسکی شان میں کوئی فرق نہیں آتا، اس لیے علماء کرام کہا کرتے ہیں:
(مَنْ حَفِظَ حُجَّةٌ عَلٰي مَنْ لَّمْ يَحْفَظْ)
جسے ایک مسئلہ یا حدیث یاد ہےوہ حجت ہے اس شخص پرجسے یاد نہیں۔

(2)
اختلاف کے موقع پر اپنے سے بڑے عالم سے مسئلہ معلوم کرلینا چاہیے۔

(3)
عالم کو چاہیے کہ مسئلہ دلیل کے ساتھ بیان کردے تاکہ سائل کو اطمینان ہوجائے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دلیل دی کہ یہ عمل ہم نے نبی ﷺ کی موجودگی میں آپ کے سامنے کیا ہےاور آپ نے منع نہیں فرمایا لہٰذا یہ جائز اور درست ہے۔ (4)
رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں کوئی کام کیا جائے اور آپ منع نہ کریں تو اس سے جواز ثابت ہوتا ہے۔
ایسی حدیث کو تقریری حدیث کہتے ہیں۔
نبی ﷺ کے علاوہ کسی اور کی خاموشی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ ممکن ہے کہ وہ شخص اس کےجواز یا کراہت کا قائل ہو یا خاموشی کی وجہ کوئی اور ہو-
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 546   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.