الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: تیمم کے احکام و مسائل
Chapters: Dry Ablution
91. بَابُ : مَا جَاءَ فِي التَّيَمُّمِ ضَرْبَةً وَاحِدَةً
91. باب: تیمم میں زمین پر ضرب (ہاتھ مارنا) ایک بار۔
حدیث نمبر: 569
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن ذر ، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى ، عن ابيه ، ان رجلا اتى عمر بن الخطاب، فقال: إني اجنبت فلم اجد الماء، فقال عمر: لا تصل، فقال عمار بن ياسر : اما تذكر يا امير المؤمنين" إذ انا وانت في سرية فاجنبنا فلم نجد الماء، فاما انت فلم تصل، واما انا فتمعكت في التراب فصليت، فلما اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: إنما كان يكفيك وضرب النبي صلى الله عليه وسلم بيديه إلى الارض، ثم نفخ فيهما ومسح بهما وجهه وكفيه".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ ذَرٍّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدِ الْمَاءَ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا تُصَلِّ، فَقَالَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ : أَمَا تَذْكُرُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ" إِذْ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَرِيَّةٍ فَأَجْنَبْنَا فَلَمْ نَجِدِ الْمَاءَ، فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ، وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فِي التُّرَابِ فَصَلَّيْتُ، فَلَمَّا أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ وَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ إِلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ نَفَخَ فِيهِمَا وَمَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ".
عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہو گیا اور پانی نہیں پایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک لشکر میں تھے، ہم جنبی ہو گئے، اور ہمیں پانی نہ مل سکا تو آپ نے نماز نہیں پڑھی، اور میں مٹی میں لوٹا، اور نماز پڑھ لی، جب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: تمہارے لیے بس اتنا کافی تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان دونوں میں پھونک ماری، اور اپنے چہرے اور دونوں پہنچوں پر اسے مل لیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/التیمم 4 (338)، 5 (339)، صحیح مسلم/الحیض 28 (368)، سنن ابی داود/الطہارة 123 (322، 323)، سنن الترمذی/الطہارة 110 (144)، سنن النسائی/الطہارة 196 (313)، 199 (317)، 200 (318)، 201 (319)، 202 (320)، (تحفة الأشراف: 10362)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/263، 265، 319، 320، سنن الدارمی/الطہارة 66 (772) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: تیمم یہی ہے کہ زمین پر ایک بار ہاتھ مار کر منہ اور دونوں پہنچوں پر مسح کرے، اور جنابت سے پاکی کا طریقہ حدث کے تیمم کی طرح ہے، اور عمر رضی اللہ عنہ کو باوصف اتنے علم کے اس مسئلہ کی خبر نہ تھی، اسی طرح عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو، یہ دونوں جلیل القدر صحابہ جنبی کے لئے تیمم جائز نہیں سمجھتے تھے، اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ کبھی بڑے عالم دین پر معمولی مسائل پوشیدہ رہ جاتے ہیں، ان دونوں کے تبحر علمی اور جلالت شان میں کسی کو کلام نہیں ہے، لیکن حدیث اور قرآن کے خلاف ان کا قول بھی ناقابل قبول ہے، پھر کتاب و سنت کے دلائل کے سامنے دوسرے علماء کے اقوال کی کیا حیثیت ہے، اس قصہ سے معلوم ہوا کہ ہمیں صرف رسول اکرم ﷺ کے اسوہ سے مطلب ہے۔

It was narrated from Sa'eed bin 'Abdur-Rahman bin Abza from his father, that: A man came to 'Umar bin khattab and said: "I became impure following sexual emission and cannot find any water." 'Umar said to him: "Do not pray." But 'Ammar bin Yasir said: "Do you not remember, O Commander of the Believers, when you and I were on a military expedition and we became sexually impure and could not find water? As for you, you did not pray, but I rolled in the dust and then prayed. When I came to the Prophet and told him what had happened, he said: 'It would have been enough for you (to do this).' (Then demonstrating) the Prophet struck the ground with his hands, then blew on hem, and wiped his face and palms with them."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
   صحيح البخاري343عبد الرحمن بن أبزىضرب النبي بيده الأرض فمسح وجهه وكفيه
   صحيح البخاري339عبد الرحمن بن أبزىضرب بيديه الأرض ثم أدناهما من فيه ثم مسح بهما وجهه وكفيه
   صحيح البخاري338عبد الرحمن بن أبزىيكفيك هكذا فضرب النبي بكفيه الأرض ونفخ فيهما ثم مسح بهما وجهه وكفيه
   صحيح مسلم820عبد الرحمن بن أبزىيكفيك أن تضرب بيديك الأرض ثم تنفخ ثم تمسح بهما وجهك وكفيك
   سنن أبي داود327عبد الرحمن بن أبزىضربة واحدة للوجه والكفين
   سنن أبي داود322عبد الرحمن بن أبزىيكفيك أن تقول هكذا وضرب بيديه إلى الأرض ثم نفخهما ثم مسح بهما وجهه ويديه إلى نصف الذراع
   سنن النسائى الصغرى319عبد الرحمن بن أبزىيكفيك وضرب بكفه ضربة ونفخ فيها ثم دلك إحداهما بالأخرى ثم مسح بهما وجهه
   سنن النسائى الصغرى320عبد الرحمن بن أبزىيكفيك وضرب النبي بيديه إلى الأرض ثم نفخ فيهما فمسح بهما وجهه وكفيه
   سنن النسائى الصغرى317عبد الرحمن بن أبزىالصعيد لكافيك وضرب بكفيه إلى الأرض ثم نفخ فيهما ثم مسح وجهه وبعض ذراعيه
   سنن النسائى الصغرى313عبد الرحمن بن أبزىيكفيك فضرب النبي يديه إلى الأرض ثم نفخ فيهما ثم مسح بهما وجهه وكفيه لا يدري فيه إلى المرفقين أو إلى الكفين
   سنن النسائى الصغرى318عبد الرحمن بن أبزىيكفيك هكذا وضرب بيديه على ركبتيه ونفخ في يديه ومسح بهما وجهه وكفيه مرة واحدة
   سنن ابن ماجه569عبد الرحمن بن أبزىيكفيك وضرب النبي بيديه إلى الأرض ثم نفخ فيهما ومسح بهما وجهه وكفيه
   سنن أبي داود324عبد الرحمن بن أبزىإنما كان يكفيك، وضرب النبي صلى الله عليه وسلم بيده إلى الارض
   مسندالحميدي144عبد الرحمن بن أبزىإنما كان يكفيك من ذلك التيمم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 322  
´تیمم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کہتے ہیں کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: بسا اوقات ہم کسی جگہ ماہ دو ماہ ٹھہرے رہتے ہیں (جہاں پانی موجود نہیں ہوتا اور ہم جنبی ہو جاتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جہاں تک میرا معاملہ ہے تو جب تک مجھے پانی نہ ملے میں نماز نہیں پڑھ سکتا، وہ کہتے ہیں: اس پر عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ اونٹوں میں تھے (اونٹ چراتے تھے) اور ہمیں جنابت لاحق ہو گئی، بہرحال میں تو مٹی (زمین) پر لوٹا، پھر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں بس اس طرح کر لینا کافی تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان پر پھونک ماری اور اپنے چہرے اور اپنے دونوں ہاتھوں پر نصف ذراع تک پھیر لیا، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: عمار! اللہ سے ڈرو ۱؎، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! اگر آپ چاہیں تو قسم اللہ کی میں اسے کبھی ذکر نہ کروں، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، قسم اللہ کی ہم تمہاری بات کا تمہیں اختیار دیتے ہیں، یعنی معاملہ تم پر چھوڑتے ہیں تم اسے بیان کرنا چاہو تو کرو۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 322]
322. اردو حاشیہ:
 اس میں کلائی تک کے الفاظ شیخ البانی کے نزدیک شاذ (غیر صحیح) ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 322   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 324  
´تیمم کا بیان۔`
اس سند سے بھی عبدالرحمٰن بن ابزی سے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے یہی قصہ مروی ہے، اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں بس اتنا کر لینا کافی تھا، اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اس میں پھونک مار کر اپنے چہرے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں پر پھیر لیا، سلمہ کو شک ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ اس میں «إلى المرفقين» ہے یا «إلى الكفين‏.» (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہنیوں تک پھیرا، یا پہونچوں تک)۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 324]
324. اردو حاشیہ:
 اس روایت میں  «كفّين»  یعنی ہاتھوں کا ذکر ہی صحیح طور پر محفوظ ہے، نہ کہ کہنیوں تک کا (شیخ البانی رحمہ اللہ) جیسے کہ حدیث (326) میں آ رہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 324   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 313  
´حضر میں (دوران اقامت) تیمم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن ابزی سے روایت ہے کہ ایک شخص عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہو گیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا، (کیا کروں؟) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (غسل کئے بغیر) نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ دونوں ایک سریہ (فوجی مہم) میں تھے، تو ہم جنبی ہو گئے، اور ہمیں پانی نہیں ملا، تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی، اور رہا میں تو میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر نماز پڑھ لی، پھر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے ہم نے اس کا ذکر کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ زمین پر مارا، پھر ان میں پھونک ماری، پھر ان دونوں سے اپنے چہرہ اور دونوں ہتھیلیوں پر مسح کیا - سلمہ کو شک ہے، وہ یہ نہیں جان سکے کہ اس میں مسح کا ذکر دونوں کہنیوں تک ہے یا دونوں ہتھیلیوں تک - (عمار رضی اللہ عنہ کی بات سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جو تم کہہ رہے ہو ہم تمہیں کو اس کا ذمہ دار بناتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 313]
313۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا مٹی میں لوٹ پوٹ ہونا ایک اجتہادی عمل تھا اور شاید اس بنا پر تھا کہ تیمم بھی غسل کی جگہ کفایت کر سکے گا جب وہ اس کی مثل ہو، یعنی پورے بدن پر مٹی لگے۔
➋ اگر اجتہاد کرنے والے سے غلطی ہو جائے تو اسے ملامت نہیں کی جائے گی۔
➌ جو آدمی اپنے اجتہاد سے کوئی عمل کر لے اور بعد میں اسے معلوم ہو کہ اس کا عمل قرآن وسنت کے منافی تھا تو اس کے لیے اسے دوبارہ لوٹانا ضروری نہیں۔
➍ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تیمم صرف چہرے اور ہتھیلیوں تک ایک ضرب کے ساتھ ہے۔ دو ضرب اور کہنیوں تک کی روایات کلام سے خالی نہیں، اس لیے محدثین نے ایک ضرب کے ساتھ ہتھیلیوں تک تیمم کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ صحیح ترین روایات ہیں۔ احناف نے دوسرے طریقے کو اختیار کیا ہے اور ان روایات کا جواب یہ دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ بتلایا ہے کہ وضو والا تیمم ہی غسل کے لیے کافی ہے۔ تیمم کا طریقہ بتلانا مقصود نہ تھا، مگر یہ بات قابل غور ہے کہ بیان کرنے والے صحابہ نے تو یہ مفہوم نہیں سمجھا۔ حاضرین کا فہم معتبر ہے یا غیر حاضرین کا؟ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے یوں تطبیق دی ہے کہ ایک ضرب اور ہتھیلیوں تک تیمم کافی ہے، البتہ دو ضرب کے ساتھ کہنیوں تک افضل اور مستحب ہے لیکن یہ تطبیق بھی محل نظر ہے کیونکہ استحباب اور افضلیت کے اثبات کے لیے صحیح دلیل کا ہونا ضروری ہے۔ تیمم سے متعلق دیگر احکام و مسائل کے لیے دیکھیے: کتاب الغسل و التیمم کا ابتدائیہ۔
➎ حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہا غسل کی جگہ تیمم کو کافی نہیں سمجھتے تھے، مگر یہ صرف ان کی احتیاط تھی ورنہ قرآن مجید میں آیت تیمم کے اندر جنابت سے بھی تیمم کی اجازت ہے۔ دیکھیے: [النسآء 43: 4 و المائدة 6: 5]
➏ مذکورہ حدیث پر بعض نسخوں میں عنوان قائم نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے پہلے والی حدیث پر بھی یہی عنوان قائم کیا گیا ہے جس سے یہ محض تکرار ہی محسوس ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 313   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث569  
´تیمم میں زمین پر ضرب (ہاتھ مارنا) ایک بار۔`
عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہو گیا اور پانی نہیں پایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک لشکر میں تھے، ہم جنبی ہو گئے، اور ہمیں پانی نہ مل سکا تو آپ نے نماز نہیں پڑھی، اور میں مٹی میں لوٹا، اور نماز پڑھ لی، جب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: تمہارے لیے بس اتنا کافی تھا، اور نبی اکرم صلی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 569]
اردو حاشہ:
(1)
اس سے تیمم کا طریقہ معلوم ہوا کہ پاک زمین پر ہاتھ مار کر ان پر پھونک مارلی جائے پھر وہ ہاتھ چہرے پر پھیر لیے جائیں اور پھر دونوں ہاتوں کو ایک دوسرے پر پھیر لیا جائے تو تیمم مکمل ہوجاتا ہے۔
بازوؤں اور پاؤں پر ہاتھ پھیرنے کی ضرورت نہیں، نہ سر اور کانوں کا مسح کیا جائےگا۔

(2)
یہ تیمم جس طرح وضو کا قائم مقام ہوتا ہے اسی طرح غسل کا بھی قائم مقام ہوجاتا ہے۔
غسل کی حاجت ہونے کی صورت میں پورے جسم پر مٹی پہنچانے کی ضرورت نہیں۔

(3)
جب کسی مسئلہ میں کوئی نص موجود نہ ہو تو اجتہاد کرنا جائز ہے۔

(4)
دو مجتہدین کے اجتہاد میں باہم اختلاف پایا جائے تو ہر مجتہد اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرسکتا ہے۔

(5)
مجتہد سے اجتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن وہ اس غلطی کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہوگا۔

(6)
رسول اللہﷺ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو وہ نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا جو انھوں نے تیمم کے بجائے زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر ادا کی تھی۔
اس سے معلوم ہوا کہ اجتہادی غلطی کی بناء پر کیا جانے والا عمل بعد میں صحیح مسئلہ معلوم ہونے پردوبارہ ادا کرنا ضروری نہیں البتہ آئندہ کے لیے صحیح مسئلہ پر عمل کرنا ضروری ہے۔

(7)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد نہیں رہا اس لیے سائل کو نماز نہ پڑھنے کا حکم دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ بڑے سے بڑا فقیہ غلط فہمی کا شکار ہو کر کسی مسئلہ میں غلط موقف اختیار کر سکتا ہے کیونکہ وہ معصوم نہیں لہٰذا اختلافی مسائل میں زیادہ قوی موقف کو ترجیح دینا چاہیے خواہ اس کا قائل کوئی بھی عالم ہو۔
کسی خاص عالم ہی کے قول کو اختیار کرنے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔

(8)
تیمم میں زمین پر ہاتھ مار کر ان میں پھونک مارنے کا مقصد یہ ہے کہ زائد غبار اتر جائےکیونکہ مقصد صرف حکم کی تعمیل ہے جسم کو غبار آلود کرنا نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 569   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.