الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل
The Book On The Mosques And The Congregations
17. بَابُ : التَّغْلِيظِ فِي التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَةِ
17. باب: جماعت سے پیچھے رہنے پر سخت وعید کا بیان۔
حدیث نمبر: 792
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، عن زائدة ، عن عاصم ، عن ابي رزين ، عن ابن ام مكتوم ، قال: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم: إني كبير ضرير شاسع الدار، وليس لي قائد يلاومني، فهل تجد لي من رخصة؟ قال:" هل تسمع النداء؟" قلت: نعم، قال:" ما اجد لك رخصة".
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ ، عَنْ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي كَبِيرٌ ضَرِيرٌ شَاسِعُ الدَّارِ، وَلَيْسَ لِي قَائِدٌ يُلَاوِمُنِي، فَهَلْ تَجِدُ لِي مِنْ رُخْصَةٍ؟ قَالَ:" هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" مَا أَجِدُ لَكَ رُخْصَةً".
عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں بوڑھا اور نابینا ہوں، میرا گھر دور ہے اور مجھے مسجد تک لانے والا میرے مناسب حال کوئی آدمی بھی نہیں ہے، تو کیا آپ میرے لیے (جماعت سے غیر حاضری کی) کوئی رخصت پاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اذان سنتے ہو؟، میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 47 (552)، (تحفة الأشراف: 10788)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الإمامة 50 (852)، مسند احمد (3/423) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے جماعت کی بڑی اہمیت و تاکید ثابت ہوتی ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو جماعت سے غیر حاضر رہنے کی اجازت نہ دی، حالانکہ وہ اندھے تھے، اور انہوں نے کہا کہ میرے پاس کوئی آدمی بھی نہیں ہے جو مجھ کو پکڑ کر لائے، کیونکہ ان کا گھر مسجد سے بہت دور نہ تھا، وہ اذان کی آواز سنتے تھے اور بغیر آدمی کے آ سکتے تھے، اور بعضوں نے کہا: حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمہارے لیے جماعت کا ترک جائز نہیں کیونکہ اندھا ہونا جماعت سے معافی کے لئے قوی عذر ہے، اور آپ ﷺ نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کی جماعت ان کے اندھے ہونے کی وجہ سے معاف کی، بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لئے ایسی رخصت نہیں پاتا کہ تم جماعت میں حاضر نہ ہو، اور جماعت کا ثواب نہ پاؤ، «واللہ اعلم» ۔

It was narrated that Ibn Umm Maktum said: "I said to the Prophet: 'I am an old man and blind; my house is far away, and I have no one to lead me. Is there any concession (for me not to have to attend the prayer in the mosque)?' He said: 'Can you hear the call?' I said: 'Yes.' He said: 'Then I do not find any concession for you.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (552)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 407
   سنن النسائى الصغرى852عمرو بن زائدةهل تسمع حي على الصلاة حي على الفلاح قال نعم قال فحي هلا ولم يرخص له
   سنن أبي داود553عمرو بن زائدةأتسمع حي على الصلاة حي على الفلاح فحي هلا
   سنن أبي داود552عمرو بن زائدةهل تسمع النداء قال نعم قال لا أجد لك رخصة
   سنن ابن ماجه792عمرو بن زائدةهل تسمع النداء قلت نعم قال ما أجد لك رخصة
   المعجم الصغير للطبراني274عمرو بن زائدةأتسمع النداء قال نعم قال ما أجد لك رخصة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 553  
´جماعت چھوڑنے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کے رسول! مدینے میں کیڑے مکوڑے اور درندے بہت ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم «حى على الصلاة» اور «حى على الفلاح» (یعنی اذان) سنتے ہو؟ تو (مسجد) آیا کرو۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے قاسم جرمی نے سفیان سے روایت کیا ہے، ان کی روایت میں «حى هلا» (آیا کرو) کا ذکر نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 553]
553۔ اردو حاشیہ:
یہ اور دیگر احادیث واضح دلیل ہیں کہ نماز باجماعت واجب ہے، سب جانتے ہیں کہ خوف کے موقع پر بھی صلاۃ خوف باجماعت ہی مشروع ہے۔ اور اصحاب اعذار کے لئے دلائل سے ثابت ہے کہ جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت ضرور ہے، مگر اس فضیلت سے محروم رہیں گے۔ شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ جناب عبداللہ ابن مکتوم کو رخصت نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ شاید ان کا سوال عزیمت کے متعلق تھا۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں جا کر ان کی جائے نماز کا افتتاح فرمایا تھا۔ اور مذکورہ بالا حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں بھی شرعی عذر خوف یا مرض کا استثناء موجود ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 553   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث792  
´جماعت سے پیچھے رہنے پر سخت وعید کا بیان۔`
عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں بوڑھا اور نابینا ہوں، میرا گھر دور ہے اور مجھے مسجد تک لانے والا میرے مناسب حال کوئی آدمی بھی نہیں ہے، تو کیا آپ میرے لیے (جماعت سے غیر حاضری کی) کوئی رخصت پاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اذان سنتے ہو؟، میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 792]
اردو حاشہ:
(1)
ہمارے فاضل محقق ؒ مذکورہ حدیث کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن صحیح مسلم کی روایت ہے (653)
اس سے کفایت کرتی ہے۔
تفصیل کے لیے حدیث کی تحقیق وتخریج ملاحظہ فرمائیں۔
نیز دیگر محققین نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 255، 244، 243/24)
اس حدیث سے نماز باجماعت کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کو جماعت کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی حالانکہ ان کے متعدد عذر موجود تھے:

(ا)
وہ معمر تھے۔

(ب)
وہ نابینا تھے۔

(ج)
ان کا گھر دور تھا۔

(د)
ان کے گھر کا کوئی فرد ایسا نہیں تھا جو انھیں مسجد میں لانے کا فرض مستقل طور پر انجام دے سکے۔

(ھ)
جو شخص انھیں مسجد میں لاتا تھا وہ بھی ان کی مرضی کے مطابق خدمت انجام نہیں دیتا تھا بلکہ اپنی سہولت کو زیادہ مد نظر رکھتا تھا۔ (وَلَيْسَ لِي قَائِدٌ يُلَاوِمُنِي)
 کوئی میری مرضی کے مطابق لانے والا نہیں۔
کا یہی مطلب ہے۔

(د)
ان کےگھر اور مسجد کے درمیان نشیبی علاقہ تھا جس میں بارش کے موقع پر پانی جمع ہوجاتا تھا۔
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے:
(صلاة الجماعة، أهمتيها وفضلها، تصنیف:
ڈاکٹر فضل الہی۔)


(3)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن مکتوم کو جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ ثواب ملے۔
اس کا مقصد ترغیب تھا ورنہ نابینا آدمی اگر مسجد میں آنے میں دشواری محسوس کرے تو اسے گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
جیسے کہ نبی ﷺ نے حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کو اجاذت دےدی تھی۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجه حديث: 754)

(4)
رسول الله ﷺ نے ان سے اذان کے متعلق پوچھا کہ آواز پہنچتی ہے یا نہیں؟ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص آبادی سے دور قیام پذیر ہو جہاں عام طور پر اذان کی آواز نہیں پہنچتی وہ وہیں نماز ادا کرسکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 792   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.