الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
158. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْخُطْبَةِ فِي الْعِيدَيْنِ
158. باب: عیدین میں خطبے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1288
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو اسامة ، حدثنا داود بن قيس ، عن عياض بن عبد الله ، اخبرني ابو سعيد الخدري ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يخرج يوم العيد، فيصلي بالناس ركعتين، ثم يسلم، فيقف على رجليه، فيستقبل الناس وهم جلوس"، فيقول:" تصدقوا تصدقوا، فاكثر من يتصدق النساء بالقرط والخاتم والشيء، فإن كانت حاجة يريد ان يبعث بعثا يذكره لهم وإلا انصرف".
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَخْرُجُ يَوْمَ الْعِيدِ، فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ، فَيَقِفُ عَلَى رِجْلَيْهِ، فَيَسْتَقْبِلُ النَّاسَ وَهُمْ جُلُوسٌ"، فَيَقُولُ:" تَصَدَّقُوا تَصَدَّقُوا، فَأَكْثَرُ مَنْ يَتَصَدَّقُ النِّسَاءُ بِالْقُرْطِ وَالْخَاتَمِ وَالشَّيْءِ، فَإِنْ كَانَتْ حَاجَةٌ يُرِيدُ أَنْ يَبْعَثَ بَعْثًا يَذْكُرُهُ لَهُمْ وَإِلَّا انْصَرَفَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن نکلتے اور لوگوں کو دو رکعت پڑھاتے، پھر سلام پھیرتے، اور اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر لوگوں کی جانب رخ کرتے، اور لوگ بیٹھے رہتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: لوگو! صدقہ کرو، صدقہ کرو، زیادہ صدقہ عورتیں دیتیں، کوئی بالی ڈالتی، کوئی انگوٹھی اور کوئی کچھ اور، اگر آپ کو لشکر بھیجنا ہوتا تو لوگوں سے اس کا ذکر کرتے، ورنہ تشریف لے جاتے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحیض 6 (304)، العیدین 6 (964، 989)، الزکاة 44 (1431)، صحیح مسلم/الایمان 34 (79، 80)، العیدین 9 (844)، سنن النسائی/العیدین 19 (1577)، (تحفة الأشراف: 5558)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/36، 57) (صحیح)» ‏‏‏‏

Abu Sa’eed Al-Khudri said: “The Messenger of Allah (ﷺ) used to go out on the day of ‘Eid and lead the people in praying two Rak’ah, then he would say the Salam and stand on his two feet facing the people while they were sitting down. He would say: ‘Give in charity. Give in charity.’ Those who gave most in charity were the women, (they would give) earrings and rings and things. If he wanted to send out an expedition he would mention it, otherwise he would leave.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
   صحيح البخاري304سعد بن مالكيا معشر النساء تصدقن أريتكن أكثر أهل النار تكثرن اللعن وتكفرن العشير ما رأيت من ناقصات عقل ودين أذهب للب الرجل الحازم من إحداكن قلن وما نقصان ديننا وعقلنا يا رسول الله قال أليس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل
   صحيح البخاري1462سعد بن مالكتصدقن فإني رأيتكن أكثر أهل النار
   صحيح مسلم2053سعد بن مالكتصدقوا تصدقوا تصدقوا وكان أكثر من يتصدق النساء ثم ينصرف
   سنن ابن ماجه1288سعد بن مالكتصدقوا تصدقوا فأكثر من يتصدق النساء بالقرط والخاتم والشيء
   بلوغ المرام125سعد بن مالكاليس إذا حاضت المراة لم تصل ولم تصم
   مشكوة المصابيح19سعد بن مالكيا معشر النساء تصدقن فإني اريتكن اكثر اهل النار
   بلوغ المرام515سعد بن مالك‏‏‏‏صدق ابن مسعود،‏‏‏‏ زوجك وولدك احق من تصدقت به عليهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 125  
´حائضہ کے لیے ترک صلاۃ و صوم `
«. . . وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏اليس إذا حاضت المراة لم تصل ولم تصم . . .»
. . . سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ کیا عورت جب حالت حیض میں ہوتی ہے تو نماز اور روزہ چھوڑ نہیں دیتی . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 125]
لغوی تشریح:
«أَلَيْسَ» اس میں ہمزہ انکار کے لیے ہے۔ جب نفی کا انکار ہو تو اثبات ثابت ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوئے کہ شریعت میں ایسی عورت کے لیے ترک صلاۃ و صوم ثابت ہے، البتہ دیگر دلائل کی رو سے روزوں کی قضا دوسرے ایام میں ادا کرے گی جبکہ نماز کی قضا نہیں، اس لیے کہ اس قضا کا ادا کرنا عورت کے لیے نہایت مشکل ہے اور یہ عورت کے حق میں ثابت بھی نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 125   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 304  
´عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے`
«. . . قَالَ: أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ؟ قُلْنَ: بَلَى، قَالَ: فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا، أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟ قُلْنَ: بَلَى، قَالَ: فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا، جی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے، عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 304]

لغوی توضیح:
«اُرِيْتُكُنَّ» مجھے دکھایا گیا ہے (یعنی معراج کی رات)۔
«تَكْفُرْنَ الْعَشِيْرَ» شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔
«لُبّ» عقل۔
«الْحَازم» مضبوط و ضابط شخص۔

فہم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا دین اور عقل مردوں سے کم ہے۔ یاد رہے کہ یہ بات مجموعی اعتبار سے ہے کیونکہ انفرادی اعتبار سے یہ ممکن ہے کہ بہت سی عورتیں بہت سے مردوں سے زیادہ عقل مند اور دین پر عمل پیرا ہوں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہنم میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گی۔ لہٰذا خواتین کو ایک تو شوہروں کی نافرمانی و ناشکری سے بچنا چاہئیے اور دوسرے زیادہ سے زیادہ صدقہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ صدقہ آتش جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہے جیسا کہ فرمان نبوی ہے کہ آگ سے بچو خواہ کھجور کی گٹھلی صدقہ کر کے ہی۔ [بخاري: كتاب الزكاة: بَابُ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ: 1417]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 49   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 19  
´عورتوں کونصیحتیں`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ - [14] - أَهْلِ النَّارِ فَقُلْنَ وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرجل الحازم من إحداكن قُلْنَ وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ قُلْنَ بَلَى قَالَ فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَان عقلهَا أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تَصِلِّ وَلَمْ تَصُمْ قُلْنَ بَلَى قَالَ فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقرہ عید یا عیدالفطر میں عیدگاہ کی طرف نکلے تو عورتوں کے پاس سے آپ کا گزر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے عورتوں کی جماعت! تم لوگ صدقہ و خیرات کرو کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ تم دوزخ میں زیادہ جانے والی ہو۔ (یعنی عورتیں زیادہ تر دوزخ میں داخل ہوں گی۔) ان عورتوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! عورتیں کس وجہ سے دوزخ میں زیادہ تر داخل ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لعن و طعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے خاوندوں کی نافرمانی اور ناشکری بہت کرتی ہو، دین و عقل کی کمی تم لوگوں سے زیادہ کسی میں نہیں دیکھی ہے کہ تم سب سے زیادہ بےعقل بھی ہو اور تم لوگوں کا دین بھی ناقص ہے کہ ہوشیار اور سمجھدار آدمی کی عقل کو کھو دیتی ہو۔ ان عورتوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمارے دین اور ہماری عقل کی کیا کمی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ایک عورت کی گواہی ایک مرد کے نصف گواہی کے برابر نہیں ہے (یعنی شریعت میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے) ان عورتوں نے کہا: ہاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ان کی عقل کی کمی کی وجہ سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا جس وقت عورت ماہواری کی حالت میں ہوتی ہے تو نماز نہیں پڑھتی اور نہ روزہ رکھتی ہے؟ ان عورتوں نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان کے دین کی کمی کا سبب ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 19]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 304]،
[صحيح مسلم 2053]

فقہ الحدیث
➊ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ مردوں کو عورتوں پر بحیثیت مجموعی برتری حاصل ہے۔ اس کی تائید قرآن مجید سے بھی ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ»
مرد عورتوں پر نگراں ہیں۔‏‏‏‏ [سورة النساء: 34]
➋ نماز دین اسلام کا ایک (یعنی دوسرا) بنیادی رکن ہے، چونکہ نماز عمل کا نام ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ نماز اعمال دین (یعنی ایمان) میں سے ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ»
اور اللہ تمہارے ایمان (یعنی نمازیں) ضائع نہیں کرے گا۔ [سورة البقرة:143]
➌ عورت ایام حیض میں نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔ اس کے لئے دین کے یہ دونوں کام، اس حالت میں ممنوع ہیں۔ دوسرے دلائل سے یہ ثابت ہے کہ ایام حیض گزرنے کے بعد وہ روزوں کی قضا تو کرے گی، لیکن نماز کی قضا نہیں کرے گی۔
➍ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کب عورتوں کو جہنم میں دیکھا تھا؟ اس کا ذکر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن والی نماز کے دوران میں عورتوں کو جہنم میں دیکھا تھا۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 1052، وصحيح مسلم 907/17، اضوء المصابيح 1482]
تنبیہ:
ایک روایت میں آیا ہے کہ ہر آدمی کو بہتر 72 حوریں اور سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد سے دو عورتیں ملیں گی۔ [مسند ابي يعلي بحواله النهاية فى الفتن والملاحم 1؍177 ح498 بتحقيقي، وتحقيق ثاني ح: 53 والمطولات للطبراني ح: 36/المعجم الكبير 25؍276]
اس سے معلوم ہوا کہ جنت میں عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ ہوں گی۔
↰ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے، اس کا راوی اسماعیل بن رافع ضعیف ہے۔
↰ حافظ ابن حجر نے کہا: «ضعيف الحفظ» [تقريب التهذيب: 442]
↰ اس روایت کی سند متصل نہیں ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: «لا يصح» یہ صحیح نہیں ہے۔ [الكامل لابن عدي 1؍278 وسنده صحيح]
➎ اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت کی گواہی آدھی ہے۔ یعنی ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی ہے۔ اس کی تائید قرآن مجید کی آیت سے بھی ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ»
پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں (کی گواہی پیش کرو۔) [سورة البقره: 282]
تنبیہ: جن امور کا تعلق خاص عورت سے ہے مثلاً بچے کو دودھ پلانا وغیرہ تو اس میں ایک عورت کی گواہی بھی مقبول ہے اور اسی طرح قبول روایت میں ایک ثقہ عورت کی گواہی مقبول ہے۔
➏ مسلمان کا مسلمان پر لعنت بھیجنا حرام ہے، اگرچہ جس پر لعنت بھیجی جا رہی ہے وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک شرابی پر کسی نے لعنت بھیجی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تلعنوه» اس پر لعنت نہ بھیجو۔‏‏‏‏ [صحيح البخاري: 6780]
اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ متعین زندہ کافر پر بھی لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے۔ اگر کافر مر جائے اور اس بات کا یقینی ثبوت ہو کہ وہ کفر پر مرا ہے تو پھر اس پر لعنت بھیجنا جائز ہے، جیسے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ کافروں پر لعنت بھیجنا بالاجماع جائز ہے۔ کسی متعین انسان کا نام لئے بغیر عام لعنت بھیجی جا سکتی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی اور سودی پر لعنت بھیجی ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود 3478 وصحيح مسلم 1598، 1597]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 19   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1288  
´عیدین میں خطبے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن نکلتے اور لوگوں کو دو رکعت پڑھاتے، پھر سلام پھیرتے، اور اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر لوگوں کی جانب رخ کرتے، اور لوگ بیٹھے رہتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: لوگو! صدقہ کرو، صدقہ کرو، زیادہ صدقہ عورتیں دیتیں، کوئی بالی ڈالتی، کوئی انگوٹھی اور کوئی کچھ اور، اگر آپ کو لشکر بھیجنا ہوتا تو لوگوں سے اس کا ذکر کرتے، ورنہ تشریف لے جاتے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1288]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عید کی نماز مسجد کے بجائے کھلے میدان میں ادا کرنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی افضل ترین جگہ چھوڑ کر میدان میں نماز عید ادا کی۔

(2)
خطبہ عید کی نماز کے بعد دینا چاہیے۔

(3)
  عید کا خطبہ منبر پر نہیں زمین پر کھڑے ہوکر ہی دینا چاہیے۔

(4)
خطبے میں حالات کے مطابق مناسب مسائل بیان کرنے چاہیں۔

(5)
عورت اپنی ذاتی چیز خاوند کی اجازت کے بغیر صدقہ کرسکتی ہے۔

(6)
خطبہ اطمینان سے بیٹھ کرسننا چاہیے۔
تاہم کوئی شخص اٹھ جائے تو جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1288   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.