الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
The Book of Fasting
7. بَابُ : مَا جَاءَ فِي «صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ»
7. باب: چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر روزہ توڑنے کا بیان۔
Chapter: What was narrated concerning: “Fast when you see it (the new crescent) and stop fasting when you see it”
حدیث نمبر: 1654
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو مروان محمد بن عثمان العثماني ، حدثنا إبراهيم بن سعد ، عن الزهري ، عن سالم بن عبد الله ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا رايتم الهلال فصوموا، وإذا رايتموه فافطروا، فإن غم عليكم فاقدروا له"، قال: وكان ابن عمر يصوم قبل الهلال بيوم.
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ"، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَصُومُ قَبْلَ الْهِلَالِ بِيَوْمٍ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر ہی روزہ توڑا کرو، اور اگر چاند بادل کی وجہ سے مشتبہ ہو جائے تو تیس دن کی تعداد پوری کرو ۱؎۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما چاند نکلنے کے ایک روز پہلے سے ہی روزہ رکھنا شروع کر دیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6804)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم 5 (1900)، 11 (1908)، صحیح مسلم/الصوم 2 (1081)، سنن ابی داود/الصوم 4 (2320)، سنن النسائی/الصوم 7 (2122)، موطا امام مالک/الصیام 1 (1) مسند احمد (2/5، 5/5، 13، 63، 145)، سنن الدارمی/الصوم 2 (1726) (صحیح) (ملاحظہ ہو: الإرواء: 4/10 و صحیح أبی داود: 2009)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور چھوڑنے میں چاند دیکھنا ضروری ہے محض فلکی حساب کافی نہیں۔ رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقہ کی رویت دوسرے علاقہ والوں کے لیے معتبر ہو گی یا نہیں تو اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، رویت ہلال کا مسئلہ ہمیشہ بحث کا موضوع بنا رہتا ہے، اس لیے اس مسئلہ کی وضاحت ضروری ہے: اگر کسی جگہ چاند نظر آ جائے تو کیا سارے مسلمانوں کے لیے واجب ہے کہ وہ اس رویت کی بنا پر روزہ رکھیں یا روزہ توڑ دیں یا ہر ملک اور علاقہ کے لوگ اپنے ملک کے مطلع کے مطابق چاند دیکھ کر اس کا اعتبار کریں، اور اس کے مطابق عمل کریں۔ (۱) جمہور اہل علم جن میں امام ابوحنیفہ اور امام احمد بھی داخل ہیں کے نزدیک اگر ایک شہر میں چاند نکل آئے تو ہر جگہ کے لوگ اس کے مطابق روزہ رکھیں، اور چھوڑیں، یعنی ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی ہو گی، اس لیے کہ حدیث میں وارد «صوموا» اور «أفطروا» کا حکم عام ہے، اس کے مخاطب دنیا کے تمام مسلمان ہیں، ان کے نزدیک رویت ہلال میں مطالع کے اتفاق اور اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں۔ (۲) علماء کی ایک جماعت جن میں امام شافعی سرفہرست ہیں کے نزدیک رویت ہلال کے مسئلے میں اختلاف مطالع مؤثر اور معتبر ہے، زیر نظر حدیث میں جو حکم ہے وہ ان لوگوں کے لیے جن کے یہاں ہلال نظر آ گیا ہے، لیکن جہاں چاندنظر ہی نہیں آیا تو ان کے لیے یہ حکم اس وقت مؤثر ہو گا جب چاند نظر آئے جا ئے گا جیسے صوم و صلاۃ کے اوقات میں ہر جگہ کے طلوع اور غروب کا اعتبار ہے، ایسے ہی چاند کی رویت میں بھی اختلاف مطالع مؤثر ہے، اس لیے ایک علاقہ کی رویت دوسرے علاقے کے مسلمانوں کے لئے کافی نہیں، اس حدیث کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنھوں نے چاند دیکھا ہو، اور جن علاقے کے مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب نہیں ہیں، اس لیے ہر علاقے کے لیے اپنی اپنی الگ الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے اور عید منانے کا فیصلہ کریں گے۔ شیخ الإسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں: اہل علم کا اس مسئلے پر اتفاق ہے کہ مطالع مختلف ہوتے ہیں، اگر مطلع ایک ہو تو روزہ لازمی طور پر رکھنا ہو گا، ورنہ اختلاف مطالع کی صورت میں روزہ رکھنا ضروری نہیں ہو گا، شافعیہ کا صحیح ترین قول نیز حنبلی مذہب کا ایک قول یہی ہے، اس عقلی دلیل کے ساتھ اختلاف مطالع کے مؤثر ہونے کی نقلی دلیل صحیح مسلم میں آئی ہے: کریب کہتے ہیں کہ میں شام آیا اور جمعہ کی رات میں رمضان کا چاند دیکھا آخری مہینہ میں واپس مدینہ آیا تو مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا: تم لوگوں نے شام میں کب چاند دیکھا تو میں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات کو لوگوں نے چاند دیکھا اور روزہ رکھا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم لوگوں نے مدینہ میں سنیچر کی رات کو چاند دیکھا ہے، ہم چاند دیکھ کر روزہ توڑیں گے یا تیس دن پورا کریں گے، اس لیے کہ رسول اکرم ﷺ نے ہمیں ایسے ہی حکم دیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اہل علم کا عمل اس حدیث پر ہے۔ اس قصے سے یہ بات واضح ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے شام والوں کی رویت کا اعتبار نہیں کیا بلکہ مدینہ والوں کی رویت کو معتبر مانا۔ اس مذہب کے قائلین اختلاف مطالع کو جو کہ ایک حقیقت ہے رویت ہلال کے مسئلہ میں معتبر مانتے ہیں، امت میں اس سلسلے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے، جس کی بنیاد حدیث کے ساتھ ساتھ اختلاف مطالع کو معتبر ماننا بھی ہے۔ کتاب الزلال کے مؤلف فرماتے ہیں: یہ بات یقینی طور پر جان لینی چاہئے صحیح بات جس پر محقق علمائے حدیث و اہل نظر اور فلکیات کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ رویتِ ہلال میں دیکھا جائے گا کہ جس جگہ رویت ہوئی ہے، وہاں سے دو ہزار دو سو چھبیس (۲۲۲۶) کلومیٹر کے درمیان کی دوری کا حکم اتحاد مطالع کی وجہ سے روزہ رکھنے اور توڑنے میں یکساں ہو گا، اور اگر اس سے زیادہ مسافت ہو گی تو اس کا اعتبارصحیح نہیں ہو گا، اور ہر علاقے کا حکم اس کے مطلع کے اختلاف کے مطابق ہو گا، چاہے یہ دوری مشرق و مغرب کی ہو یا شمال و جنوب کی اور چاہے یہ ایک ملک میں ہو یا ایک اقلیم میں، یہ شرعی دلائل اور فلکیاتی حساب کے موافق ہے، اور اس سے سارے اشکالات ختم ہو جاتے ہیں «واللہ اعلم» رویت ہلال سے متعلق سعودی عرب کے کبار علماء کے بورڈ کے متفق علیہ فتوے کا خلاصہ درج ذیل ہے: اختلافِ مطالع ضروری طور پر معلوم و مشہور چیز ہے، جس کے بارے میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں، ہاں علماء کے نزدیک اس کے معتبر ماننے اور نہ ماننے کے درمیان اختلاف ہے، اختلافِ مطالع کو رویت ہلال کے سلسلے میں مؤثر و معتبر ماننا اور نہ ماننا ان مسائل میں سے ہے جن میں اجتہاد کی گنجائش ہے، معتبر اہل علم اور اہل دین کے یہاں اس میں اختلاف رہا ہے، اور یہ جائز قسم کا اختلاف ہے، اہل علم کی اس میں دو رائے ہے، ایک گروہ اختلافِ مطالع کو مؤثر مانتا ہے، اور دوسرے گروہ کے یہاں اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں ہے، ہر فریق کا اپنا اپنا استدلال ہے، علماء بورڈ نے اس مسئلے کے مختلف گوشوں پر غور و خوض کر کے اور یہ مان کر کہ یہ مسئلہ چودہ سال سے امت میں موجود ہے، اس رائے کا اظہار کیا کہ ان گزشتہ صدیوں میں ہمیں کسی ایسے زمانے کا علم نہیں ہے جس میں ایک شہر کی رویت کی بنا پر سب لوگوں نے ایک دن ہی عید منائی ہو، اس لیے بورڈ کے ممبران کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ جیسے ہے ویسے ہی رہنے دیا جائے، ہر اسلامی ملک کو اس بات کا حق ہے کہ ان دونوں میں سے ان کے علماء وفقہاء جس رائے کے مطابق فتوی دیں اس کے مطابق عمل کیا جائے، رہ گیا چاند کا ثبوت فلکیاتی حساب سے تو علماء بورڈ اسے بالاجماع غیر معتبر مانتا ہے، «واللہ اعلم» ۔ (ملاحظہ ہو: توضیح الأحکام من بلوغ المرام للشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن البسام حدیث نمبر:۵۴۱)

It was narrated from Ibn ‘Umar that the Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘When you see the new crescent, fast, and when you see it, stop fasting. If it is cloudy then calculate it (as thirty days).” Ibn ‘Umar used to fast one day before the new crescent was seen.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
   صحيح البخاري1900عبد الله بن عمرإذا رأيتموه فصوموا إذا رأيتموه فأفطروا إن غم عليكم فاقدروا له
   صحيح البخاري1907عبد الله بن عمرالشهر تسع وعشرون ليلة فلا تصوموا حتى تروه إن غم عليكم فأكملوا العدة ثلاثين
   صحيح البخاري1906عبد الله بن عمرلا تصوموا حتى تروا الهلال لا تفطروا حتى تروه إن غم عليكم فاقدروا له
   صحيح مسلم2505عبد الله بن عمرالشهر تسع وعشرون ليلة لا تصوموا حتى تروه لا تفطروا حتى تروه أن يغم عليكم فإن غم عليكم فاقدروا له
   صحيح مسلم2502عبد الله بن عمرالشهر تسع وعشرون لا تصوموا حتى تروه لا تفطروا حتى تروه إن غم عليكم فاقدروا له
   صحيح مسلم2503عبد الله بن عمرالشهر تسع وعشرون إذا رأيتم الهلال فصوموا إذا رأيتموه فأفطروا إن غم عليكم فاقدروا له
   صحيح مسلم2499عبد الله بن عمرالشهر هكذا وهكذا وهكذا ثم عقد إبهامه في الثالثة صوموا لرؤيته أفطروا لرؤيته إن أغمي عليكم فاقدروا له ثلاثين
   صحيح مسلم2498عبد الله بن عمرلا تصوموا حتى تروا الهلال لا تفطروا حتى تروه إن أغمي عليكم فاقدروا له
   صحيح مسلم2504عبد الله بن عمرإذا رأيتموه فصوموا إذا رأيتموه فأفطروا إن غم عليكم فاقدروا له
   سنن أبي داود2342عبد الله بن عمرصامه وأمر الناس بصيامه
   سنن أبي داود2320عبد الله بن عمرالشهر تسع وعشرون لا تصوموا حتى تروه لا تفطروا حتى تروه إن غم عليكم فاقدروا له ثلاثين
   سنن النسائى الصغرى2123عبد الله بن عمرلا تصوموا حتى تروا الهلال لا تفطروا حتى تروه إن غم عليكم فاقدروا له
   سنن النسائى الصغرى2124عبد الله بن عمرلا تصوموا حتى تروه لا تفطروا حتى تروه إن غم عليكم فاقدروا له
   سنن النسائى الصغرى2122عبد الله بن عمرإذا رأيتم الهلال فصوموا إذا رأيتموه فأفطروا إن غم عليكم فاقدروا له
   سنن ابن ماجه1654عبد الله بن عمرإذا رأيتم الهلال فصوموا إذا رأيتموه فأفطروا إن غم عليكم فاقدروا له
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم242عبد الله بن عمرلا تصوموا حتى تروا الهلال، ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فاقدروا له
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم243عبد الله بن عمرالشهر تسع وعشرون، فلا تصوموا حتى تروا الهلال، ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فاقدروا له
   بلوغ المرام529عبد الله بن عمر‏‏‏‏إذا رايتموه فصوموا وإذا رايتموه فافطروا،‏‏‏‏ فإن غم عليكم فاقدروا له
   بلوغ المرام530عبد الله بن عمرتراءى الناس الهلال،‏‏‏‏ فاخبرت النبي صلى الله عليه وآله وسلم اني رايته،‏‏‏‏ فصام،‏‏‏‏ وامر الناس بصيامه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 242  
´چاند دیکھ کر روزہ رکھنا اور افطار کرنا چاہیے`
«. . . 208- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر رمضان، فقال: لا تصوموا حتى تروا الهلال، ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فاقدروا له. . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا ذکر کیا تو فرمایا: جب تک تم (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور جب تک تم (عید کا) چاند نہ دیکھ لو روزہ افطار (یعنی عید) نہ کرو اور اگر موسم ابر آلود ہو تو (تیس کی) گنتی پوری کرو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 242]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1906، ومسلم 1080، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ ہر علاقے کے لوگ اپنا اپنا چاند دیکھیں گے۔ دُور کے علاقوں کی رویت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
◈ کریب مولیٰ ابن عباس نے جب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بتایا کہ (سیدنا) معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے ایک دن پہلے جمعہ کو چاند دیکھا تھا تو ابن عباس نے اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا اور فرمایا: ہم نے تو ہفتہ کو چاند دیکھا تھا اور ہم اس کے مطابق روزے رکھتے رہیں گے حتیٰ کہ ہم چاند دیکھ لیں یا تیس دن پورے ہو جائیں۔ انہوں نے فرمایا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی طرح حکم دیا تھا۔ [ديكهئے صحيح مسلم: 1087، ترقيم دارالسلام: 2528]
◈ یہ مرفوع حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہر شہر اور اس کے قریبی علاقوں کے لوگ اپنا اپنا چاند دیکھیں گے اور یہ ضروری نہیں کہ ساری دنیا میں ایک ہی دن روزہ یا ایک ہی دن عید ہو۔
➋ حافظ ابن عبدالبر الاندلسی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ خراسان کی رویت کا اندلس میں اور اندلس کی رویت کا خراسان میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ دیکھئے [الاستذكار 3/283 ح592]
➌ اگر آسمان پر انتیس تاریخ کو بادل چھائے ہوں تو پھر اس مہینے کے تیس دن پورے کر لینے چاہئیں
➍ اعتبار رویت کا ہے حساب کا نہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 208   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 243  
´چاند دیکھ کر روزہ رکھنا اور افطار کرنا چاہیے`
«. . . 282- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الشهر تسع وعشرون، فلا تصوموا حتى تروا الهلال، ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فاقدروا له . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہینہ انتیس (29) دنوں کا ہوتا ہے لہٰذا جب تک چاند نہ دیکھو روزہ نہ رکھو اور جب تک چاند نہ دیکھ لو افطار (عید) نہ کرو۔ پھر اگر تم پر موسم ابر آلود ہو تو (تیس دن) پورے کر لو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 243]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1907، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ ہر علاقے کے لوگوں کو اپنا اپنا چاند دیکھ کر رمضان کے روزے رکھنا اور عید کرنی چاہئے۔
➋ مزید فقہی فوائد وفقہ الحدیث کے لئے دیکھئے: ح 208
➌ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ساری دنیا کے لوگ ایک ہی دن روزہ رکھیں اور ایک ہی دن عید کریں۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ مکہ و مدینہ میں جب دن ہوتا ہے تو امریکہ کے بعض علاقوں میں اس وقت رات ہوتی ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 282   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1654  
´چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر روزہ توڑنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر ہی روزہ توڑا کرو، اور اگر چاند بادل کی وجہ سے مشتبہ ہو جائے تو تیس دن کی تعداد پوری کرو ۱؎۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما چاند نکلنے کے ایک روز پہلے سے ہی روزہ رکھنا شروع کر دیتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1654]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
چاند نظر آنے پرقمری مہینہ شروع ہوجاتا ہے۔
رات اپنے بعد والے دن کے ساتھ گنی جاتی ہے۔

(2)
چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کا مطلب رات ہی کو روزہ رکھنا نہیں کیونکہ روزے کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے۔

(3)
چاند دیکھ کر روزہ چھوڑنے کامطلب یہ ہے کہ شوال کا چاند نظر آجائے تو وہ رات شوال کی پہلی رات ہوگی۔
رمضان کے احکام ختم ہوجایئں گے۔
اگر سورج غروب ہونے سے پہلے چاند نظر آ جائے۔
جیسے بعض اوقات تیس کا مہینہ ہونے کی صورت میں ہوجاتا ہے۔
تو سورج غروب ہونے سے پہلے روزہ افطار نہ کیا جائے۔
کیونکہ روزہ غروب آفتاب پر ختم ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿ ثُمَّ أَتِمُّوا۟ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيْلِ ۚ﴾  (البقرۃ: 187/2)
پھر رات تک روزہ پورا کرو
(4)
بادل ہونے کی صورت میں اندازہ کرنے کا مطلب تیس روزے پورا کرنا ہے۔
کیونکہ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ (فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلاَثِيْن)
اگر بادل ہوجایئں تو تیس کی گنتی پوری کرلو (صحیح البخاري، الصوم، باب قول النبي إذا رایتم الھلال فصوموا واذا رایتموہ فافطروا حدیث 1907)

(5)
تیسواں روزہ رکھنے کو اندازہ اسی لئے کہا گیا ہے۔
کہ مذکورہ صورت میں چاند نہ ہونا یقینی نہیں لیکن چاند ہونے کا یقین نہ ہونے کی وجہ سے رمضان کے باقی رہنے کا حکم لگایا گیا ہے۔
اگر یقینی خبر سے چاند ہونا ثابت ہوجائے تو روزہ چھوڑ دیا جائے گا۔

(6)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رمضان سے پہلےایک روزہ رکھا۔
ممکن ہے وہ ان کی عادت کے مطابق روزہ ہو جو اتفاقاً اسی روز واقع ہوگیا ہو۔
دیکھئے: (حدیث: 1650، فائدہ: 3)
 یا ممکن ہے انھوں نے نہی کو فضیلت کے معنی میں لیا ہو۔
واللہ أعلم۔
 بہرحال صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول وعمل پر رسول اللہ ﷺ کے ارشاد مبارک کو ترجیح دیتے ہوئے یہ روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے۔
نیز شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فعل کی بابت لکھتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل صرف ابن ماجہ میں ہے۔
اور یہ اضافہ منکر ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (إرواء الغلیل: 10/4، رقم: 903)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1654   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 529  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو اور (عید کے لیے) چاند دیکھ لو تو افطار کر دو۔ اگر مطلع ابر آلود ہو تو اس کے لیے اندازہ لگا لو۔ (متفق علیہ) مسلم کے الفاظ ہیں اگر مطلع ابر آلود ہو تو پھر اس کے لیے تیس دن کی گنتی کا اندازہ رکھو۔ اور بخاری کے الفاظ ہیں پھر تیس روز کی گنتی اور تعداد پوری کرو۔ اور بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے پھر تم شعبان کے تیس دن پورے کرو۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 529]
لغوی تشریح 529:
أِذَارَأَیتُمُوہُ جب تم دیکھ لو۔ اس سے مراد چاند ہے، یعنی جب چاند تمہیں نظر آ جائے۔
فَأِن غُمَّ غُمَّ میں غین پر ضمہ اور میم پر تشدید ہے۔ صیغۂ مجہول ہے۔ مطلب یہ ھیکہ جب چاند نظر نہ آئے مخفی اور پوشیدہ رہ جائے، ابر آلودگی کی وجہ سے یا کسی ایسی ہی دوسری وجہ سے نہ دیکھا جا سکے۔
فَاقدُرُو لَہُ قدر سے امر کا صیغہ ہے۔
فَاقدُرُو لَہُ میں دال پر ضمہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں۔ معنی یہ ہوئے کہ تیسواں روزہ بھی رکھ کر مکمل مہینے کی گنتی اور تعداد پوری کر لو۔

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 529   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2320  
´مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہینہ انتیس دن کا (بھی) ہوتا ہے لہٰذا چاند دیکھے بغیر نہ روزہ رکھو، اور نہ ہی دیکھے بغیر روزے چھوڑو، اگر آسمان پر بادل ہوں تو تیس دن پورے کرو۔‏‏‏‏ راوی کا بیان ہے کہ جب شعبان کی انتیس تاریخ ہوتی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما چاند دیکھتے اگر نظر آ جاتا تو ٹھیک اور اگر نظر نہ آتا اور بادل اور کوئی سیاہ ٹکڑا اس کے دیکھنے کی جگہ میں حائل نہ ہوتا تو دوسرے دن روزہ نہ رکھتے اور اگر بادل یا کوئی سیاہ ٹکڑا دیکھنے کی جگہ میں حائل ہو جاتا تو صائم ہو کر صبح کرتے۔ راوی کا یہ بھی بیان ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2320]
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بادل اور غبار وغیرہ جیسی رکاوٹ کے باعث چاند نظر نہ آنے پر روزہ رکھ لیا کرتے تھے ممکن ہے کہ اگلا دن رمضان کا ہو۔
اور وہ اس کو شک کا دن نہ سمجھتے تھے۔
وہ شدت احتیاط کے تحت ایسا کرتے اور اس میں وہ منفرد بھی ہیں، اس لیے راجح یہی ہے کہ ابر یا غبار کے باعث چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کئے جائیں گے۔
اس دن کا روزہ شک کا روزہ ہو گا جو کہ ممنوع ہے۔
علامہ البانی رحمة اللہ علیہ نے حضرت ابن عمر کا یہ عمل ضعیف لکھا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2320   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.