الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
The Chapters on Divorce
26. بَابُ : الْمُظَاهِرُ يُجَامِعُ قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ
26. باب: ظہار کرنے والا کفارہ دینے سے پہلے جماع کر لے تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2064
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عبد الله بن سعيد ، حدثنا عبد الله بن إدريس ، عن محمد بن إسحاق ، عن محمد بن عمرو بن عطاء ، عن سليمان بن يسار ، عن سلمة بن صخر البياضي ، عن النبي صلى الله عليه وسلم" في المظاهر يواقع قبل ان يكفر، قال: كفارة واحدة".
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْبَيَاضِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فِي الْمُظَاهِرِ يُوَاقِعُ قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ، قَالَ: كَفَّارَةٌ وَاحِدَةٌ".
سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہار کرنے والے شخص کے متعلق جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے جماع کر لے فرمایا: اس پر ایک ہی کفارہ ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظرحدیث (رقم: 2062) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Salamah bin Sakhr Al-Bayedi that: the Prophet (ﷺ) said concerning a man who declared Zihar upon his wife having intercourse with her before compensation: "Let him offer one expiation."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
ضعيف
انظر الحديث السابق (2062)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 452
   جامع الترمذي3299سلمة بن صخرتظاهرت من امرأتي حتى ينسلخ رمضان فرقا من أن أصيب منها في ليلتي فأتتابع في ذلك إلى أن يدركني النهار وأنا لا أقدر أن أنزع فبينما هي تخدمني ذات ليلة إذ تكشف لي منها شيء فوثبت عليها فلما أصبحت غدوت على قومي فأخبرتهم خبري فقلت انطلقوا معي إلى رسول الله صلى الل
   جامع الترمذي1200سلمة بن صخرجعل امرأته عليه كظهر أمه حتى يمضي رمضان فلما مضى نصف من رمضان وقع عليها ليلا فأتى رسول الله فذكر ذلك له فقال له رسول الله أعتق رقبة قال لا أجدها قال فصم شهرين متتابعين قال لا أستطيع قال أطعم ستين مسكينا قال لا أجد فقا
   جامع الترمذي1198سلمة بن صخركفارة واحدة
   سنن أبي داود2213سلمة بن صخرانطلق إلى صاحب صدقة بني زريق فليدفعها إليك فأطعم ستين مسكينا وسقا من تمر وكل أنت وعيالك بقيتها
   سنن ابن ماجه2062سلمة بن صخرانكشف لي منها شيء فوثبت عليها فواقعتها فلما أصبحت غدوت على قومي فأخبرتهم خبري وقلت لهم سلوا لي رسول الله فقالوا ما كنا لنفعل إذا ينزل الله فينا كتابا أو يكون فينا من رسول الله قول فيبقى علينا عاره ولكن سوف نسلم
   سنن ابن ماجه2064سلمة بن صخرالمظاهر يواقع قبل أن يكفر قال كفارة واحدة
   بلوغ المرام935سلمة بن صخر حرر رقبة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2062  
´ظہار کا بیان۔`
سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا آدمی تھا جسے عورتوں کی بڑی چاہت رہتی تھی، میں کسی مرد کو نہیں جانتا جو عورت سے اتنی صحبت کرتا ہو جتنی میں کرتا تھا، جب رمضان آیا تو میں نے اپنی بیوی سے رمضان گزرنے تک ظہار کر لیا، ایک رات وہ مجھ سے باتیں کر رہی تھی کہ اس کا کچھ بدن کھل گیا، میں اس پہ چڑھ بیٹھا، اور اس سے مباشرت کر لی، جب صبح ہوئی تو میں اپنے لوگوں کے پاس گیا، اور ان سے اپنا قصہ بیان کیا، میں نے ان سے کہا: تم لوگ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھو، تو انہوں نے کہا: ہم نہیں پوچھیں گے، ایسا نہ ہو کہ ہماری شان میں وحی اترے، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2062]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی وجہ سے صحیح قراردیا ہے۔
تفصیل کےلیے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثة مسند الإمام أحمد: 26/ 347، 350، وإرواہ الغلیل: 7/ 176، 179، رقم: 2091)
لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف اور معناً صحیح ہے۔

(2)
  ظہار کا مطلب ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے:
تو میرے لیے ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ اس کا مطلب یہ ہے کہ تو مجھ پر اسی طرح حرام ہے جس طرح ماں حرام ہوتی ہے۔

(3)
  ظہار کرنا گناہ ہے لیکن اس سے نکاح نہیں ٹوٹتا۔
صرف اس وقت تک مقاربت منع ہو جاتی ہے جب تک کفارہ ادا نہ کرلیا جائے۔

(4)
  اس گناہ کا کفارہ یہ ہے کہ دوبارہ ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے پہلے ایک غلام آزاد کیا جائے۔
اگر یہ ممکن نہ ہوتو دوماہ تک مسلسل روزے رکھے۔
اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو ساٹھ مسکینوں کوایک وقت کھانا کھلادے۔

(5)
جس شخص پر کسی وجہ سے کفارہ واجب ہو جائے اور وہ اتنا غریب ہو کہ ادا نہ کرسکتا ہو تومسلمانوں کو چاہیے کہ صدقات و زکاۃ سے اس کی مدد کریں تاکہ وہ کفارہ ادا کرسکے۔

(6)
  اگر مقررہ مدت کےلیے ظہار کیا جائے، پھر اس مدت میں مقاربت سے پرہیز کیا جائے تو کفارہ واجب نہیں ہوگا۔

(7)
  اگر ظہار میں مدت کا ذکر نہ ہو تو جب بھی بیوی سے ملاپ کرنا چاہے گا، ضروری ہوگا کہ اس سے پہلے کفارہ ادا کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2062   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 935  
´ایلاء، ظہار اور کفارہ کا بیان`
سیدنا سلمہ بن صخر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک شروع ہوا۔ مجھے اندیشہ لاحق ہوا کہ میں اپنی بیوی سے مباشرت کر بیٹھوں گا۔ اس اندیشہ کے پیش نظر میں نے بیوی سے ظہار کر لیا۔ ایک چاندنی رات میں اس کے بدن کی کوئی چیز میرے سامنے کھل گئی تو میں اس سے مجامعت کر بیٹھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا کہ ایک گردن (غلام) آزاد کر۔ میں نے عرض کیا میں تو اپنی گردن کے سوا دوسری کسی گردن کا مالک نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر پے در پے دو ماہ کے روزے رکھ۔ میں نے عرض کیا اس مصیبت میں روزے ہی کی وجہ سے تو مبتلا ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تو پھر کھجوروں کا ایک ٹوکرا ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو۔ اسے احمد اور چاروں نے ماسوا نسائی کے روایت کیا ہے۔ ابن خزیمہ اور ابن جارود نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 935»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الطلاق، باب في الظهار، حديث:2213، والترمذي، الطلاق واللعان، حديث:1200، وابن ماجه، الطلاق، حديث:2062، وأحمد:5 /436.»
تشریح:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے اور انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف اور معناً صحیح ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۲۶ /۳۴۷‘ ۳۵۰‘ وإرواء الغلیل: ۷ /۱۷۶. ۱۷۹‘ رقم:۲۰۹۱)
راویٔ حدیث:
«حضرت سلمہ بن صخر رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ سلسلہ نسبسلمہ بن صخر بن سلیمان بن صمہ بیاضی ہے۔
بیاضی کے با پر فتحہ ہے اور یہ بنوبیاضہ کی جانب نسبت ہے جو خزرج قبیلے کی شاخ تھی۔
یہ صحابی ٔ ٔرسول ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے جو اللہ کے ڈر سے بہت رونے والے تھے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 935   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1198  
´ظہار کرنے والے کا بیان جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے جماع کر بیٹھے۔`
سلمہ بن صخر بیاضی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظہار ۱؎ کرنے والے کے بارے میں جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے مجامعت کر لیتا ہے فرمایا: اس کے اوپر ایک ہی کفارہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1198]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ظہار کا مطلب بیوی سے «أنتِ عَلَيّ کَظَہْر امِّي»  (تومجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے) کہنا ہے،
زمانہء جاہلیت میں ظہار کوطلاق سمجھا جاتا تھا،
امت محمدیہ میں ایسا کہنے والے پر صرف کفارہ لازم آتا ہے،
اوروہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے،
اگر اس کی طاقت نہ ہو تو پے درپے بلاناغہ دومہینے کے صیام رکھے اگردرمیان میں بغیر عذرشرعی کے صوم چھوڑ دیا تو نئے سرے سے پورے دومہینے کے صیام رکھنے پڑیں گے،
عذرشرعی سے مراد بیماری یا سفر ہے،
اوراگر پے درپے دومہینہ کے صیام رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکین کو کھانا کھلائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1198   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2213  
´ظہار کا بیان۔`
سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے مقابلے میں میں کچھ زیادہ ہی عورتوں کا شوقین تھا، جب ماہ رمضان آیا تو مجھے ڈر ہوا کہ اپنی بیوی کے ساتھ کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس کی برائی صبح تک پیچھا نہ چھوڑے چنانچہ میں نے ماہ رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے اس سے ظہار کر لیا۔ ایک رات کی بات ہے وہ میری خدمت کر رہی تھی کہ اچانک اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آ گیا تو میں اس سے صحبت کئے بغیر نہیں رہ سکا، پھر جب میں نے صبح کی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں سارا ماجرا سنایا، نیز ان سے درخواست کی کہ وہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں، وہ کہنے لگے: الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2213]
فوائد ومسائل:

ایمان جب دل میں جاگزیں ہوجاتا ہے تومومن اللہ کی نافرمانی سے خائف رہتا ہے۔
اور اگر کوئی خطا ہوجائے تو فورا اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔
اور یہی تفسیر ہے اس قول کی کہ ایمان خوف اور رجا (امید) کے درمیان ہے اور یہ واقعہ اس کی شاندار مثال ہے۔


ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں اور ایک صاع میں چار مد اس حساب سے ایک صاع کا وزن تقریبا ڈھائی کلو اور ایک وسق کا وزن تین من اور تیس کلو اور بعض علماء کے نزدیک تین من اور چھ کلو ہوگا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2213   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.