الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: رہن کے احکام و مسائل
The Chapters on Pawning
12. بَابُ : اسْتِكْرَاءِ الأَرْضِ بِالطَّعَامِ
12. باب: غلہ کے بدلے زمین کرایہ پر دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2465
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا حميد بن مسعدة ، حدثنا خالد بن الحارث ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن يعلى بن حكيم ، عن سليمان بن يسار ، عن رافع بن خديج ، قال: كنا نحاقل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فزعم ان بعض عمومته اتاهم، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كانت له ارض فلا يكريها بطعام مسمى".
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، قَالَ: كُنَّا نُحَاقِلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَعَمَ أَنَّ بَعْضَ عُمُومَتِهِ أَتَاهُمْ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلَا يُكْرِيهَا بِطَعَامٍ مُسَمَّى".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں محاقلہ کیا کرتے تھے، پھر ان کا خیال ہے کہ ان کے چچاؤں میں سے کوئی آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جس کے پاس زمین ہو وہ اس کو متعین غلے کے بدلے کرائے پر نہ دے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 18 (1548)، سنن ابی داود/البیوع 32 (3395، 3396)، سنن النسائی/المزارعة 2 (3926)، (تحفة الأشراف: 3559)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/کراء الأرض 1 (1)، مسند احمد (3/464، 465، 466) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
   صحيح البخاري2339رافع بن خديجما تصنعون بمحاقلكم قلت نؤاجرها على الربع وعلى الأوسق من التمر والشعير لا تفعلوا ازرعوها أو أزرعوها أو أمسكوها
   صحيح مسلم3949رافع بن خديجلا تفعلوا ازرعوها أو أزرعوها أو أمسكوها
   جامع الترمذي1384رافع بن خديجإذا كانت لأحدكم أرض فليمنحها أخاه أو ليزرعها
   سنن أبي داود3395رافع بن خديجمن كانت له أرض فليزرعها أو فليزرعها أخاه لا يكاريها بثلث ولا بربع ولا بطعام مسمى
   سنن أبي داود3397رافع بن خديجيزرع أحدنا إلا أرضا يملك رقبتها منيحة يمنحها رجل
   سنن النسائى الصغرى3902رافع بن خديجمن كان له أرض فليزرعها أو يمنحها أو يذرها
   سنن النسائى الصغرى3903رافع بن خديجمن كان له أرض فليزرعها أو ليذرها أو ليمنحها
   سنن النسائى الصغرى3955رافع بن خديجلا تفعلوا ازرعوها أو أزرعوها أو امسكوها
   سنن النسائى الصغرى3954رافع بن خديجلا تفعلوا ازرعوها أو أعيروها أو امسكوها
   سنن النسائى الصغرى3928رافع بن خديجمن كانت له أرض فليزرعها أو ليزرعها أخاه لا يكاريها بثلث ولا ربع ولا طعام مسمى
   سنن النسائى الصغرى3897رافع بن خديجمن كانت له أرض فليزرعها فإن عجز عنها فليزرعها أخاه
   سنن النسائى الصغرى3900رافع بن خديجلو منحها أخاه
   سنن ابن ماجه2459رافع بن خديجما تصنعون بمحاقلكم قلنا نؤاجرها على الثلث والربع والأوسق من البر والشعير لا تفعلوا ازرعوها أو أزرعوها
   سنن ابن ماجه2465رافع بن خديجمن كانت له أرض فلا يكريها بطعام مسمى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2465  
´غلہ کے بدلے زمین کرایہ پر دینے کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں محاقلہ کیا کرتے تھے، پھر ان کا خیال ہے کہ ان کے چچاؤں میں سے کوئی آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جس کے پاس زمین ہو وہ اس کو متعین غلے کے بدلے کرائے پر نہ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2465]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
یہ اس وقت کی بات ہے جب تہائی چوتھائی یا غلے کی مقرر مقدار کےعوض زمین کرائے پردینے کی صرف ایک ہی صورت مروج تھی جس میں پانی کی نالیوں کےکنارے اورآبی گزر گاہوں وغیرہ کےقریب واقع زمین کےٹکڑے کی پیداوار مالک کےلیے مختص تھی۔
حدیث میں مذکور اسی صورت کوممنوع قرار دیا گیا ہے۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2465   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1384  
´مزارعت ہی سے متعلق ایک اور باب۔`
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع فرما دیا جو ہمارے لیے مفید تھا، وہ یہ کہ جب ہم میں سے کسی کے پاس زمین ہوتی تو وہ اس کو (زراعت کے لیے) کچھ پیداوار یا روپیوں کے عوض دے دیتا۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پاس زمین ہو تو وہ اپنے بھائی کو (مفت) دیدے۔ یا خود زراعت کرے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1384]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
دیکھئے پچھلی حدیث اور اس کا حاشہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1384   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3395  
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (بٹائی پر) کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے تو (ایک بار) میرے ایک چچا آئے اور کہنے لگے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام سے منع فرما دیا ہے جس میں ہمارا فائدہ تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لیے مناسب اور زیادہ نفع بخش ہے، ہم نے کہا: وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جس کے پاس زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ خود کاشت کرے، یا (اگر خود کاشت نہ کر سکتا ہو تو) اپنے کسی بھائی کو کاشت کروا دے اور اسے تہائی یا چوتھائی یا کسی معی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3395]
فوائد ومسائل:
تہائی چوتھائی یا متعین غلے پر کرائے کی ایک ہی صورت مروج تھی۔
جس میں آبی گزرگاہوں نالیوں وغیرہ کی پیداوار مالک کےلئے مختص تھی، اس صورت کو ممنوع قرار دیا گیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3395   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.