الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: شکار کے احکام و مسائل
Chapters on Hunting
16. بَابُ : الضَّبِّ
16. باب: ضب (صحرائے نجد میں پائے جانے والے گوہ) کا بیان۔
حدیث نمبر: 3241
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المصفى الحمصي ، حدثنا محمد بن حرب ، حدثنا محمد بن الوليد الزبيدي ، عن الزهري ، عن ابي امامة بن سهل بن حنيف ، عن عبد الله بن عباس ، عن خالد بن الوليد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بضب مشوي، فقرب إليه فاهوى بيده لياكل منه، فقال له من حضره: يا رسول الله، إنه لحم ضب فرفع يده عنه، فقال له خالد: يا رسول الله، احرام الضب؟، قال:" لا، ولكنه لم يكن بارضي فاجدني اعافه"، قال: فاهوى خالد إلى الضب فاكل منه، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر إليه.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِضَبٍّ مَشْوِيٍّ، فَقُرِّبَ إِلَيْهِ فَأَهْوَى بِيَدِهِ لِيَأْكُلَ مِنْهُ، فَقَالَ لَهُ مَنْ حَضَرَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ فَرَفَعَ يَدَهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ خَالِدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَرَامٌ الضَّبُّ؟، قَالَ:" لَا، وَلَكِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ"، قَالَ: فَأَهْوَى خَالِدٌ إِلَى الضَّبِّ فَأَكَلَ مِنْهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ.
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی ضب (گوہ) لائی گئی، اور آپ کو پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ۱؎، تو وہاں موجود ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے (یہ سن کر) آپ نے اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، خالد رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ضب (گوہ) حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، لیکن وہ میرے علاقہ میں نہیں ہوتی اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں، (یہ سن کر) خالد رضی اللہ عنہ نے ضب (گوہ) کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کو کھایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ رہے تھے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 10 (5391)، 14 (5400)، الذبائح 33 (5537)، صحیح مسلم/الذبائح 7 (1946)، سنن ابی داود/الأطعمة 28 (3794)، سنن النسائی/الصید و الذبائح 26 (4321)، (تحفة الأشراف: 3504)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الإستئذان 4 (10)، مسند احمد (4/88، 89)، سنن الدارمی/الصید 8 (2060) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں یونس نے زہری سے مزید یہ الفاظ نقل کیے ہیں کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کھانے کو اپنے ہاتھ میں لیتے یہاں تک کہ آپ کو اس کے بارے میں بتا دیا جاتا، اسحاق بن راہویہ اور بیہقی نے شعب الإیمان میں عمر رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ کو ہدیہ دینے کے لیے ایک خرگوش لے کر حاضر ہوا اور آپ ہدیہ کا کھانا اس وقت تک نہ کھاتے تھے جب تک کہ صاحب ہدیہ کو اس کے کھانے کا حکم نہ دیتے، جب وہ کھا لیتا تو آپ بھی کھاتے، ایسا اس واسطے کرتے تھے کہ خیبر میں آپ کے پاس (مسموم) بھنی بکری یہودی عورت نے پیش کی تھی (اور اس سے آپ متاثر ہو گئے تھے تو بعد میں احتیاطی تدبیرکے طور پر ہدیہ دینے والے سے کھانے کی ابتداء کراتے تاکہ کسی سازش کا خطرہ نہ رہ جائے) (حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی سند کو حسن کہا ہے)
۲؎: صحیح بخاری کی روایت میں یہ تفصیل ہے کہ خالد بن ولید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے، اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا تھا کہ یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے، اور صحیح بخاری کے کتاب الأطعمہ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب (گوہ) نہ کھا کر پنیر کھائی اور دودھ پیا۔ اس حدیث میں آپ کے گھن اور کراہت کا سبب یہ ہے کہ آپ کے علاقہ میں ضب (گوہ) نہیں پائی جاتی تھی، ایک دوسری روایت میں ہے کہ ضب (گوہ) کا گوشت میں نے کبھی نہیں کھایا، حافظ ابن حجر حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حدیث میں وارد «بأرض قومي» کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قوم سے مراد قریش ہیں، تو ضب (گوہ) کے نہ پائے جانے کا معاملہ مکہ اور اس کے ارد گرد کے علاقہ سے متعلق ہو گا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ حجاز کے دوسرے علاقے میں ضب (گوہ) موجود ہی نہ ہو صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ مدینہ میں ایک دلہا نے ہمیں دعوت ولیمہ دی اور ہمارے سامنے تیرہ ضب (گوہ) پیش کیے تو کسی نے کھایا اورکسی نے نہیں کھایا، حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ علاقہ حجاز میں ضب (گوہ) بکثرت پائی جاتی ہے، اس حدیث میں صرف خالد رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ انہوں نے ضب (گوہ) کا گوشت کھایا، صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ تم ضب (گوہ) کا گوشت کھاؤ تو فضل بن عباس، خالد اور مذکورہ عورت نے کھایا، شعبی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے فرمایا: ضب (گوہ) کھاؤ اور کھلاؤ، اس لیے کہ یہ حلال ہے یا فرمایا کوئی حرج نہیں، لیکن یہ میری خوراک نہیں، ان تصریحات سے پتہ چلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب (گوہ) کا گوشت صرف اس واسطے نہ کھایا کہ آپ کو اس کے کھانے کی سابقہ عادت نہ تھی۔(الفریوائی)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري5537خالد بن الوليدلم يكن بأرض قومي فأجدني أعافه
   صحيح البخاري5391خالد بن الوليدلم يكن بأرض قومي فأجدني أعافه
   صحيح البخاري5400خالد بن الوليدلا يكون بأرض قومي فأجدني أعافه
   سنن أبي داود3794خالد بن الوليدلم يكن بأرض قومي فأجدني أعافه
   سنن النسائى الصغرى4321خالد بن الوليدلم يكن بأرض قومي فأجدني أعافه
   سنن ابن ماجه3241خالد بن الوليدلم يكن بأرضي فأجدني أعافه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم404خالد بن الوليدلم يكن بارض قومي فاجدني اعافه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 404  
´ہر حلال چیز کا کھانا ضروری نہیں`
«. . . عن خالد بن الوليد بن المغيرة المخزومي: انه دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت ميمونة، قال: فاتي بضب محنوذ فاهوى إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، فقال بعض النسوة اللاتي فى بيت ميمونة: اخبروا رسول الله صلى الله عليه وسلم بما يريد ان ياكل منه. فقيل: هو ضب يا رسول الله. فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، قال: فقلت: احرام هو يا رسول الله؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا، ولكنه لم يكن بارض قومي فاجدني اعافه . . .»
. . . سیدنا خالد بن ولید بن مغیرہ المخرومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے تو بھنا ہو ایک سو سمار (سمسار، ضب) آپ کے پاس لایا گیا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں بعض عورتوں میں سے کسی نے کہا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جسے کھانا چاہتے ہیں اس کے بارے میں آپ کو بتا دو کہا گیا: یا رسول اﷲ! یہ سمسار (ضب) ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا۔ میں نے کہا: یا رسو ل اﷲ! کیا یہ حرام ہے؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں لیکن یہ ہماری قوم کے علاقے میں نہیں ہوتی، پس اس لیے میری طبیعت اس سے انکار کرتی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 404]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5537، من حديث مالك به ورواه مسلم 44/1944، من حديث الزهري به]

تفقه
➊ ہر حلال چیز کا کھانا ضروری نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمسار (سانڈا) کے بارے میں فرمایا: نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ میں اسے حرام قرار دیتا ہوں۔ [الموطأ 1/968 ح1872، وسنده صحيح وصححه الترمذي: 1790]
➋ سمسار (ضب/سانڈا) حلال ہے۔ بعض لوگ اس کا ترجمہ گوہ یا گرگوہ کرتے ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے بلکہ صرف اللہ ہی عالم الغیب ہے اور یہ اللہ کی صفت خاصہ ہے۔
➍ اپنے دوستوں اور شاگردوں وغیرہم کی بہترین دعوت کرنا جائز ہے۔
➎ حلال و حرام قرار دینے کا اختیار کسی امتی کو نہیں ہے بلکہ اس کا دارومدار کتاب و سنت اور دلائل شرعیہ پر ہے۔
➏ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا، سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم دونوں کی خالہ تھیں۔
➐ گوشت کھانا جائز ہے۔
➑ یہ عین ممکن ہے کہ آدمی پر اپنے علاقے کی بعض مباح عادات و اطوار کا کچھ اثر باقی رہے۔
➒ جس مباح چیز کو دل نہ چاہے اسے چھوڑ دینا جائز ہے۔
➓ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا جائے اور آپ اسے دیکھتے ہوئے خاموشی اختیار کریں تو اسے تقریری حدیث کہتے ہیں اور یہ بھی قولی و فعلی حدیث کی طرح حجت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 70   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5400  
´بھنا ہوا گوشت کھانا`
«. . . عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، قَالَ:" أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضَبٍّ مَشْوِيٍّ، فَأَهْوَى إِلَيْهِ لِيَأْكُلَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ ضَبٌّ، فَأَمْسَكَ يَدَهُ، فَقَالَ خَالِدٌ: أَحَرَامٌ هُوَ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّهُ لَا يَكُونُ بِأَرْضِ قَوْمِي، فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ، فَأَكَلَ خَالِدٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ . . .»
. . . خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھنا ہوا ساہنہ پیش کیا گیا تو آپ اسے کھانے کے لیے متوجہ ہوئے۔ اسی وقت آپ کو بتایا گیا کہ یہ ساہنہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا یہ حرام ہے؟ فرمایا کہ نہیں لیکن چونکہ یہ میرے ملک میں نہیں ہوتا اس لیے طبیعت اسے گوارا نہیں کرتی۔ پھر خالد رضی اللہ عنہ نے اسے کھایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ: 5400]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5400 کا باب: «بَابُ الشِّوَاءِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ترجمۃ الباب سے بھنا ہوا گوشت کے کھانے کے بارے میں ہے کہ اسے کھانا درست ہے، تحت الباب ضب والی روایت نقل فرمائی ہے، ضب تو آپ علیہ السلام نے طبیع ناگواری کی وجہ سے تناول نہیں فرمایا اور غور طلب پہلو یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس کے مشوی اور بھنے ہوئے ہونے پر اعتراض نہیں فرمایا اور نہ ہی اس پر کسی قسم کی نکیر فرمائی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ بھنا ہوا گوشت کھانے میں مضائقہ نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام ابن بطال رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا کہ:
«واشار ابن بطال إلى أن أخذ الحكم للترجمة ظاهر من جهة أنه صلى الله عليه وسلم أهدى ليأكل ثم لم يمتنع الا لكونه ضباً فلو كان غير ضب لأكل.» [فتح الباري لابن حجر: 463/10]
ترجمۃ الباب کے لیے اخذ حکم اس جہت سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے لیے آگے ہوئے صرف اس کے ساہنہ کی وجہ سے ممتنع رہے، گویا اگر وہ نہ ہوتا تو یہ بھنا ہوا گوشت تناول فرماتے۔
قریب قریب یہی توجیہ ابن الملقن نے بھی دی، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«والحديث ظاهر لما ترجم له وهو جواز أكل الشواء، لأنه صلى الله عليه وسلم أهدى ليأكل منه، لو كان مما لا يتقزز أكله غير الضب.» [التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 150/26]

لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب اس لیے تناول نہیں فرمایا تھا کہ وہ آپ کی طبیعت مبارک کو پسند نہ تھا، حالانکہ وہ بھنا ہوا تھا، اس کے علاوہ اگر کوئی اور بھنا ہوا گوشت ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے تناول فرماتے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھنی ہوئی اشیاء پر نکیر نہیں فرمائی، لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔

نوٹ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھیں کہ ساہنہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام نہیں ٹھہرایا پس یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کو ناگوار تھا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو تناول نہیں فرماتے تھے۔ باقی دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ علیہ السلام کے سامنے ساہنہ کھاتے تھے لیکن آپ علیہ السلام ان کو روکتے نہ تھے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ساہنہ حلال ہے۔

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ آدمی ساہنہ کھائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام نہیں قرار دیا، یقیناًً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر پر اسے کھایا گیا ہے آپ کی موجودگی میں اگر یہ حرام ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو کھانے کی اجازت نہ دینے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 129   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3241  
´ضب (صحرائے نجد میں پائے جانے والے گوہ) کا بیان۔`
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی ضب (گوہ) لائی گئی، اور آپ کو پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ۱؎، تو وہاں موجود ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے (یہ سن کر) آپ نے اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، خالد رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ضب (گوہ) حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، لیکن وہ میرے علاقہ میں نہیں ہوتی اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں، (یہ سن کر) خالد رض۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3241]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جوچیز دل کواچھی نہ لگے اسے نہ کھانا جائز ہے۔
یہ حلال چیز کو حرام قرار دینے میں شامل نہیں۔

(2)
میرے علاقے میں۔
اور ایک روایت میں (بارض قومی)
میری قوم کے علاقے میں۔
اس سے مراد مکہ مکرمہ اور اس کے قریب و جوار کا علاقہ ہے جوقریش کامسکن تھا۔
حجاز کے دوسرے حصوں میں ضب (سانڈے)
بکثرت موجود ہیں۔ (فتح الباری: 9/ 822)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3241   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.