الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Food
9. بَابُ : لَعْقِ الأَصَابِعِ
9. باب: (کھانے کے بعد) انگلیاں چاٹنے کا بیان۔
Chapter: Licking the fingers
حدیث نمبر: 3269
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن ابي عمر العدني ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عمرو بن دينار ، عن عطاء ، عن ابن عباس ، ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" إذا اكل احدكم طعاما فلا يمسح يده حتى يلعقها، او يلعقها"، قال سفيان: سمعت عمر بن قيس يسال عمرو بن دينار: ارايت حديث عطاء، لا يمسح احدكم يده حتى يلعقها او يلعقها، عمن هو؟ قال: عن ابن عباس، قال: فإنه حدثناه عن جابر، قال: حفظناه من عطاء، عن ابن عباس، قبل ان يقدم جابر علينا، وإنما لقي عطاء جابرا في سنة جاور فيها بمكة.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ طَعَامًا فَلَا يَمْسَحْ يَدَهُ حَتَّى يَلْعَقَهَا، أَوْ يُلْعِقَهَا"، قَالَ سُفْيَانُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ قَيْسٍ يَسْأَلُ عَمْرَو بْنَ دِينَارٍ: أَرَأَيْتَ حَدِيثَ عَطَاءٍ، لَا يَمْسَحْ أَحَدُكُمْ يَدَهُ حَتَّى يَلْعَقَهَا أَوْ يُلْعِقَهَا، عَمَّنْ هُوَ؟ قَالَ: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَإِنَّهُ حُدِّثْنَاهُ عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: حَفِظْنَاهُ مِنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَبْلَ أَنْ يَقْدَمَ جَابِرٌ عَلَيْنَا، وَإِنَّمَا لَقِيَ عَطَاءٌ جَابِرًا فِي سَنَةٍ جَاوَرَ فِيهَا بِمَكَّةَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اپنے ہاتھ نہ پونچھے یہاں تک کہ وہ چاٹ لے یا کسی اور کو چٹا دے، سفیان (ابن عیینہ) کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن قیس کو عمرو بن دینار سے سوال کرتے سنا کہ عطا کی حدیث: تم میں سے کوئی اپنا ہاتھ نہ صاف کرے یہاں تک کہ وہ اسے چاٹ لے یا کسی اور کو چٹا دے کے بارے میں بتاؤ، وہ کس سے مروی ہے؟ عمرو بن دینار نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے کہا: ہمیں یہ حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے، عمرو بن دینار نے کہا: ہم نے یہ حدیث عطاء سے اور عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یاد کی ہے، اور یہ بات جابر رضی اللہ عنہ کے ہمارے پاس آنے سے پہلے کی ہے جب کہ عطاء کی ملاقات جابر رضی اللہ عنہ سے اس سال ہوئی جب وہ مکہ میں قیام پزیر ہوئے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «حدیث جابر تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2467)، وحدیث ابن عباس أخرجہ: صحیح البخاری/الأطعمة 52 (5456)، صحیح مسلم/الأشربة 18 (2031)، (تحفة الأشراف: 5942)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأطعمة 52 (3847)، مسند احمد (1/293، 346، 370)، سنن الدارمی/الأطعمة 6 (2069) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اپنی بیوی یا بچہ یا لونڈی یا غلام کو، امام نووی کہتے ہیں کہ کھانے کی سنت میں سے یہ ہے کہ انگلیاں چاٹنا، اور تین انگلیوں سے کھانا، اور انگلیاں نہ چاٹنا کھانا ضائع کرنا ہے، اور شیطان کو دینا ہے، اور تکبر کی نشانی ہے، اسی طرح جو لقمہ دسترخوان پرگر جائے اس کا اٹھا لینا سنت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري5456عبد الله بن عباسأكل أحدكم فلا يمسح يده حتى يلعقها أو يلعقها
   صحيح مسلم5294عبد الله بن عباسإذا أكل أحدكم طعاما فلا يمسح يده حتى يلعقها أو يلعقها
   صحيح مسلم5295عبد الله بن عباسإذا أكل أحدكم من الطعام فلا يمسح يده حتى يلعقها أو يلعقها
   سنن أبي داود3847عبد الله بن عباسإذا أكل أحدكم فلا يمسحن يده بالمنديل حتى يلعقها أو يلعقها
   سنن ابن ماجه3269عبد الله بن عباسإذا أكل أحدكم طعاما فلا يمسح يده حتى يلعقها أو يلعقها
   بلوغ المرام1241عبد الله بن عباس‏‏‏‏إذا اكل احدكم طعاما فلا يمسح يده حتى يلعقها او يلعقها
   مسندالحميدي497عبد الله بن عباسإذا أكل أحدكم فلا يمسح يديه حتى يلعقها أو يلعقها
   مسندالحميدي1270عبد الله بن عباسإنه لا يدري في أي ذلك البركة؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1241  
´کھانا ختم کرنے پر ہاتھ چاٹنے کی تاکید`
«وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إذا اكل احدكم طعاما فلا يمسح يده حتى يلعقها او يلعقها . متفق عليه»
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو وہ اپنا ہاتھ صاف نہ کرے یہاں تک کہ اسے خود چاٹ لے یا کسی کو چٹا دے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1241]
تخریج:
[بخاري: 5456]،
[مسلم، الاشربة 5294]،
[بلوغ المرام: 1241]،
[تحفة الاشراف 88/5 و 945]

فوائد:
«لا يمسح يده» ہاتھ صاف کرنے سے مراد رومال یا تولئے کے ساتھ ہاتھ صاف کرنا ہے جیسا کہ
صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ولا يمسح يده بالمنديل حتى يلعق أصابعة»
اپنا ہاتھ تولئے کے ساتھ صاف نہ کرے یہاں تک کہ اپنی انگلیاں چاٹے۔ [الأشربة 134]
شروع ایام میں صحابہ کرام کے پاس تولئے نہیں ہوتے تھے آگ سے تیار شدہ کھانا بھی کم ہی ملتا تھا ان دنوں میں وہ انگلیاں چاٹنے کے بعد انہیں اپنی ہتھیلیوں، کلائیوں اور پاؤں کے ساتھ ہی صاف کر لیتے تھے۔ اور (دوبارہ) وضوء کئے بغیر نماز پڑھ لیتے تھے۔ [بخاري عن جابر 5457]
➋ ہاتھ چاٹنے کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے۔
«فائه لا يدري فى أى طعامه تكون البركة» [مسلم عن جابر /الأشربة 35]
کہ کھانے والے کو معلوم نہیں کہ اس کے کھانے کے کون سے حصے میں برکت ہے۔
➌ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ صاف کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی فرمایا کہ اگر لقمہ گر پڑے تو اٹھا کر صاف کر کے کھا لے شیطان کے لئے نہ چھوڑے۔ [مسلم الاشربة: 137]
➍ برکت کا مطلب یہ ہے کہ وہ آسانی سے ہضم ہو جائے، پوری طرح جزو بدن بنے، کسی بیماری کا باعث نہ بنے، اللہ کی اطاعت میں مددگار بنے۔ «والله اعلم» [نووي]
برکت میں یہ بھی شامل ہے کہ اس سے بھوک کا احساس مٹ جائے کیونکہ بعض اوقات آدمی بہت سا کھانا کھاتا ہے اس کا پیٹ بھر جاتا ہے مگر بھوک نہیں مٹتی، حرص ختم نہیں ہوتی بلکہ کھاتا ہی چلا جاتا ہے اور آخر کار وہ کھانا اس کے لئے بوجھ اور بیماری کا باعث بن جاتا ہے اور بعض اوقات چند لقموں کے بعد ہی طبیعت سیر ہو جاتی ہے اور اسے بہترین فرحت کا احساس ہوتا ہے یہ اس برکت کا اثر ہے جو کھانے کے کسی لقمے کے ضمن میں اسے حاصل ہو گئی۔
➎ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانے کے بعد ہاتھ دھونا ضروری نہیں صرف پونچھ لینا ہی کافی ہے مزید دیکھئے اس حدیث کا فائدہ نمبر 1۔
اپنا ہاتھ خود چاٹ لے یا کسی کو چٹا دے
یعنی جو اس کا ہاتھ چاٹنے سے کراہت محسوس نہ کرتا ہو مثلاً بیوی، بچہ یا بھائی وغیرہ اگر بکری یا گائے کو چٹا دے تب بھی درست ہے کہ برکت ضائع تو نہ ہوئی۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 38   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1241  
´ادب کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اپنا ہاتھ چاٹنے یا چٹوانے سے پہلے (رومال وغیرہ سے) صاف نہ کرے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1241»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأطعمة، باب لعق الأصبابع ومصها قبل أن تمسح بالمنديل، حديث:5456، ومسلم، الأشربة، باب استحباب لعق الأصابع والقصعة...، حديث:2031.»
تشریح:
1. اس حدیث میں کھانا تناول کرنے کے آداب میں سے ایک ادب کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کھانا کھانے کے بعد ہاتھ رومال وغیرہ سے صاف کرنے سے پہلے انگلیوں کو اپنی زبان سے چاٹ کر یا دوسرے کسی سے چٹوا کر صاف کرنا چاہیے۔
عین ممکن ہے کہ ہاتھ پر لگے ہوئے کھانے ہی میں برکت ہو۔
2.کھانے کے دوران میں ہاتھوں کو رومال وغیرہ سے صاف کرتے رہنا یا انگلیوں کو چاٹنے سے پہلے صاف کرنا درست نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1241   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3847  
´رومال کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اپنا ہاتھ اس وقت تک رومال سے نہ پونچھے جب تک کہ اسے خود چاٹ نہ لے یا کسی کو چٹا نہ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3847]
فوائد ومسائل:

یہ رسول اللہ ﷺ کی نفاست طبع کا تقاضا تھا کہ آپ ﷺ کھانا کھاتے ہوئے پانچوں انگلیوں کی بجائےتین یعنی ایک انگوٹھا اور دو انگلیوں کو استعمال فرماتے۔
(دیکھئے۔
حدیث 3848)
طعام کھانے کےلئے ہے اور جو انگلیوں پر لگا رہ جائے۔
اسے ضائع کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
اس کا کھا لینا ہی مناسب ترین ہے۔
خاندان میں محبت اور اپنایئت کے جو رشتےہوتے ہیں۔
ان کی وجہ سے گھر کے افراد ایک دوسرے کا بچہ ہوا کھانا کھاتے ہیں۔
جو کہ انتہائی پیارا اور پسندیدہ عمل ہے۔
نیز اگر کھانا کھاتے ہوئے سالن اگر انگلیوں کو لگ جائے تو وہ اپنے بچوں کو یا اپنی بیوی کو یا دیگرافراد کو چٹوا دے تو یہ عمل جائز اور مباح ہے۔


انگلیاں چاٹ کر یا چٹوا کر رومال سے ہاتھ صاف کر لینا جائز ہے۔
اور شرعا یہ ضروری نہیں کہ ہاتھ فوری طور پر پانی ہی سے دھوئے، جایئں البتہ سونے سے پہلے دھولینا زیادہ بہتر ہے۔
دیکھئے۔
حدیث 3852)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3847   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.