الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book of Zakah
25. بَابُ : مَا يُوجِبُ الْعُشْرَ وَمَا يُوجِبُ نِصْفَ الْعُشْرِ
25. باب: کس غلہ میں دسواں حصہ واجب ہے اور کس میں بیسواں حصہ؟
Chapter: On What One-Tenth Is Due, And on What One-Half Of One-Tenth Is Due
حدیث نمبر: 2490
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا هارون بن سعيد بن الهيثم ابو جعفر الايلي، قال: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" فيما سقت السماء، والانهار، والعيون او كان بعلا العشر، وما سقي بالسواني، والنضح نصف العشر".
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْهَيْثَمِ أَبُو جَعْفَرٍ الْأَيْلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَالْأَنْهَارُ، وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ بَعْلًا الْعُشْرُ، وَمَا سُقِيَ بِالسَّوَانِي، وَالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے نہر اور چشمے سینچیں یا جس زمین میں تری رہتی ہو ۱؎ اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے۔ اور جو اونٹوں سے سینچا جائے یا ڈول سے اس میں بیسواں حصہ ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة55 (1483)، سنن ابی داود/الزکاة11 (1596)، سنن الترمذی/الزکاة44 (640)، سنن ابن ماجہ/الزکاة17 (1817)، (تحفة الأشراف: 6977) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اسے سینچنے کی ضرورت نہ پڑتی ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
   صحيح البخاري1483عبد الله بن عمرفيما سقت السماء والعيون أو كان عثريا العشر ما سقي بالنضح نصف العشر
   جامع الترمذي640عبد الله بن عمرسن فيما سقت السماء والعيون أو كان عثريا العشر فيما سقي بالنضح نصف العشر
   سنن أبي داود1596عبد الله بن عمرفيما سقت السماء والأنهار والعيون أو كان بعلا العشر فيما سقي بالسواقي والنضح فنصف العشر
   سنن ابن ماجه1817عبد الله بن عمرفيما سقت السماء والأنهار والعيون أو كان عثريا العشر فيما سقي بالنضح نصف العشر
   المعجم الصغير للطبراني418عبد الله بن عمرفيما سقت السماء العشر فيما سقي بالنضح نصف العشر
   سنن النسائى الصغرى2490عبد الله بن عمرفيما سقت السماء والأنهار والعيون أو كان بعلا العشر ما سقي بالسواني أو النضح نصف العشر
   بلوغ المرام495عبد الله بن عمر‏‏‏‏فيما سقت السماء والعيون او كان عثريا العشر وفيما سقي بالنضح نصف العشر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2490  
´کس غلہ میں دسواں حصہ واجب ہے اور کس میں بیسواں حصہ؟`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے نہر اور چشمے سینچیں یا جس زمین میں تری رہتی ہو ۱؎ اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے۔ اور جو اونٹوں سے سینچا جائے یا ڈول سے اس میں بیسواں حصہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2490]
اردو حاشہ:
(1)  اس سے ماقبل احادیث میں عشر والی فصل کا نصاب بیان کیا گیا تھا کہ کتنی فصل میں زکاۃ آئے گی؟ اس حدیث میں اس کی مقدار بیان کی گئی ہے کہ کتنی زکاۃ آئے گی؟
(2) باقی تمام چیزوں میں زکاۃ سال کے بعد واجب ہوتی ہے، مثلاً: جانور، سونا، چاندی، رقم اور سامان تجارت، مگر غلہ اور پھلوں، یعنی فصل کی زکاۃ اس کی پیداوار کے موقع پر ہوتی ہے، اس کے لیے ایک سال کی قید نہیں۔ عموماً ہر فصل سال میں ایک دفعہ ہی ہوتی ہے، اس لیے گویا اس میں بھی زکاۃ سال بعد ہی ہوئی، البتہ ادائیگی فصل کی کٹائی کے موقع ہی پر واجب ہوتی ہے۔
(3) جانوروں کی زکاۃ مخصوص ہے جو تفصیل سے پیچھے بیان ہوئی سونا، چاندی، رقم اور سامان تجارت کی زکاۃ کل مالیت کا چالیسواں حصہ ہوتی ہے لیکن فصل کی زکاۃ دسواں اور بیسواں حصہ ہوتی ہے اور اسے عموماً عشر کہا جاتا ہے۔
(4) فصل کی زکاۃ پانی کے لحاظ سے ہے۔ چونکہ فصل پانی کے بغیر نہیں ہوتی، لہٰذا پانی کا لحاظ ناگزیر تھا۔ اس سلسلے میں ضابطہ یہ ہے کہ جس پانی کے مہیا کرنے میں کوئی مشقت نہ ہو اور نہ اخراجات کرنے پڑتے ہوں، اس سے سیراب ہونے والی فصل کا دسواں حصہ (عشر بطور زکاۃ دینا ہوگا، مثلاً: بارش، دریاؤں، اور چشموں کا پانی اپنے آپ نظام کائنات کے تحت فصل تک پہنچتا ہے، صرف پانی کو روکنا، موڑنا اور کھولنا ہی پڑتا ہے اور یہ کوئی مشقت نہیں، کوئی زیادہ اخراجات بھی نہیں آتے، لہٰزا اس میں زکاۃ کی مقدار زیادہ رکھی گئی۔ اور جس پانی کے مہیا کرنے میں زیادہ مشقت ہو یا اخراجات کرنے پڑتے ہوں، اس سے سیراب ہونے والی فصل میں بیسواں حصہ (نصف عشر زکاۃ لاگو ہوگی، مثلاً: کنویں سے پانی نکالنا بہت مشقت کا کام ہے، خواہ ڈول کے ذریعے سے نکالا جائے یا جانور کے ذریعے سے یا ٹیوب ویلوں کے ذریعے سے۔ اسی طرح اگر پانی دور سے مشکیزوں یا برتنوں میں لا کر فصل سیراب کرنی پڑے تو بھی بہت مشقت ہے، نیز اس میں اخراجات بھی کرنے پڑتے ہیں اور جانوروں کو استعمال کرنا پڑتا ہے، لہٰذا ان میں زکاۃ کی مقدار کم رکھی گئی ہے۔
(5) بعض علاقوں میں نہری پانی ہوتا ہے، اپنے آپ پہنچتا ہے مگر آبیانہ دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر نہری پانی کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویل کا پانی بھی لگانا پڑتا ہو جس میں بہت اخراجات آتے ہیں یا فصل صرف ٹیوب ویل کے ذریعے سے سیراب ہوتی ہو تو ان صورتوں میں بیسواں حصہ زکاۃ ہوگی۔ ٹیوب ویل، کنویں اور رہٹ کے حکم میں ہے۔
(6) زکاۃ کس فصل میں ہے؟ یہ کافی اختلافی مسئلہ ہے، البتہ غلہ جات پر عشر متفقہ ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے ہر اس فصل پر زکاۃ واجب کی ہے جو خوراک ہو اور اسے ذخیرہ کیا جا سکے۔ احناف نے ماپی اور تولی جانے والی چیز میں زکاۃ واجب کی ہے بشرطیکہ اسے ذخیرہ کیا جا سکے، خوراک ہونا ضروری نہیں۔ جمہور اہل علم نے ذخیرہ ہو سکنے کو شرط مانا ہے۔ باقی رہے وہ پھل اور سبزیاں جو ذخیرہ نہیں ہو سکتے، جمہور کے نزدیک ان میں عشر نہیں، البتہ جن پھلوں کو کسی طریقے سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، ان میں عشر ہے، مثلاً: انگور کو منقیٰ کی صورت میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ خوبانیوں کو بھی خشک کیا جا سکتا ہے۔ کماد کو چونکہ چینی شکر اور گڑ کی صورت میں محفوظ کیا جا سکتا ہے، لہٰذا اس پر بھی عشر ہے۔ کپاس بھی قابل ذخیرہ چیز ہے، لہٰذا اس میں بھی عشر ہے، البتہ اس کے نصاب میں اختلاف ہے۔ اجتہاد کے ذریعے سے اس کے قلیل وکثیر میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ چارہ وغیرہ جو جانوروں کے لیے کاشت کیا جاتا ہے، عشر سے مستثنیٰ ہے کیونکہ یہ وقتی ضرورت کے لیے ہے۔
(7) اس روایت کے ظاہر سے استدلال کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ زمین کی ہر قلیل اور کثیر پیداوار میں عشر ہے، مگر نصاب کے بارے میں صریح روایات اس استدلال کے خلاف ہیں۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ جب باقی چیزوں، مثلاً: سونے، چاندی اور جانوروں وغیرہ میں نصاب معتبر ہے تو کیا وجہ ہے کہ فصل میں نصاب معتبر نہ ہو؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2490   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1817  
´غلوں اور پھلوں کی زکاۃ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو غلہ اور پھل بارش، نہر، چشمہ یا زمین کی تری (سیرابی) سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اور جسے جانوروں کے ذریعہ سینچا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1817]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بعل نمی سے سراب ہونے والا، یعنی جسے بارش اور آبپاشی کی ضرورت نہ ہو جیسے دریا کے قریب کی زمین میں اگنے والی فصل ہوتی ہے۔
اسی طرح کھجور کے درختوں کی جڑیں بھی بہت گہرائی میں چلی جاتی ہیں تو بعض علاقوں میں ان کو آب پاشی کی ضرورت نہیں رہتی۔
ایسی پیداوار میں دسواں حصہ زکاۃ ہے۔

(2)
سَوَانِی کا واحد سَانِیَة ہے، یعنی وہ اونٹنی جس پر لاد کر پانی لایا جائے۔
آج کل بعض مقامات پر ٹینکروں یا پائپ لائنوں کے ذریعے سے پانی پہنچایا جاتا ہے جس پر کافی خرچ آتا ہے یہ بھی اسی حکم میں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1817   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 495  
´زمین کو مختلف ذرائع سے سیراب کرنے کی صورت میں زکاۃ (عشر) کی نوعیت بھی مختلف ہے`
سیدنا سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو زمین آسمانی بارش اور چشموں سے سیراب ہوتی ہو یا رطوبت والی ہو اس میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے (عشر ہے) اور جو زمین پانی کھینچ کر سیراب کی جاتی ہو۔ اس میں بیسواں حصہ (نصف عشر) ہے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 495]
لغوی تشریح:
«فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ» اس سے مراد بارش، اولے، برف، شبنم وغیرہ ہے، اور یہ خبر مقدم ہے۔
«وَالْعُيُونُ» «عين» کی جمع ہے۔ ان چشموں کو کہتے ہیں جو زمین کا پیٹ چاک کر کے نکل آتے ہیں اور کبھی کبھی ان سے نہریں بن جایا کرتی ہیں اور بسا اوقات نالوں کی صورت میں پانی بہتا ہے اور ان سے پانی لینا آسان ہوتا ہے، نہ تو بار بار ان سے چلو بھرنے پڑتے ہیں اور نہ کسی آلے کے ذریعے سے نکالنے کا تکلف کرنا پڑتا ہے، بلکہ بغیر کسی مشقت و محنت کے ان کا پانی حاصل ہو جاتا ہے۔
«اَوْ كَانَ عَثَرِيّاً» عین اور ثا دونوں پر فتحہ را کے نیچے کسرہ اور یا پر تشدید ہے۔ وہ زمین جو اپنی جڑوں کے ذریعے سے پانی کھنیچ کر خوراک حاصل کر کے پروان چڑھتی ہے۔ زمین میں کیونکہ نمی ہوتی ہے اور پانی سطح زمین کے قریب ہوتا ہے، اس لیے وہ زمین بغیر سیراب کیے، بغیر نالوں کا تکلف کیے پانی حاصل کرلیتی ہے
«اَلَعشْرُ» مبتدا موخر ہے۔ عین پر ضمہ اور شین ساکن ہے۔ ایک چیز کے دس حصے کر لیے جائیں تو اس کا ایک جز عشر کہلائے گا۔
«وَفِيمَا سُقِيَ» صیغہ مجہول۔ اس زمین میں جسے سیراب کیا جائے۔
«بِاانَّصَحِ» نضح کے نون پر فتحہ اور ضاد ساکن ہے۔ اصل میں اس کے معنی ہیں: پانی کا چھڑکاو کرنا اور بہا دینا۔ یہاں وہ اونٹ مراد ہیں جن کے ذریعے سے پانی لاکر زمین سیراب کی جاتی ہے۔ اونٹ کی طرح بیل اور گدھے بھی مراد ہیں جن سے پانی حاصل کرنے کی خدمت لی جاتی ہے۔
«بَعْلً» ا یعنی «عَثَرِيًّا» کے بدلے «بَعْلًا» کا لفظ روایت کیا ہے۔ «بَعْل» کی با پر فتحہ اور عین ساکن ہے۔ اس سے مراد وہ زمین ہے جو سیراب کیے بغیر زمین کی نمی و رطوبت یا آسمانی بارش کے ذریعے سے سیراب ہوتی ہو۔ اس کے معنی بھی قریب قریب وہی ہیں جو «عثري» (نمی والی زمین) کے ہیں، یا پھر دونوں مترادف المعنی ہیں۔
«بِالسَّوَاني اَوِ النَّضْح سَوَانِي»، «سَانِيَةٌ» کی جمع ہے۔ عطف اس کا تقاضا کرتا ہے کہ «سَانِيَةَ» اور «نَضْح» کے معنی الگ الگ ہوں مگر عموماً علماء نے انہیں مترادف قرار دیا ہے جیسا کہ ابھی ہم نے ذکر کیا ہے لیکن قابل اعتماد بات یہ ہے کہ «سائيه» جانوروں کے ذریعے سے پانی لاکر زمین کو سیراب کرنے کا نام ہے اور نضح عام ہے۔ اس جانوروں کے ساتھ ساتھ سیراب کرنے کے تمام ذرائع و آلات شامل ہیں۔ اس طرح عام عطف خاص پر ہے۔ اور خلاصہ کلام یہی ہے کہ جس زمین کا سیراب کرنا مشقت طلب اور باعث تھکاوٹ ہو۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمین کو مختلف ذرائع سے سیراب کرنے کی صورت میں زکاۃ (عشر) کی نوعیت بھی مختلف ہے، مثلاً: جو زمین مشقت طلب ذریعے سے سیراب ہو، جیسے اونٹ، بیل یا آدمی پانی نکال کر یا لا کر سیراب کرتے ہوں تو اس زمین کی پیداوار پر نصف عشر (بیسواں) حصہ ہے۔ اسی طرح اگر زمین کنوئیں اور ٹیوب ویل کے پانی سے یا پانی خرید کر سیراب کی جاتی ہو تب بھی نصف عشر (بیسواں حصہ) ہے۔ آج کل آبیانہ دے کر زمین سیراب کی جاتی ہے۔ یہ آبیانہ مشقت و محنت کے قائم مقام ہے، لہٰذا موجودہ نظام کے تحت نہری پانی سے سیراب کی جانے والی زمینوں کی پیداوار میں بھی بیسواں حصہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 495   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.