انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز بیداء میں پڑھی، پھر سوار ہوئے اور بیداء پہاڑ پر چڑھے، اور ظہر کی نماز پڑھ کر حج و عمرے کا احرام باندھا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 21 (1774)، (تحفة الأشراف: 524)، مسند احمد (3/207)، ویأتی عند المؤلف بأرقام 2756، 2934 (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ’’حسن بصری‘‘ مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں، دیکھئے صحیح ابی داود ج6/ص 19، 20 رقم 1555، 1556)»
وضاحت: ۱؎: بیداء چٹیل میدان کو کہتے ہیں اور یہاں ذوالحلیفہ کے قریب ایک مخصوص جگہ مراد ہے آگے بھی اس لفظ سے یہی جگہ مراد ہو گی، اور جہاں تک آپ کے بیداء میں ظہر کی نماز پڑھنے کا معاملہ ہے تو کسی راوی سے وہم ہو گیا ہے، انس رضی الله عنہ ہی سے بخاری (کتاب الحج، ۲۷) میں مروی ہے کہ آپ نے ظہر مدینہ میں چار پڑھی اور عصر ذوالحلیفہ میں دو پڑھی، اور نماز کے بعد ہی احرام باندھ لیا، یعنی حج و عمرہ کی نیت کر کے تلبیہ پکارنا شروع کر دیا تھا، اور ہر جگہ پکارتے رہے، اب جس نے جہاں پہلی بار سنا اس نے وہیں سے تلبیہ پکارنے کی روایت کر دی، سنن ابوداؤد (کتاب الحج، ۲۱) میں عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کی مفصل روایت ان تمام اختلافات و اشکالات کو دور کر دیتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1774) وحديث الآتي (2756،2934) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 342
صلى النبي الظهر بالمدينة أربعا والعصر بذي الحليفة ركعتين بات بها فلما أصبح ركب راحلته فجعل يهلل ويسبح لما علا على البيداء لبى بهما جميعا لما دخل مكة أمرهم أن يحلوا نحر النبي بيده سبع بدن قياما ضحى بالمدينة كبشين
صلى رسول الله ونحن معه بالمدينة الظهر أربعا والعصر بذي الحليفة ركعتين بات بها حتى أصبح ركب حتى استوت به على البيداء حمد الله وسبح وكبر ثم أهل بحج وعمرة وأهل الناس بهما لما قدمنا أمر الناس فحلوا حتى كان يوم التروية أهلوا بالحج
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2663
´بیداء کا بیان۔` انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز بیداء میں پڑھی، پھر سوار ہوئے اور بیداء پہاڑ پر چڑھے، اور ظہر کی نماز پڑھ کر حج و عمرے کا احرام باندھا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2663]
اردو حاشہ: بیداء کے لفظی معنیٰ تو بے آب و گیاہ میدان ہیں مگر یہاں ایک مخصوص مقام مراد ہے جو ذوالحلیفہ کی وادی سے نکلتے ہی آ جاتا ہے۔ یہ اونچی جگہ ہے، اسی لیے اسے بعض روایات میں ٹیلہ اور بعض میں پہاڑ کہا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2663
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1773
´احرام کے وقت کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر چار رکعت اور ذی الحلیفہ میں عصر دو رکعت ادا کی، پھر ذی الحلیفہ میں رات گزاری یہاں تک کہ صبح ہو گئی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر بیٹھے اور وہ آپ کو لے کر سیدھی ہو گئی تو آپ نے تلبیہ پڑھا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1773]
1773. اردو حاشیہ: قصر نماز سفر شروع ہونے کے بعد ہی پڑھی جاتی ہے اور ذوالحلیفہ آپ کے سفرکی پہلی منزل تھی اور یہی اہل مدینہ کی میقات احرام ہے اور نبی ﷺ نے یہیں دوسرے دن ظہر کی نماز کے بعد احرام باندھا اور تلبیہ پکارنا شروع کیا۔ اس حدیث سے واضح ہے کہ نبی ﷺ نے احرام کی دورکعتیں نہیں پڑھیں۔اگلی روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1773